Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۸ (کتاب الشتّٰی)
15 - 135
نفحہ ۳: بتو فیقہ تعا لی ظھر ت فا ئد ۃ لفظۃ ''قا لو ا'' فی ھا تین العبا ر تین و لیست فی غیرھما و لیس کلما قالوا ''قالو ا'' ارادوا تبرأ۔ او افا دۃ خلا ف کما یشھد بہ التتبع ولا ھو(عہ) مصطلح کل احد بل قا ل السید العلا مۃ فی حا شیہ الدر المختا ر۔۔۔۔۔ (عہ۱)۔
نفحہ ۳: اللہ تعا لی کی تو فیق سے ان دو نو ں اما مو ں کی عبا ر ت میں لفظ قا لو ا نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جب لفظ قا لو ا کہیں تو ما سبق سے تبر ی اور افا دہ خلا ف کا ہی فا ئد ہ مراد لیں نہ یہ سب کی تسلیم شد ہ اصطلا ح ہے جیسا کہ کلا م علما ء کے تتبع و تلا ش سے ظا ہر ہوا ۔
عہ: ومن نسب فی مسئلتنا ھذہ زیا دہ لفظۃ ''قا لو ا''الی الا ما م فقیہ النفس قا ضی خا ں فقد کذب و افتر ی کما تر ی منہ حفظہ ربہ ۔
اور جس نے اس مسئلہ میں لفظ قا لو ا کی ز یا دتی کی نسبت اما م قا ضیخا ں کی طر ف کی غلط کیا جیسا کہ ان کی عبا رت سے پتہ چلا ۔منہ حفظہ ربہ ۔
عہ۱: یہا ں اعلٰیحضر ت نے غا لبا طحطاوی کی بھی کو ئی عبارت نقل کی تھی جو پڑھی نہ گئی عبدالمنا ن۔
وفی رد المحتا ر فی مسئلۃ مس المحدث کتب الا حا دیث و الفقہ قا ل فی الخلا صۃ یکر ہ عند ھما والا صح انہ لا یکر ہ عند ہ و مشی فی الفتح علی الکر اھۃ فقال قا لو ا یکر ہ مس کتب التفسیر والفقہ والسنن لا نہا لا تخلو  عن اٰیا ت القرا ن و ھذا التعلیل یمنع من شر و ح النحو ۱؎ اھ فجعلہ مشیا علیہ۔
ردالمحتا ر میں بے وضو آدمی کے حد یث و فقہ کی کتا بو ں کے چھو نے کے با رے میں فر ما یا ''خلا صہ میں ہے کہ صا حبین کے نزدیک چھو نا مکر وہ ہے اور صحیح یہ ہے کہ اما م صا حب کے نزدیک چھو نا مکر و ہ نہیں ہے اور فتح القد یر میں اس کی کر ا ہت کا حکم فر ما یا اور کہا کہ لو گو ں نے کہا کہ مکر وہ ہے بے وضو کا تفسیر فقہ اور سنت کی کتا بو ں کوچھو نا تو اس عبا رت میں لفظ قا لو ا کہہ کر سا بقہ حکم کی تا ئید ہی کی ''
 (۲؎ردالمحتا ر        کتا ب الطہا رۃ         داراحیا ء الترا ث العر بی بیر و ت        ۱/ ۱۱۸)
وفی نھر الفا ئق فی مسئلۃ ما اذا زوج البا لغۃ غیر کفؤ فبلغھا فسکتت لا یکو ن رضا عند ھما و قیل فی قول الاما م یکو ن رضا ان المزو ج ابا اوجداجزم فی الدرا یۃ با لا ول بلفظ قا لو ا ۲؎، اھ ۔
نہر الفا ئق میں ایک مسئلہ بیان کیا ''با لغہ کی شا دی غیر کفو میں کر دی گئی اسے خبر ہو ئی تو چپ رہی ۔یہ خموشی صا حبین کے نزدیک رضا مند ی نہیں ۔اور اما م صا حب کے قو ل پر رضا مند ی ہے بشر طیکہ شا دی با پ دادا نے کی ہو در ا یہ میں اول کو لفظ قا لو ا سے بیا ن کیا ہے ۔''
