اقول: و ھذا ایضا من ابین الا با طیل و خلا ف اجما ع ائمتنا الکر ام فاولا قد اجمعوا للجمعۃ اذانین و ثانیا یعاد اذا ن الجنب لا اقامتہ علی المذھب و عللو ہ بان تکر ار الا ذان مشر و ع دون الا قا مۃ کما فی الہدا یہ۱؎ وا ستشہد وا علیہ باذان الجمعۃ قال فی الکا فی و التبیین و العنا یۃ والدر المختا ر و غیر ھا فا ن تکر ا ر الا ذا ن مشر و ع فی الجملۃ کما فی الجمعۃ ۲؎ الی ھنا متفقو ن ثم قا ل فی الکا فی فا ما تکر ا ر الا قا مۃ فغیر مشروع اصلا ۳؎ و فی التبیین دون الا قا مۃ ۴؎ وفی العنا یۃ بخلا ف الا قا مۃ ۵؎ ونظم الدر لمشر و عیۃ تکر ارہ فی الجمعۃ دون تکرا ر ھا۱؎، اھ ۔فلو لم یکن الثا نی اذا نا مثل الا ول فا ین التکرا ر ۔
میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی بالکل غلط اور ظاہر البطلان ہے کہ یہ بھی ہمارے علما کرام کے اجماع کے خلاف ہے۔(۱) سارے ائمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جمعہ کے لئے دو اذانیں ہیں۔ (۲) جنبی کی اذان دہرائی جائیگی اقامت نہیں دہرائی جائے گی۔ دلیل یہ دی گئی کہ اذان کی تکرار مشروع ہے اقامت کی نہیں ۔ہدایہ میں اس کی تصریح ہے، اور تکرار اذان کے جواز کے ثبوت میں اذان جمعہ کو ہی پیش کیا گیا ہے۔چناچہ کافی، تبیین، عنایہ اور درمختار میں ہے'':اذان کی تکرار فی الجملہ مشروع ہے۔''یہاں تک کہ پانچوں کتابوں کی عبارت میں اتفاق ہے ، آگے کافی میں فرماتے ہیں؛''اقامت کی تکرار تو بالکل جائز نہیں''۔ تبیین میں صرف یہ ہے ؛''اقامت کا یہ حکم نہیں ۔''عنایہ میں ہے:''بخلاف اقامت کے۔''اور درمختار کی عبارت یوں ہے:''اذان کی تکرار جمعہ میں مشروع ہے نہ کہ اقامت کی تکرار۔'' پس اذان ثانی اگر اذان اول کی طرح ہی اذان نہ ہو تو اس کی تکرار کس طرح ہوگی۔
(۱؎الہد یۃ کتا ب الصلوۃ با ب الاذا ن المکبۃ العر بیۃ کرا چی ۱/ ۷۴)
(۲؎العنا یۃ علی ھا مش فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۲۰۰)
(تبیین الحقا ئق کتا ب الصلوۃ با ب الاذا ن دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۱/ ۲۴۹)
(۳؎البحر ائق کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن تحت قول المصنف و کر ہ اذا ن الجنب الخ ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۱/ ۶۳)
(۴؎تبین الحقا ئق کتا ب الصلو ۃ با ب الاذ ان دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۱/ ۲۴۹)
(۵؎العنا یۃ علی ھا مش فتح القد یر کتا ب الصلوۃ با ب الاذ ان مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۲۰۰)
(۱؎الدر المختار کتا ب الصلو ۃ با ب الاذا ن مطبع مجتبا ئی دہلی ۱/ ۶۴)
