نظم امام زند ویستی شر ح نقا یہ لشمس قہستا تی حا شیہ مرا قی الفلا ح میں للعلا مۃ سید احمد طحطا و ی میں ہے مسجد کے اندر اذان مکر وہ ہے۔
(۲؎حا شیہ الطحطا وی علی مرا قی الفلا ح با ب الا ذا ن نو ر محمد کا ر خا نہ تجا ر ت کتب کر ا چی ص۱۰۷)
وفی غا یۃ البیان شر ح الھد ا یۃ للعلا مۃ الاتقا نی وفی فتح القد یر شر ح الھد ا یۃ للمحقق علی الاطلا ق :قو لہ (ای الامام برھا ن الدین صا حب الھد ا یہ ) والمکا ن فی مسا لتنا مختلف یفید کو ن المعھو د اختلا ف مکا نھما وھو کذلک شر عا فا لا قا مۃ فی المسجد ولا بد و اما الا ذا ن فعلی المئذنۃ فان لم یکن ففی فنا ء المسجد وقا لوا لا یؤذن فی المسجد ۱؎، اھ
غا یۃ البیان شر ح ہد ا یہ للعلا مہ اتقا تی فتح القد یر شر ح ہدا یہ لمحقق علی الا طلا ق میں ہے مصنف اما م بر ھا ن الدین صا حب ہد ا یہ کا قو ل کہ (مکا ن ہما رے مسئلہ میں مختلف ہے ) اس امر کا فا ئد ہ دیتا ہے کہ اذان و اقامت کے مقا ما ت کا اختلا ف ہی معہود و معر و ف نیز حکم شر عی ہے کہ اقامت مسجد میں ہو نا ضر و ری ہے اور اذا ن مئذنہ پر اور مئذنہ نہ ہو تو مسجد کے صحن میں ائمہ نے فر ما یا کہ مسجد میں اذان نہیں دی جا ئے گی۔
(۱؎فتح القد یر کتا ب الصلو ۃ با ب الا ذا ن مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۲۱۵)
وقالا فی الکتا بین فی مسئلۃ سنیۃ الطہا ر ۃ لخطبۃ الجمعۃ قیا سا علی الا ذا ن ما نصہ : الاولی ما عینہ فی الکا فی جامعا وھو ذکر اللہ تعا لی فی المسجد ای فی حدودہ لکر اھۃ الا ذان فی داخلہ۲؎، اھ
اور دونوں شا رحین نے اپنی دونو ں کتا بو ں میں جمعہ کے لیے طہا رت مسنو ن ہو نے کے مسئلہ میں اذان پر قیا س کرتے ہو ئے فر ما یا ''کا فی میں دونو ں مسئلہ میں علت جا معہ یہ بتا ئی کہ خطبہ اور اذا ن دو نو ں ہی مسجد کے اند ر خدا کا ذکر ہے جن کے لیے طہارت سنت ہے ، مسجد کے اند ر کا مطلب حدود مسجد ہے کیو نکہ اذا ن دا خل مسجد مکر و ہ ہے ۔ ''
(۲؎فتح القدیر کتا ب الصلو ۃ با ب صلو ۃ الجمعۃ مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۲/۲۹)
فھذہ تسعۃ عشر نصا وختم العشر ین بکلا م الامام ابن الحا ج المکی مالکی فا نہ رحمہ اللہ تعا لی عقد فی المد خل فصلا للنھی عنہ وفی نفی فعلہ من السلف الصا لح مطلقا فد خل فیھم ائمۃ المذا ھب الا ربعۃ جمیعا ومن قبلھم من الصحا بۃ و التا بعین رضی اللہ تعا لی عنھم اجمعین و ھذا ما نصہ۔
یہ انیس نصو ص ہیں اور بیسو یں نص اما م ابن الحا ج مکی مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتا ب مد خل میں ایک فصل تحر یر فر ما ئی جس میں مسجد کے اند ر اذا ن کی کر اہت بیان فر ما ئی اور بتا یا کہ مطلقا سلف صا لحین نے اس فعل کی نفی کی ہے تو اس عمو م میں ائمہ اربعہ داخل ہو گئے اور ان سے پہلے کے صحا بہ و تا بعین بھی۔
فصل فی النھی عن الا ذان فی المسجد و قد تقدم ان للا ذا ن ثلثۃ موا ضع ،المنا رہ، وعلی سطح المسجد ،وعلی با بہ ، واذا کا ن ذلک کذلک فیمنع من الاذا ن فی جو ف المسجد لو جوہ احدھا انہ لم یکن من فعل من مضی ۱؎ الی اخر ہ ۔