 (۲؎النہر الفا ئق     کتا ب النکا ح         با ب الا ولیا ء وا لا کفا ء     قدیمی کتب خا نہ کتب خا نہ کر اچی ۲/ ۲۰۳)
فجعلہ جز ما بہ کذا ھھنا جز م الا ما مین بو جھین : الا و ل مقصو د ھما ھھنا تعلیل القول المعتمد وھو قو ل الا ما م ان لا فصل بین اذان المغر ب واقامتہ بجلسۃ، را جع الہد ا یۃ وانظر الی قولھما یفید کذا وھو کذلک شر عا فھما بصدد اثبا تہ و تحقیقہ لا التبر ی عنہ و تزئیقہ ۔
اسی طر ح ان دونو ں اما مو ں نے یہا ں دو نو ں ہی طرح اثبا ت مد عا کیا ہے کہ پہلے قو ل میں وہ اما م کے قول معتمد کی علت بیان کر نا چا ہتے ہیں (مغر ب میں اذا ن اور اقا مت کے بیچ میں جلسہ سے فصل جا ئز نہیں ) اور قا لوا لا یو ذن فی المسجد سے اسکی تا ئید کر نا چا ہتے تھے تا کہ اس کی مخا لفت اور تبر ی کے در پے رہیں (تصد یق کے لیے ہد ا یہ کا یہ مقا م اور اس کی وضا حت میں ان دونو ں اما مو ں کا قول یفید کذا و ھم کذلک شر عا دیکھا جا ئے )
والا خر ما نقلنا منھما من قو لھما الآخر حیث اولا فیہ کلا م الکا فی ۔وجز ما بکرا ھتہ دا خل المسجد فو ضح الحق وللہ الحمد ۔
اور دوسر ے قول میں کا فی کے قول ھو ذکر اللہ تعا لی فی المسجد کی تا ویل میں فر ما یا ای فی حد ود ہ اور بغیر قا لو ا کے یہ جزم فر ما یا کہ اذا ن مسجد میں مکر و ہ ہے تو یہا ں بے قا لو ا کے تبر ی اور اظہا ر خلا ف کے لیے یہ جملہ ہوا تو حق واضح ہو ا ۔اور حمد اللہ تعا لی کے لیے ہی ثا بت ہے۔
نفحہ ۴: لیس بخا ف علی کل من لہ حظ من علم او عقل علی ان الا ستد لا ل علی الخا ص با لعا م صحیح نجیح تا م وقد فعلہ رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذ تلا اٰ یۃ ''فمن یعمل مثقا ل ذرۃ خیر ا یر ہ ''۱؂الا یۃ ۔والصحا بۃ بعدہ و الائمۃ ولو کلفنا اثبا ت کل خا ص بما یخصہ لبطلت الشر ا ئع و تر ک الا نسا ن سد ی ،فا ن الشر یعۃ لا تا تی الا باحکا م عامۃ تشتمل النا س کا فۃ فلو لم یکن الا حتجا ج با لعام یطلب کل و احد حکما اتی لہ با لخصو ص فما اجہل الو ھا بیۃ العنود و من تا بعھم من جہلۃ الہنو د اذ یقولو ن ایتو نا للنھی فیہ ذکر اذان الخطبۃ خاصۃ و یدانیہ قو ل من یقو ل منھم ان الفقہا ء انما ذکر و ا ھذا الحکم فی با ب الا ذا ن و من لم یذکر وہ فی با ب الجمعۃ و قد مر کشف ھذہ الجہا لۃ فی النفحۃ ۱۱ من النفحا ت الحد یثیۃ أتزعم الجہلۃ ان اذان الخطبۃ لیس لہ من الحکم اما ما ذکر فی با ب الجمعۃ من کو نہ بین ید ی الخطیب مثلا کلا بل یعتبر بہ سا ئر الا حکا م المذکو رۃ لمطلق الا ذان فی باب الا ذا ن فلو لم یکفہ البیان ثمہ من این تاتی تلک الا حکا م لھذا الا ذا ن و ھذا شیئ لا یخفی حتی علی الصبیان و لکن الو ھا بیۃ و اتباعھم قو م لا یفقہو ن ۔
