Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۸ (کتاب الشتّٰی)
13 - 135
نفحہ ۱۱: لا یذھبن عنک ان ھھنا سنتین،سنۃ خا صۃ با ذا ن الخطبۃ و ھو کو نہ بین ید یہ الخطیب حین جلو سہ علی المنبر ، و سنۃ عا مۃ لکل اذان و ھو کو نہ فی حد ود المسجد او فنا ئہ ،لا فی حد ود المسجد او فنا ئہ لا فی جو فہ کما ستسمع نصو ص الفقھا ء علیہ و قد سردنا لک اسماء ھم و قد ا رشد حد یث السا ئب رضی اللہ تعا لی عنہ الیھما معا ۔۔۔۔ فا لا ولی قو لہ بین یدی  رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر ،وا لا خر ی قو لہ علی با ب المسجد فا ن با ب المسجد فی حدودہ لا فی جو فہ و خصو صیۃ البا ب ملغاۃ قطعا وانما لا یکو ن علیہ لکو نہ وجا ہ المنبر لولا ذالک لم یکن علی البا ب بل علی حا فۃ المسجد او فی فنا ئہ بین یدی الا ما م فا نکشف بہ سو الان کثیرا ما توردھما جھلۃ الھنود الا و ل ان العلما ء لم یذکر و ا من سنن ھذا ا لا ذان کو نہ علی البا ب قل لھم لم یذکر و نہ مع انہ غیر مقصود فی ھذا البا ب و ما مثلہ الاکمثل من یر ی حد یث ان بلا ل رضی اللہ تعا لی عنہ کا ن یؤ ذن علی سطح بیت ستنا نوار ام زید بن ثا بت رضی اللہ تعا لی عنھما فیحسب ان السنۃ فیہ کو نہ من سطح بین الجیرا ن حتی لو کا ن علی منارۃ او علی جدا ر المسجد کا ن مخا لفا للسنۃ وھذا اجہل منہ بان القصد کان علی محل عال لا الی خصوص سقف جا ر ،کذا ھھنا ، والثانی ان الفقہا ء  لا یذکر و نہ فی باب الجمعۃ سنیۃ اذان الخطبۃ خارج المسجد فی حدودہ انما یذکرون استنان کونہ بین ید ی الا ما م قل لھم ولم یذکر و نہ ثمہ فا نہ لا یختص بہ بل ھو حکم مطلق ا لاذان الشر عی فمحل ذکرہ ھوباب الاذان لاباب الجمعۃ وقد ذکروہ فیہ نعم کو نہ بین ید یہ کا ن من خصو صیا ت اذا ن الخطبۃ فذکر وہ فی با ب الجمعۃ اشتمل الحد یث علی حکمین خاص وعام وکان من حقھما ان یذکر الخاص فی با ب الخا ص والعا م فی با ب العا م و کذالک فعلوا ولکن العوام لا یفقھو ن ھذا علی تسلیم زعمھم والا فعلما ؤ نا لم یخلو ا با ب الجمعۃ ایضا عن افا دۃ ھذا الحکم کما ستری بعو ن العلی الا علی ۔
نفحہ ۱۱: یہ امر قا بل لحا ظ ہے کہ یہا ں دو سنتیں ہیں جن میں ایک کا تعلق خا ص اذا ن خطبہ سے ہے یہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت اذا ن کا اس کے سا منے ہو نا ہے اور ایک عا م سنت ہے جو ہر اذا ن کو عا م ہے اور اذا ن کا حدود مسجد کے اند ر اس کے صحن میں ہونا ہے نہ کہ خا ص مسجد کے اند ر اسکی تصر یح ان فقہا ء کے نصو ص میں ہے جن کا نا م ہم بیا ن کر چکے ہیں اور سا ئب ابن یز ید رضی اللہ تعا لی عنہ نے اپنی اس حد یث میں ان دو نو ں ہی سنتو ں کا بیا ن کیا ہے کہ اذا ن خطبہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد اس کے سا منے ہو ئی اور یہ کہ اذا ن مسجد کے دروا زہ پر ہو ئی اور دروا زہ مسجد مسجد کی حد پر ہو تا ہے مسجد کے اند ر نہیں لیکن اذا ن کی سنت میں دروا زہ کی کو ئی خصو صیت نہیں اہمیت صر ف منبر کے سامنے ہو نے کو ہے اگر کسی مسجد میں منبر کے سا منے دروازہ نہ ہو تو ایسا نہیں ہے کہ دروا زہ ڈھو نڈ کر وہیں اذا ن دی جا ئے بلکہ خطیب کے سا منے حد و د مسجد اور صحن مسجد میں ہو گی اس سے دوسو الو ں کا جو ا ب ہو گیا جو اکثر کیا جا تا ہے اول یہ کہ علماء  نے اس اذا ن کی سنتو ں میں اس کا دروا ز ہ پر ہو نا ذکر نہ کیا جو ا ب یہ ہے کہ اس لیے اس کا ذکرنہ کیا کہ دروا ز ہ اس با ب میں غیر مقصو د ہے اس حد یث میں اس کا ذکر ایسے ہی ہے  جیسے دوسر ی حد یث میں سطح بیت نوار ام زید کا کہ حضر ت بلا ل رضی اللہ تعا لی عنہ نوا ر ام زید پر اذا ن دیتے تھے تو اگر کو ئی یہ گما ن کر ے کہ اذا ن میں یہ سنت ہے کہ پڑو سیو ں کے گھر کی چھت پر ہو اور کو ئی شخص منا رہ یا مسجد کے دروا زہ کے اوپر کھڑا ہو کر دے تو سنت کے مخا لف ہے تو غلط ہے کیو نکہ اس گھر کی چھت کے ذکر سے مقصد تو یہ ہے کہ بلند جگہ پر اذا ن ہو نہ یہ کہ 

پڑو سی کے گھر کی چھت پر دو سرا سوال یہ کہ فقہا ء اس اذا ن کے لیے خا ر ج مسجد ہو نے کی شر ط با ب جمعہ میں ذکر نہیں کر تے بلکہ صر ف اتنابتا تے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ اما م کے سا منے ہو جو ا ب یہ ہے کہ خاص باب جمعہ ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سنت صر ف اذان جمعہ کے سا تھ مختص نہیں بلکہ تما م اذا نوں کی سنت ہے اس لیے علما ء نے اس کو مطلق اذا ن کے با ب میں ذکر کیا ہا ں خطیب کے سا منے ہو نا اذا ن جمعہ کے سا تھ خاص تھا تو اس کو با ب جمعہ میں خصو صیت کے سا تھ ذکر کیا خلا صہ کلا م یہ ہے کہ حد یث حضر ت سا ئب ابن یز ید رضی اللہ تعا لی عنہ اذا ن کے دو خا ص و عا م حکم کو شا مل تھی اصو لا اس کو دو علیحد ہ علیحد ہ ابو ا ب میں ذکر کر نا چا ہیے تھا فقہا ئے امت نے ایسا ہی کیا یہ جو ا ب اس تقد یر پر ہے کہ سا ئل کے قو ل کو تسلیم کیا جا ئے ورنہ ہما رے علما ء کر ا م نے ابو ا ب جمعہ کو بھی اس بیا ن سے خا لی نہیں رکھا ان شا ء اللہ آئند ہ ہم اس کی شہادتیں پیش کر یں گے ۔
نفحہ ۱۲: اذاعجز وا من کل جہۃ قا لو ا ھذا حد یث لم یعر ج علیہ النا س فکا ن مہجو را عند ھم و ھذا کما تر ی قو ل من لم یترعر ع عن العامیۃشیئا الحدیث وکل شیئ انما یطلب فی معدنہ ولا یضر ہ عد م و جدانہ فی غیر ہ مع ھذا ما ھی الا شہادۃ نفی ولا سیما من قو م عمی ولو ابصر وا لنظر و ا ان العلما ء لم یز الو ا یو ردو نہ و یعتمد ونہ ففی تفسیر الخا ز ن (اذا نودی للصلوۃ من یو م الجمعۃ ) اراد بھذا الا ذا ن عند قعو د الا ما م علی المنبر لا نہ لم یکن فی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم نداء  سو ا ہ ولا بی دا ؤ د قا ل کا ن یؤذن بین ید ی النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یو م الجمعۃعلی با ب المسجد ۱؎، اھ مختصر ا ۔