وثا لثا صر یح نص البحر فی البحر لان تکرارہ مشر وع کما فی اذان الجمعۃ لانہ لاعلا م الغا ئبین فتکر یر ہ مفید لا حتما ل عد م سما ع البعض بخلا ف تکر ا ر الا قا مۃ اذھو غیر مشر و ع ۲؎، اھ ورابعا لم تغیر الا ذان عما کا ن علیہ بحد و ث الا ول لا ن الا علا م حصل با لا و ل فلا یحصل با لثا نی فانسلخ ضرورۃ عن الا ذا نیۃ و کو نہ اعلا ما للغا ئبین ام لا ن امیر المومنین عثمن ھو الذی قطعہ عما کا ن الا ول با طل اجماعا فما التثو یب الا علا م بعد الا علا م و کرہ المتقد مو ن واستحسنہ المتا خر ون فکا ن ھذا اجما عا منھم علی ان الا علا م مما یقبل التکر ار اذلو استحا ل لاستحا ل ان یکو ن مکرو ھا او حسنا و ایضا کفی للر د علیہ کلا م البحر ،والثا نی ،اشد واشنع واشر واخنع ان یکو ن امیر المومنین بدل و حرف سنۃ محمد صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم حا شا ہ من ذلک نعم للخلفا ء الراشد ین ان یضیفو ا سنۃ کما اضا ف الا ذا ن الاول یو م الجمعۃ و تبعہ علیہ المسلمو ن فی عا مۃ البلا د واما ان یغیر وا سنتہ فکلا ،واجا ر ھم اللہ تعا لی عن ذلک الا تری الی ما قا ل رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ستۃ لعنتھم و لعنھم اللہ و کل نبی مجا ب و ذکر منھم التا رک بسنتی رواہ التر مذی ۱؎عن ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ تعا لی عنہا و الحاکم عنھا و عن امیر المو منین علی روا ہ الطبرا نی فی الکبیر عن عمر و بن سعواء رضی اللہ تعا لی عنھم بلفظ سبعۃ لعنتھم و کل نبی مجا ب ۱؎
(۳) علامہ بحر نے اپنی کتاب بحرالرائق میں صریح عبارت ارشاد فرمائی:'' اس لئے کہ اذان کی تکرار شرعا جائز ہے، جیسے جمعہ کی اذان کہ بار بار ہوتی ہے اس لئے کہ وہ غائبین کے اعلان کے لئے ہوتی ہے ۔ تو اس کے بار بار کرنے میں فائدہ ہے کہ کسی نے پہلے نہ سنا ہو تو اب سن لے گا،البتہ اقامت کی تکرار جائز نہیں ۔''(۴) اذان خطبہ کے اذان ہو کر اذان نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایجاد کردہ اذان سے اعلام غائبین کی ضرورت پوری ہوگئی تو اب اذان خطبہ کی ضرورت نہیں رہی ، تو یہ اذان نہ رہی۔ یا یہ وجہ ہوگی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالےٰ عنہ نے پہلی اذان ایجاد فرما کر یہ کہا کہ اب اذان خطبہ اذان نہ رہی بلکہ اس سے اطلاع حاضرین کا کام لیا جائے گا۔ پہلی بات تو باطل ہے کہ تثویب بھی تو اعلام بعد الاعلام یہ ہے جسے متقدمین نے مکروہ کہا اور متاخرین نے مستحسن گردانا۔ تو متاخرین اور متقدمین دونوں نے مل کر یہ طے کردیا اعلام تکرار کا امکان رکھتا ہے۔ اگر محال ہوتا تو نہ مستحسن ہو سکتا نہ مکروہ۔ پھر اس کے رد کے لئے صاحب بحر الرائق کا کلام ہی کافی ہے۔دوسری بات باطل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی بری اور گندی بھی ہے کہ امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور سید کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سنت بدل ڈالی۔ پناہ بخدا خلفائے راشدین اس سے بری ہیں وہ آپ کی سنتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں اس میں تغیر و تبدل نہیں کرسکتے۔جیسا کہ آپ نے جمعہ کے دن اذان کی سنت میں ایک اذان کااضافہ کیا۔