نفحہ ۴: یہ با ت کسی علم و عقل وا لے سے پو شید ہ نہیں ہے کہ عام سے خا ص پر استدلا ل صحیح اور در ست ہے خو د حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے آیت مبا رکہ ''فمن یعمل مثقا ل ذرۃ خیرا یر ہ''(جس نے ذرہ بھر بھلا ئی کی اس کا بدلہ پا ئے گا ) میں بر تا اور آپ کے بعد صحا بہ و ائمہ اعلا م رضو ا ن اللہ علیہم اجمعین نے اسے اپنا دستو ر العمل بنا یا اگر ہر خا ص کے ثبو ت کے لیے خا ص اسی کے با ر ے میں آیت اور حدیث کو ضرور ی قرار دیا جائے تو شریعت معطل ہو جا ئے گی اور انسا ن بے مقصد بھٹکتا پھر ےگا حا لا نکہ شر یعت میں احکا م تو عا م ہی ہو تے ہیں کہ سب لو گ اس پر عمل کر یں اگر نصو ص عا مہ سے استد لا ل صحیح نہ ہو تو ہر شخص مطا لبہ کر ے گا خا ص میرے نا م حکم لا و تو یہ جا ہل وہا بیہ اور مسئلہ اذا ن میں انکی اتبا ع کر نے وا لے سنی جہلا کس در جہ نا سمجھ ہیں جو ہم سے یہ مطا لبہ کر تے ہیں کہ ہم کومما نعت اذان کی کو ئی حدیث دکھا ؤ جس سے خا ص طور سے اذا ن خطبہ کا ذکر ہو ۔ اسی کے قر یب ان لو گو ں کی یہ با ت بھی ہے کہ مسجد کے اند ر اذا ن نہ دینے کا حکم اذا ن کے با ب میں ہے جمعہ کے با ب میں نہیں اس لیے یہ حکم اذا ن جمعہ کے لیے نہیں ہو گا ۔ اس کا تفصیلی جوا ب تو نفحا ت حدیثیہ کے گیا رہو یں نفحہ میں گزرا اس نفحہ فقہیہ میں بھی مزید گزارش ہے کہ شاید یہ نا دا ن یہ  سمجھ رہے ہیں کہ اذا ن جمعہ کے سا تھ وہی احکا م خا ص ہیں جو با ب جمعہ میں مذکو ر ہیں مثلا اس اذا ن کا خطیب کے سا منے ہونا ایسا ہر گز نہیں ہے وہ سا رے ہی عمو می احکا م جو اذان سے متعلق ہیں گو صرف باب اذان میں ہی ان کا ذکر کیوں نہ ہو سب کے سب اذا ن جمعہ پر بھی عا ئد ضرور ہو ں گے تو اگر صر ف باب اذان کا بیان ہی اذا ن جمعہ کے لیے کا فی نہ ہو تو جمعہ کی اذا ن میں ان پر عملدر آمد کی کیا سبیل ہو گی ؟یہ با ت تو بچو ں پر بھی واضح ہے مگر نا دا ن وہابیہ نا دانی سے با ز نہیں آتے ۔
 (۱؂ القرآن الکریم     ۹۹ / ۷)
ھذا ما کا ن طر یق العلم رحم اللہ الاما مین الا تقا ن والمحقق علی الا طلا ق واجذل قربھما یوم الطلاق حیث داو یا جہل ھولا ء بو جہ لم یبق لھم عذراًولا حیلۃ و ذلک ان الا ما م صا حب الہد ا یۃ فی مسئلۃ ند ب الطہا رۃ لخطبۃ الجمعۃ قاسرھا علی الا ذا ن و ذکر ما یو ھم ان الجا مع کو نھا شر ط الصلوۃ  و ھو ظا ہر ا لبطلا ن فالاماما ن الشا رحا ن عدلا منہ الی ماعین الا ما م النسفی جا معا