مد خل کی عبا ر ت یہ ہے ''مسجد میں اذا ن کی مما نعت کے بیا ن میں یہ گزر چکا کہ اذا ن کے لیے تین جگہیں ہیں مسجد کی چھت ،مسجد کا دروا زہ اور منا رہ،اور جب ایسا ہے تو مسجد کے اندر اذا ن کی مما نعت کئی وجہ سے ثا بت ہے اول یہ کہ گز شتہ بزر گا ن دین مسجد کےا ند ر اذان نہیں دیتے تھے ''الخ
(۱؎المد خل فصل فی النہی عن الا ذا ن فی المسجد دار الکتا ب العر بی بیر و ت ۲/ ۲۵۱)
نفحہ ۲: بمرأی منک ھذہ النصوص بعمو مھا و اطلا قھا فا ن الفعل کما عر ف فی الا صو ل فی قو ۃ النکر ۃ وقدوقع فی حیز النفی فقولھم لا یؤ ذن فی المسجد عا م و البا قی مطلق و لا اثر فیھا للتخصیص و التقیید فو جب امرارھا کما ھی والتی فیھا ذکر المئذنۃ فاقو ل: اولا لا تو ذن بخر و ج اذا ن الخطبۃ فان النا س بعد الصدر الا و ل احد ثو ا اعلاء المنا بر دککا بحذا ئھا لاذا ن الخطبۃ کما ھو مشہور ھھنا فی الجو ا مع السلطا نیۃ ستعلم جوا ز ذلک بشر طہ
فیصد ق وعلی ھذا لاذا ن ایضا انہ علی المئذ نۃ و ان لم تکن فی الفنا ء ۔
نفحہ ۲: یہ نصو ص اپنے عمو م و اطلا ق کے ساتھ سب کے سامنے ہیں اور اصول فقہ سے یہ ظا ہر ہے کہ فعل نکر ہ کے حکم میں ہے اور نفی کے تحت ہو تو عا م ہے پس فقہا ء کا قو ل لا یو ذن فی المسجد عا م ہے اور با قی اقوا ل مطلق ہیں جن میں تخصیص و تقیید کا کو ئی اثر نہیں تو ان کو اپنے عمو م پر ہی جا ر ی رکھنا ہو گا ۔ اور جن کی عبا رتو ں میں مئذنہ کا ذکر ہے تو وہ خطبہ کی اذا ن کو اس حکم سے نکا لنے کے لئے نہیں اولا اس لیے کہ صد ر اول کے بعد ہی لوگوں نے بلند منبر اور ان کے سا منے اذا ن جمعہ کے لیے چبو ترے بنا ئے جیسا کہ شا ہی مسجد و ں میں اب بھی دیکھا جا سکتا ہے (اور ان کی بنا مخصو ص شرا ئط کے سا تھ جا ئز بھی ہے) تو اذا ن جمعہ کے لیے یہی مئذنہ ہو ئے اور ان پر اذا ن ،اذا ن علی المئذ نہ ہو ئی تو اس حکم میں کہ مئذنہ پر اذا ن نہ ہو تو صحن مسجد میں ہو اذا ن جمعہ بھی دا خل رہی۔
وثانیاً الحکم علی مطلق او عا م بمفہو م مردد انما یقتضی ان لا یخلو شیئ من افرادہ عن کلا الو جہین اما کو ن کل فرد یجر ی فیہ الوجہا ن فلا ، و ھذا ظا ہر جدا ۔عبا ر ۃ نسختی الفتح و العنا یۃ ۔ واما الا ذا ن فعلی المئذنۃ فا ن لم یکن بیا ء تحتیۃ ای الاذا ن علیھا ففی فنا ء المسجد وعدم کو نہ علیہا یشمل التر ک و الکف فید خل فیہ کل اذان، و کذا علی نسخۃ تکن بتاء فو قا نیۃ و الضمیر للمنا ر ۃ فا ن المراد الکو ن الشر عی والو جو د حسیا غیر الو جو د لشیئ شر عا و علی التنزل فزیادتھما لفظۃ قا لو ا قطعت ھذا الحکم عن سنن السا بق و ذلک لان لا یو ذ ن بمعنی لا یفعل الاذا ن و ھو بعمو مہ کا ن یشمل کل اذا ن لکن ھذا التنزل الاخیر لما کان الکلام فی ما بین العبا ر تین فی اذا ن المنا ئر خا صۃ فلولم یاتیا بقالوا لاشمل الظرف الحکم الی العھد ومقصودھما رحمھما اللہ تعالی مع الاستبدال بہ علی المسألۃ الخاصۃ افادۃ الحکم العام فزادا قالوا فصا ر حکما منقو لا و لا عہد فی المنقو ل عنہ فلم یسر الیہ عہد سیا قہ وبقی علی محو ضۃ اطلا قہ و لعمر ی لا یو قف علی اشا را تھم الا بتو فیق من برکا تھم و اللہ المو فق لا ر ب سوا ہ ۔