جمیع اہل اسلام نے تمام شہروں میں اس کی اتباع کی۔ آپ کی سنت بدلنے سے اللہ تعالٰی انہیں محفوظ رکھا ۔ تم نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا ، آپ فرماتے ہیں:''چھ آدمیوں پر میں نے لعنت کی ، اور اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی اور ہر نبی مجاب الدعوات نے ۔ان چھ آدمیوں میں سے ایک سنت بدلنے والا ہے۔''اس حدیث کو ترمذی نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ، حاکم نے ام المومنین اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ، اور طبرانی نے کبیر میں عمرو بن سعواء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بلفظ سبعۃ لعنتھم و کل نبی مجاب روایت فرمایا،
(۲؎بحر ا الر ئق کتا ب الصلو ۃ با ب الاذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۶۳)
(۱؎سنن التر مذی کتاب القد ر حدیث۲۱۶۱ دا ر الفکر بیر و ت ۴/ ۶۱)
(المستد رک للحا کم کتا ب الا یما ن ستۃ لعنتہم الخ دا رالفکر بیر وت ۱/ ۳۶)
(المستد ر ک للحا کم کتا ب التفسیر تفسیر سو ر ۃ واللیل اذا یغشی دارالفکر بیر وت ۲/ ۵۲۵)
(۱؎ المعجم الکبیر حدیث ۸۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیر و ت ۱۷/ ۴۳)
والعجب ممن یقو ل ان عدم اعتبار تغییر عثمن ضلا لۃ بتعلیمہ و لا ید ری المسکین ان نسبۃ تغییر السنۃ الی عثمن ھو الضلا ل البعید ،ھذا وجہ و کفی بہ وجھا وجیھا الثا نی حیث یسو غ الاعلا م مکر را فمن ذا ا لذی اخبر کم ان عثمن قطعہ عنہ أاقرا نی قطعتہ ام امر الموذن ان لا یتو بہ او امر ہ ان یخففہ او یخفیہ ام تقولو ن علی عثما ن ما لا تعلمو ن ولا تعلمو ن انکم مسؤلو ن قا ل تعا لی :
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر و الفوا د کل اولئک کا ن عنہ مسئو لا ۲؎
الثالث حصو ل الا علا م کا ن لا زم الا ذا ن ان کا ن علی وجہ المعہو د علی عہد الرسا لۃ فلا ینقطع عنہ الا با حد ا ث فیہ یقعدہ عن الا علا م السا لف و کیف یظن ھذا بعثمن فا ن فیہ تقلیل الفا ئد ۃ الشر عیۃ و ذلک انہ رضی اللہ تعا لی عنہ احدث الاذان الا ول لما کثر ا لنا س فما ذا کا ن یغیرہ ھذا الثانی ان بقی علی ماکان علیہ فی عہد الرسالۃ و الخلافتین کی یسمعہ من لم یسمع الا و ل کما تقد م عن البحر فا لذی یزعم ان عثمن احد ث فیہ ما قطعہ من کو نہ اعلا ما یقول بملاء فیہ ان عثمن غیر السنۃ و نقص الفا ئد ہ و نقض المصلحۃ فکا ن معا ذ اللہ محض محا دۃ للسنۃ و مضا دۃ و ان عد ینا عنہ ،فا دنی احوا لہ ان لا فا ئد ہ فیہ فیکو ن عبثا فی الد ین و العبث کما فی الھد ا یہ ۱؎حرا م و یکو ن لغوا
و الذین ھم عن اللغو معر ضو ن ۲؎