فی الکا فی و ھو کونھا ذکر اللہ فی المسجد ای ذکر ا موقتا کالا ذان و کا ن یر د علیہ ان الاذا ن لیس ذکر ا فی المسجد لکر اھتہ فیہ فا ولاہ با ن المراد فی حد و د المسجد فلو ان اذا ن الخطبۃ کا ن یکو ن فی المسجد لما احتج الی التا ویل اصلا فقیا س خطبۃ الجمعۃ علی اذا ن الخطبۃ بجا مع کون کل منھما ذکرا موقتا فی المسجد کا ن اذن صحیحا قطعا و ای شیئ کا ن احق بقیا س الخطبۃ من اذا نھا لکنھما اولا فا رشدا با رشاد بین من الشمس ان اذا ن الخطبۃ ایضا مکر و ہ فی المسجد و ای نص انص تر ید من ھذا وللہ الحمد ۔
اس اجما ل کی تفصیل یہ ہے کہ صا حب ہد ایہ نے خطبہ جمعہ با وضو مسنو ن فر ما یا اور خطبہ کے مسئلہ کو اذا ن کے مسئلہ پر قیا س کیا کہ جیسے اذان کے لیے طہا رت مسنو ن ایسے خطبہ کے لیے بھی اس سے یہ وہم ہوا کہ ان دونو ں کے درمیا ن علت جا معہ ان دو نو ں کا نما ز کے لیے شر ط ہو نا ہے یہ با ت غلط تھی اس لیے ان دونو ں شارحوں نے مذکو رہ با لا علت کو چھو ڑ کر اس کی علت جا معہ کی طر ف رجو ع کیا جس کو اما م نسفی نے اپنی کتاب کا فی میں متعین طو ر سے ذکر کیا تھا کہ خطبہ جمعہ اور اس کی ا ذان کے درمیا ن علت مشتر کہ ان کا ایسا ذکر ہو نا ہے جو مسجد کے اندر ہو تا ہے اس توجیہ پر یہ اعترا ض وا رد ہو رہا تھا کہ اذا ن تو مسجد کے اندر ہو نے وا لا ذکر نہیں یہ تو مسجد کے اندر مکر وہ ہے تو ان حضرا ت نے جو اب دیا کہ تعلیل میں اذا ن کو ذکر مسجد کہنے کا مطلب قلب مسجد نہیں حد ود مسجد ہے اور اذان خطبہ اند رون مسجد نہ ہو تی ہو حد ود مسجد میں تو ہو تی ہے اس اعتبار سے اس کو ذکر مسجد کہنا صحیح ہے تو اذا ن خطبہ کے مسجد کے اندر مکر وہ ہو نے کی اس سے بڑی اور کو ن سی نص چاہیے۔
نفحہ ۵: لیست المسئلۃ من النو ازل ولا عزوھا الی احد من المشا ئخ بل ارسلو ھا ارسا لا والذاکر و ن لھا اولئک الا ئمۃ الاجلا ء و امثا لھم کا لا ما م قا ضی خا ن ونظر ا ئہ اذا ارسلو ا دل علی انہ المذھب لما عر ف من عا دتھم عزو تخر یجا ت المشا ئخ الی المشا ئخ قا ل فی الغنیۃ ذوی الا حکا م فی مسئلۃ النعا س صر ح بہ قا ضی خا ن من غیر اسنا دہ لاحد فافتضی کو نہ المذھب ۱؎، اھ  فا لتشکیک فیہ با نہ غیر معز و الی سید نا الا ما م الا عظم و لیس حا صلہ الا شیئا ن رفع الامان عن عا مۃ مسا ئل الشر ح و الفتا وی الغیر المعز یۃ الی احد و ابطا ل سا ئر ما فیہ من المعزیات الی مشا ئخ المذاھب لان الا ول اذا لم یقبل لعد م العلم لکو نہ عن الاما م فا لا خر احد ی بالردللعلم بعدم کو نہ عن الاما م و انت تعلم ان فیہ ابطا ل ثلثی مسا ئل المذھب او ثلثۃ اربا عھا و انما کا ن علینا اتبا ع ما رجحو ہ و صححو ہ کما قا لو ا افتو نا فی حیاتھم فکیف بما اتوا بہ جا ز مین بہ من دون اشعا ر بخلا ف فیہ واللہ الموفق۔
نفحہ ۵: یہ مسئلہ کتب نوا زل کا نہیں ہے نہ اسے مشا ئخ میں سے کسی کی طر ف منسوب کیا گیا ہے راو ی وہی ائمہ اعلا م ہیں جیسے اما م قا ضی خا ں اور ان کے ہم مر تبہ حضرا ت ائمہ اور قا عد ہ یہ ہے کہ یہ لو گ جب کسی مسئلہ کو مرسل روا یت کر تے ہیں تو یہ مسا ئل مذھب میں شما ر ہو تے ہیں کیو نکہ ان مشا ئخ کی عا دت کر یمہ یہ ہے کہ جب مشا ئخ میں سے کسی کی تخر یج روا یت کر تے ہیں تو مسئلہ کے سا تھ ان کا نا م ضرور لیتے ہیں چنا نچہ غنیۃ ذوالا حکا م میں ہے اونگھنے کے مسئلہ کی تصر یح اما م قا ضی خا ں نے فر ما ئی اور یہ مسئلہ جب کسی کی طر ف منسوب نہیں ہے تو اس با ت کی علا مت ہے کہ یہ مذہب ہے تو مسئلہ دائر ہ میں یہ شک پید ا کر نا کہ یہ خاص طو ر سے اما م اعظم رحمہ اللہ کی طر ف منسو ب نہیں اس لیے قا بل قبول نہیں اس کا مقصد دو با تیں ہیں عا م مسا ئل شر عیہ و فتاوی جن کی نسبت کسی کی طرف نہ ہو ان سے اما م کی نسبت مر تفع ہو جا ئے اور بقیہ مسا ئل جو کسی شیخ یا اما م کی نسبت مسا ئل اما م کی طر ف منسوب ہو ں ان کا رد و ابطا ل ہو کہ جب غیر منسوب مسا ئل امام کی طر ف منسوب نہ ہو نے کی وجہ سے غیر مقبو ل ہو ئے تو یہ مسا ئل جو با لتصر یح غیر کی طر ف منسوب ہیں ان کے ردو ابطا ل میں کون سا تردد کہ ان کے با رے میں تو یہ بالیقین معلو م ہے کہ یہ مسا ئل اما م سے مروی نہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مذہب کے دوثلث یا تین ربع مسا ئل اکا رت ہو جا ئیں گے جبکہ حقیقت حا ل یہ ہے کہ مشا ئخ نے جن مسا ئل کی تصحیح یا تر جیح فر ما ئی ان پر عمل کر نا بھی ضروری ہے کہ ان کی زند گی میں ان کے فتاوے مقبو ل اور معمو ل بہا تھے تو ان مسا ئل سے کیو ں رو گر دا نی جا ئز ہو گی ،جن کو ان بزرگو ں نے یقین کے سا تھ کسی اختلا ف کا اشا رہ کئے بغیر روا یت کیا اللہ تعا لی تو فیق عطا فر ما ئے ۔
(۱؎غنیۃ ذوی الا حکا م علی ھا مش الدرر الحکا م   کتا ب الطہا رۃ بیان نو ا قض الو ضو     میر محمد کتب خا نہ کراچی  ۱/ ۱۵)
نفحہ ۶: اذلم یا ت لھم تخصیص حا ولو ا ان یخر جو ا اذا ن الخطبۃ من جنس کی یخر ج بنفسہ مما یشمل شیئ من احکا م الاذان من دون حا جۃ الی تخصیص و ذلک ان الاذا ن اعلا م الغا ئبین وا لا قا مۃ اعلا م الحا ضرین کما نص علیہ الا ئمۃ منھم الاما م العینی فی عمد ۃ القا ری شرح صحیح البخا ری و فی الہد ا یۃ الا ذان استحضا ر الغا ئبین ۱؎۔فجعلو ا اذا ن الخطبۃ اعلا ما لحا ضر ین لا ند ا ء للغا ئبین کی لا یکو ن اذا نا  وا ن کا ن بکلما ت الاذان کا لا ذا ن فی اذن المو لو د و المھمو م و خلف المسا فر ولد فع الغیلا ن و عند الا قبا ر لتذکیرا لجو اب و طر د الشیطا ن وامثا ل ذلک حیث لا یقصد بہ ندا ء الخا ص الی مشی او اعلا ما لھم بدخو ل الوقت اصلا  بل التبر ک و استد فا ء البلا بتلک الکلما ت الکر یمۃ۔