پس ان لوگوں کی کیسی بوالعجبی ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف تغییر سنت کی نسبت کا انکار کرنیوالوں کے فعل کو ضلالت شنیعہ بتاتے ہیں ۔ اور خود ان مسکینوں کو یہ معلوم نہیں کہ آپ کی طرف تغییر سنت کی نسبت کرنا بہت بڑی گمراہی ہے اور اس کے مردود ہونے کی سب سے بڑی وجہ خود وہی ہے۔ دوسری بات کا یہ جواب بھی ہے کہ آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اذان خطبہ کی اذانیت کو ختم کردیا ۔ کیا انھوں نے خود اس کا اقرار کیا یا انھوں نے مؤذن کو حکم دیا تھاکہ وہ اذان کی طرف رجوع نہ کرے یا انھوں نے مؤذن کو حکم دیا تھا کہ اس اذان میں تخفیف کرے یا اس کو پست آواز سے کہے ، یا آپ لوگ امیرالمومنین پر بے جانے بوجھے افتراء کر رہے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے باز پرس نہ ہوگی۔ اللہ تعالٰی تو فرماتا ہے : اس پر کان بھی نہ دھرو جس کا علم نہیں، بے شک کان، آنکھ،دل سب سے پوچھا جائے گا۔'' اس پر یوں بھی غور کرنا چاہئے کہ عہد رسالت کی اذان خطبہ اگر حسب سابق اعلان کا فائدہ دے رہی تھی توا س کو اذانیت سے نکالنے کے لئے اس میں کچھ ایسا تصرف ناروا ضروری تھا کہ اس سے اعلام کا فائدہ ختم ہوجائے۔ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں کسی ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تو دانستہ فائدہ شرعیہ کو ختم کرنا ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو دور دراز تک پھیلے ہوئے لوگوں کی اطلاع کے لئے اذان اول کا اضافہ فرمایا تھا ، تو اذان ثانی کو عہد رسالت اور عہد صاحبین کی طرح اعلام غائبین کے لئے باقی رکھنے میں کہ جن لوگوں نے پہلا اعلان نہ سنا ہو یہ دوسرا اعلان سن کرتو مسجد میں ضرور آجائیں گے کیا حرج تھا کہ امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ دوسری اذان کی اذانیت کو ختم کردیتے، تو اس کی اذانیت کے ختم کرنے کی نسبت حضرت ذوالنورین کی طرف کرنا ان پر الزام لگانا ہے کہ انھوں نے سنت بدلی،فائدہ شرعیہ گھٹایا۔اور دینی مصلحت توڑی۔ ورنہ اتنا تو ہے کہ ایک بے فائدہ کام کیا ۔ اور ہدایہ میں ہے کہ العبث حرام ہے، ایک لغو فعل ہوا، اور قرآن عظیم ان کے اوصاف بیان کرتا ہے، وہ لغو سے پرہیز کرتے ہیں۔
(۲؎القرا ن الکر یم ۱۷/ ۳۶ )
(۱؎الہد ا یۃ کتا ب الصلوۃ فصل و یکر ہ للمصلی المکتبۃ العر بیۃ کر اچی ۱/ ۱۱۸)
(۲؎القرا ن الکر یم ۲۳/ ۳)
نفحہ ۷: تحر ر ما تقرر ان بحث بقا ئہ بعد لخصو ص الا نصا ت غیر محر ر بل و قع مصا دما للنص و لحر مۃ الصحا بۃ و الاجما ع ائمتنا و نصو ص فقہا ئنا فکیف یعر ج علیہ ،بل کیف یحل ان یلتفت الیہ ولکن الر ز یۃ من تر ک نصو ص مذھبہ و تشبث بذلک البحث وتحمل کل ما مر ثم زا د فی الشطر نج بغلۃ و ھو ذلک تفر یع البا طل انہ اذن نا سب دا خل المسجد لدی المنبر ولم ذاک مع ان اھل المسجد الصیفی ا حوج الی ھذا الا علام من اھل الشتو ی فا نھم یر و ن الاما م باعینھم فینصتو ن والقیاس علی الا قا مۃ جہل فان با لا قا مۃ تتر تب الصفوف من الا ول فا لا ول قا ل صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اتمو ا الصف المقد م ثم الذی یلیہ فما کا ن من نقص فلیکن فی الصف المؤ خر روا ہ احمد ۱؎فی المسند و النسا ئی وابن حبا ن و خزیمۃ و الضیا ء کلھم فی صحا حھم بسند صحیح عن انس رضی اللہ تعا لی عنہ و لعمر ی ان ھذہ ایضا کادت ان تکو ن سنۃ مھجو رۃ واللہ المستعا ن فنا سب کو ن الا قا مۃ فی الصف الا ول بخلا ف الاعلا م بجلو س الامام فا ن اھل الخا رج احو ج الیہ کما تر ی۔
نفحہ۷: ہما ری گزشتہ بحثو ں سے یہ بات ثا بت ہو گئی کہ اذا ن ثا نی کو اب صر ف مقتد یو ں کو خطبہ کے لیے خموش کر ا نے کی غر ض سے با قی رکھنا صحیح نہیں بلکہ یہ نص ،حر مت صحا بہ اور ہما رے ائمہ کے اجما ع اور نصو ص فقہا ء کے خلا ف و مصا دم ہے تو اب یہ با ت نہ ما ننے کے قابل ہے نہ لا ئق التفا ت ،لیکن تبا ہی تو یہ ہے کہ کچھ لو گو ں نے اپنے مذہب کی نصوص چھو ڑ کر مذکو رہ با لا غیر مفید بحثو ں کا سہا را لیا اور بے مقصد زحمتیں بر دا شت کیں پھر بے تکی حرکت یہ کی کہ اس پر ایک تفر یع با طل لگا دی کہ لہذا منا سب یہ ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے اندر منبر کے با لکل متصل ہو حا لا نکہ اس ا ذان کی غرض اسکا ن سا معین ما ن بھی لی جا ئے تو اس اذا ن کے زیا دہ ضرور تمند حصہ صیفی و بیر و نی صحن کے لو گ ہیں اند رو نی دالا ن کے لو گ تو اما م کو منبر پر بیٹھا دیکھ کر خو د ہی خمو ش ہو جا ئیں گے ضر ورت تو با ہر ی صحن میں اذا ن دینے کی ہے تا کہ جو لوگ اما م کو نہیں دیکھتے مطلع ہو جا ئیں اس اذا ن کو اقا مت پر قیا س کر نا جہا لت ہے کیو نکہ اس کا مطلب تو جما عت کے لیے صف لگا نے کا ہے اور صف کے لیے پہلی صف سے درجہ بد رجہ صفیں مکمل کر نے کا حکم ہے چنا نچہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے فر ما یا پہلے پہلی مکمل کر و پھر اس کے بعد پھر اس کے بعد پھر اس کے بعد اور جو کمی ہو تو آخر ی صف میں ہو '' اس حد یث کو اما م احمد نے اپنی مسند ،اما م نسا ئی ،ضیا مقد سی ابن خزیمہ اور ابن حبا ن نے اپنی اپنی صحا ح میں حضر ت انس رضی اللہ تعا لی عنہ سے نقل فر ما یا اب لو گو ں نے سر کا ر کی اس سنت کو بھی تر ک کردیا ہے تو خلاصہ یہ ہو ا کہ اقا مت تو پہلی ہی صف میں ہو نی چا ہیے اور اذا ن خطبہ کے با ہر وا لے زیا دہ محتا ج ہیں ۔
(۱؎مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالی عنہ المکتب لا سلامی بیر وت ۳/ ۱۳۲)
(سنن النسا ئی کتا ب الا ما مۃ الصف المو خر نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کر اچی ۱/ ۱۳۱)
(موارد الظما ن با ب ما جا ء فی الصف للصلو ۃ حد یث ۳۹۰ المکتبۃ السلفیہ ص۱۱۴)
نفحہ ۸: عد ۃ طلبۃ حا و لو ا نقص کلیۃ الا ئمۃ ''لا یؤ ذن فی المسجد'' با لا قا مۃ فا نھا ایضا یقا ل علیہا ''الا ذا ن''کما فی حد یث بین کل اذا نین صلو ۃ لمن شا ء ۱؎مع انھا فی المسجد وفاقا ،وجہلو ا ان اطلا ق الا ذان علیہا تغلیب او عمو م مجا ز ،قا ل الا ما م العینی فی عمد ۃ القا ری المراد من الا ذا نین الا ذا ن و الا قا مۃ بطر یق التغلیب کا لعمر ین والقمر ین ۲؎