نفحہ ۶: جب نصو ص کی تخصیص ان کے بس سے با ہر ہو ئی تو سو چا کہ اذا ن خطبہ کو ہی اذا ن کی جنس سے خارج کر دیں تا کہ یہ خو د اذان کی جنس سے خا رج ہو جائے اور ہم تخصیص کی زحمت سے نجا ت پا جا ئیں تو وہ کہنے لگے کہ اذان تو غیر مو جو د مصلیو ں کا بلا وا ہے اور اقا مت مسجد میں مو جو د مصلیو ں کو اطلا ع ہے جیسا کہ ائمہ نے اس کی تصر یح کی ہے ۔علا مہ عینی نے عمد ۃ القا ری میں لکھا ہے اور صا حب ہد ایہ نے فر ما یا ''اذا ن غیر مو جو د مصلیو ں کا بلا وا ہے'' پس یہ لوگ اذا ن خطبہ کو حا ضر مصلیو ں کی اطلا ع ما نتے ہیں غا ئبین کا بلا و ا تسلیم نہیں کر تے اور اذا ن خطبہ اذان کے الفا ظ کے ہو تے ہو ئے بھی اذان نہیں جیسے وہ اذا ن جو نو مو لو د کے کا ن میں کہی جاتی ہے غمزدہ انسا ن کے لیے یا مسا فر کے پیچھے اور غو ل بیا با نی کا اثر دور کر نے کے لے دی جا تی ہے اور دفن میت کے وقت منکر و نکیر کا جو اب یا د دلا نے کے لیے پکا ری جا تی ہے جن کا مقصد حا ضر ی مسجد یا دخو ل وقت کا اعلا ن نہیں ہو تا بلکہ مبا رک کلما ت سے تبر ک یا بلا کا اند فا ع ہو تا ہے ۔
(۱؎الہد ا یۃ         کتا ب الصلو ۃ     با ب الاذا ن         المکتبہ العر بیہ کر ا چی         ۱/ ۷۴)
ثم اضطر بوا فا جہلہم یقول لم یکن (عہ) اذانا من لد ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی وسلم واذا قیل لہ افکا ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم یصلی الجمعۃ من دون اذا ن قا ل لیس فیہ ،انما کا ن یصلی الصلو ۃ کلھا بمکۃ بدو ن اذان و لا یدری ھذا المسکین ان ھذا ا انکا ر للا جما ع و تصر یح القرا ن فقد اجمعو ا انہ لم یکن من عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم للجمعۃ الا ھذا الا ذا ن واللہ تعا لی یقول یا یھا الذین امنو ا اذا نو دی للصلو ۃمن یوم الجمعۃ فا سعو ا الی ذکراللہ۱؎انما الا مر بالسعی للغا ئبین دون الحا ضر ین لا ستحا لۃ تحصیل الحا صل واللہ تعا لی یقول و ذروا البیع ۲؎وانما البیع و الشرا ء کا ن فی الا سو اق لا فی المسجد فد ل النص ان اذا ن الخطبۃ علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی کا ن نداء للغا ئبین الی الصلو ۃ ھذا ھو الا ذا ن المصطلح شر عی