کچھ طلبہ ائمہ دین کے اس کلیہ کو کہ کو ئی اذا ن مسجد میں نہ دی جا ئے یہ کہہ کر تو ڑ نا چا ہتے ہیں کہ اقا مت کو بھی تو اذا ن کہا جا تا ہے جیسا کہ احا دیث میں ہے''ہر دو اذا نو ں کے بیچ میں اس کے لیے نما ز ہے جو پڑھنا چا ہے ''حا لا نکہ اقا مت کا مسجد کے اندر ہو نا ہی ضروری ہے تو فقہا ء کا یہ حکم کلی نہیں رہا،اور اقا مت کی طرح اذان بھی مسجد میں دی جاسکتی ہے ، ان بے چاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اقامت پر اذا ن کا اطلا ق تغلیبا ہے یا بطور عمو م مجا ز اما م عینی عمد ہ میں فر ما تے ہیں ''اذانین سے مراد اذا ن و اقا مت ہے جیسا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ تعا لی عنھما کو عمر ین کہا جا تا ہے''اصطلا ح بدیع میں اس کو تغلیب کہا جا تا ہے
(۱؎صحیح البخا ری کتاب الا ذا ن با ب ما بین کل اذا نین صلو ۃ لمن شا ء قد یمی کتب خا نہ کرا چی ۱/ ۸۷)
(۲؎عمد ۃ القا ر ی شر ح صحیح البخا ری کتا ب الا ذان با ب ما بین کل اذا نین صلوۃ لمن شا ء دا رالکتب العلمیہ بیر و ت ۵/ ۲۰۷)
وفی المو اھب اللد نیۃ عن اما م الا ئمۃ ابن خزیمۃ قو لہ ''اذا نین''یر ید الا ذا ن و الا قا مۃ تغلیبا ۳؎ قا ل الزرقا نی لا نہ شر عا غیر الا قا مۃ ۴؎ وفی العینی ثم الموا ھب او لا شترا کھما فی الا علام ۵؎قا ل الزرقا نی فلا تغلیب لا ن الا ذ ن لغۃ الا علا م و فی الا قا مۃ اعلام بدخول وقت الصلو ۃ کا لا ذا ن فھو حقیقۃ اللغو یۃ فی کل منھما۱؎
مو اہب لد نیہ میں اما م الا ئمہ ابن خزیمہ سے اذا نین سے مر اداذا ن و اقا مت دونو ں ہیں اور یہ تغلیب ہے۔زرقا نی میں ہے ''شر یعت کے اذا ن اقا مت سے الگ ہے ''عینی او رمو اہب میں تغلیب کی تو جیہ کر تے ہو ئے فر ما یا ''اقا مت کواذا ن اس لیے کہہ دیا کہ اعلا ن ہونے میں دو نو ں شریک ہیں "۔ زرقانی نے فرمایا "ان دونوں میں تغلیب نہیں اس لیے لغت کے اعتبار سے اعلا ن کے معنی میں ہے ۔اور اقا مت میں دخو ل وقت کا اعلا ن ہو تا ہے تو ان دونو ں میں عام وخاص کا فرق ہے اور دونوں کے لیے اذا ن کا اطلا ق لغو ی ہی ہے۔''
(۳؎المو ا ہب اللد نیۃ البا ب الثا نی صلوۃ الجمعہ الا ذا ن لصلو ۃ الجمعۃ المکتب الا سلا می بیر وت ۴/ ۱۶۱)
(۴؎شر ح الزرقا نی علی المو ا ہب اللد نیۃ صلو ۃ الجمعہ الا ذا ن لصلو ۃ الجمعۃ دار المعر فۃ بیر و ت ۷/ ۳۸۰)
(۵؎المو ا ہب اللد نیۃ البا ب الثا نی صلو ۃ الجمعہ الا ذا ن لصلو ۃ الجمعہ المکتب الا سلا می بیروت ۴/ ۱۶۱)
(عمد ۃ القا ری شر ح صحیح البخا ری کتا ب الجمعۃ با ب الا ذا ن دار الکتب العلمیہ بیر وت ۶/ ۳۰۳)
(۱؎شر ح الزر قا نی علی المو ا ھب اللد نیۃ البا ب الثا نی کتا ب الجمعۃ یو م الجمعۃ دار المعر فۃ بیر و ت ۷/ ۳۸۰)