و صلو ۃ مکۃ کا نت قبل نزول الاذان فقیا س الجمعۃ علیہا جہل لا یقا س و لا یما ن و غیر ہ یقول نعم کا ن الا ذا ن علی عہد رسو ل اللہ و صا حبیہ صلی اللہ علیہ وعلیہما وسلم فلما احد ث ذوالنو رین رضی اللہ تعا لی عنہ الاذا ن الا ول کا ن ھو الا ذا ن و بقی ھذ ا اعلا ما للحا ضر ین و علیہ فر ع مفرع منھم انہ لما کا ن فی الزمن الا ول للا علا م نا سب با ب المسجد وفی زمن عثمن رضی اللہ تعا لی عنہ صار للانصات فناسب داخل المسجد لدی المنبر۔
اس کے بعد ان کی با تو ں میں اختلا ف پیدا ہو گیا ایک جا ہل کہتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زمانہ میں اذا ن ہو تی ہی نہیں تھی اور جب اس سے کہا جا تا ہے کہ کیا رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نما ز جمعہ بے اذا ن کے ہی پڑھتے تھے تو کہتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم تو مکہ میں سار ی نما زیں بغیر اذا ن کے ہی پڑھتے تھے اس مسکین کو یہ معلو م نہیں کہ یہ اجما ع امت و تصر یح قرآن کا انکا ر ہے ،کیو نکہ سب کا اس پراجما ع''کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے عہد میں خطبہ کے علا وہ کو ئی اذا ن نہ تھی''اور اللہ تعا لی کا ارشاد ہے ''اے ایما ن والو !جمعہ کے دن اذا ن دی جا ئے تو اللہ تعا لی کے ذکر کے لیے دوڑپڑو ''یہ مسجد کی طر ف سعی کا حکم غا ئبین کے لیے ہی تو ہے یہ بھی فر ما یا کہ بیع و شرا ء چھوڑدو بیع و شر ا ء تو با زا ر میں ہو تی ہے مسجد میں نہیں ۔تو معلو م ہوا کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ میں اذا ن خطبہ مسجد میں مو جو د نہ رہنے وا لو ں کو نما ز کے لیے بلا نے کے لیے ہی ہو تی تھی اور یہی اذا ن شر عی و اصطلا حی ہے اور مکہ کی نما ز نزول اذا ن سے قبل ہو ئی تو کو ئی مو من اس پر نما ز جمعہ کو قیا س نہیں کر سکتا اور دوسر ے مخا لف کا کہنا یہ ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صا حبین رضی اللہ تعا لی عنہما کے زما نہ میں یہی اذا ن خطبہ تھی لیکن حضرت عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ کے زما نہ میں جب انھوں نے اذان اول ایجاد کی تو یہ اذان حاضرین کا اعلان ہوگئی ، تو جب پہلے زمانہ میں یہ اعلا ن تھی تو با ب مسجد پر ہو نا ہی منا سب تھا اور عہد عثما ن غنی میں جب یہ حا ضرین کو خطبہ کے لیے خا مو ش کر نے کے وا سطے ہے تو اس کا مسجد کے اند ر منبر کے قریب ہو نا منا سب ہو ا
عہ: یہا ں ایک بہت طو یل حا شیہ ہے جو حل نہ ہو سکا ۔عبد المنا ن
 (۱؎القرا ن الکر یم       ۶۲/ ۹ )(۲؎القرا ن الکر یم    ۶۲/ ۹ )
Flag Counter