وما یقا ل فی تعلیل روا یۃ مر جو حۃ مخالف للمذھب ان الا قا مۃ احد الا ذا نین فھو کقھو لھم ''القلم احد اللسا نین ۲؎''ولذا فسر ہ الامام النسفی با ن کل وا حد منھما ذکر معظم کما یفسر ھذا بان کلا منھما یعر ب عما فی الضمیر ،الم تر ما قد منا من نصو ص الھد ا یۃ والکا فی والزیلعی ،والا کمل،والدر،والبحر،ان تکرا ر الا ذا ن مشر و ع ولا یشر ع تکر ار الاقامۃ الم تعلم ما نصوا علیہ فی الکتب المذکو ر ۃ جمیعا و غیر ھا ان اذ ا ن الجنب یعا د،ولا تعاد اقا متہ۳؎
ایک مر جو ح اور مخا لف روا یت ''الا قا مۃ احد الا ذا نین ''اقا مت دوا ذانو ں میں سے ایک ہے اس کو جو اس تعلیل کے سلسلہ میں بیان کیا جا تا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے اہل زبا ن کا مقولہ ہے القلم احد ی اللسا نین قلم دوزبا نو ں میں سے ایک ہے اسی لیے اما م نسفی نے اس کی تفسیر میں کہا کہ اذان و اقا مت دونو ں ہی ذکر معظم ہیں جیسا کہ القلم احد ی اللسا نین کی تفسیر کی جا تی ہے کہ دونوں ہی ما فی الضمیر کو بیا ن کر تے ہیں ان دونو ں میں مغا یر ت پر دلا لت کر نے والی ہدا یہ ،کا فی ،زیلعی ،اکمل،در اور بحر کی عبا ر تیں ہیں کہ ''اذا ن کی تکر ا ر مشر وع ہے اقا مت کی نہیں''انہیں سب کتا بوں میں اس کی بھی تصریح ہے کہ ''جنبی کی اذان دہر ائی جا ئے اور اقامت نہیں دہر ائی جا ئے گی ''
(۲؎فیض القد یر تحت الحد یث۵۲۱۶ ضع القلم علی اذنک دارالکتب العلمیہ بیر وت ۴/ ۳۳۶)
(۳؎تبیین الحقا ئق با ب الا ذا ن ۱/ ۲۴۹ وبحرالرا ئق با ب الاذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی ۱/ ۲۶۳)
(الہد ایۃ با ب الا ذا ن ۱/ ۷۴ والعنا یۃ علی ہا مش فتح القد یر با ب الا ذا ن ۱/ ۲۲۰ )
الم تسمع الی ما فی البحر عن الظہیریۃ لو جعل الا ذا ن اقا مۃ یعید الا ذا ن ولو جعل الا قا مۃ اذا نا لا یعید لا ن تکر ا ر الا ذا ن مشر و ع دون الاقامۃ۱؎وفیہ عن المحیط لو جعل الا ذ ن اقا مۃ لا یستقبل ولو جعل الا قا مۃ اذا نا یستقبل۲؎الخ ۔الی غیر ذلک من مسا ئل باینوا فیھا بین الا ذان والا قا مۃ ۔ و با لجملۃ الا لزا م با جرا ء احکا م الا ذا ن طرا فی الا قامۃ شیئ لا یتفوہ بہ من شم را ئحۃ العلم ،ولکن الجہل اذا ترکب فھو الدا ء العضا ل۔
بحر الرا ئق میں ظہیر یہ سے ہے کہ''اگر اذا ن کو اقا مت کی طرح ادا کیا تو اذا ن دہر ائی جا ئے اور اگر اقامت کو اذا ن کی طرح کہا تو نہ دہرا ئی جا ئے کیو نکہ تکر ار اذا ن مشروع ہے تکر ار اقا مت کیا تو استقبال قبلہ ضروری نہیں اور اگر اقامت کو اذان قرار دیا تو استقبال قبلہ کرے''اس کے علا وہ بھی کتنے مسا ئل ہیں جن میں اذا ن و اقامت کا فر ق ہے ان سب اشا دات کا حا صل یہ ہو ا کہ اذا ن کے جملہ احکا م کے اقا مت پر طریا ن کا دعو ی کو ئی سمجھدار آدمی نہیں کر سکتا ہاں جہل مر کب بڑی مشکل بیما ری ہے ۔
(۱؎بحر الرا ئق کتاب الصلو ۃ با ب الا ذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۵۷)
(۲؎بحر الرا ئق کتاب الصلو ۃ با ب الا ذا ن ایچ ایم سعید کمپنی کرا چی ۱/ ۲۵۷)