نفحہ ۱۲: اور جب ہر طر ف سے عا جزآگئے تو کہا کہ لو گو ں نے اس حد یث کا چر چا ہی نہیں کیا تو یہ متر و ک العمل رہی مگر یہ با ت ایسے شخص کی ہو سکتی ہے جو عو ا م کے درجہ سے با لشت بھر بھی بلند نہ ہو سکا کیو نکہ ہر چیز کو وہیں تلا ش کر نا چا ہیے جہا ں اس کا ٹھکا نہ ہو اور دو سر ی جگہ نہ ملنے کی کو ئی شکا یت نہیں اور یہ با ت اسی قبیل سے ہے کہ کسی چیز کے نہ ہو نے پر اند ھو ں کی گو ا ہی پیش کی جا ئے ورنہ علما ء تو اس حد یث کا مسلسل ذکر کر تے ر ہے اور اس پر اعتما د کر تے رہے تفسیر خا ز ن میں ہے :(جمعہ کے دن جب نما ز کے لیے اذا ن دی جا ئے )اس سے وہ اذا ن مراد ہے جو اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہو تی ہے اس لیے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ میں اسکے علا وہ اور اذا ن نہیں تھی ۔ابو دا ؤ د کی حد یث میں ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جمعہ کے دن جب منبر پر بیٹھتے توان کے سا منے مسجد کے دروا زہ پر اذا ن دی جا تی تھی  اھ مختصر اً
 (۱؎لبا ب التا ویل فی معا لم التنزیل (تفسیر الخا زن)        تحت آیۃ ۶۲ / ۹        دار الکتب العلمیہ بیر و ت ۴/ ۲۹۰)
وفی تفسیر الکبیر : قو لہ تعا لی''اذا نو دی ''یعنی الند اء اذا جلس الا ما م علی المنبر یو م الجمعۃ وھو قو ل مقا تل و انہ کما قا ل لانہ لم یکن فی عہد رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم ند ا ء سوا ہ کا ن اذا جلس علیہ الصلو ۃ والسلا م علی المنبر اذن بلا ل علی با ب المسجد و کذا علی عہد ابی بکروعمر رضی اللہ تعا لی عنھما ۱؎، اھ
تفسیر کبیر میں ہے : اللہ تعا لی کا قو ل ''جمعہ کے دن جب نما ز کے لیے اذا ن دی جا ئے ''یعنی ند ا جو جمعہ کے دن اما م کے منبر پر بیٹھتے وقت دی جا تی ہے یہی مقا تل کا قو ل ہے اور ایسا ہی بیا ن کیا گیا ہے کہ حضو رصلی اللہ تعا لی کے زما نہ میں اس اذان کے علا وہ کو ئی اذان نہیں دی جا تی تھی جمعہ کے دن جب حضور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم منبر پر بیٹھتے تو بلا ل رضی اللہ تعا لی عنہ مسجد کے دروا زہ پر اذا ن دیتے ایسا ہی ابو بکر و عمر رضو ان اللہ علیھما کے زما نے میں بھی تھا ۔
 (۱؎مفا تیح الغیب (التفسیر الکبیر )                تحت الآیۃ ۶۲/۹        مید ان الجا مع الا زہر مصر ۳۰/۸)
وفی الکشا ف : الند ا ء الا ذان وقا لو ا لمرا د بہ الا ذان عند قعود الا ما م علی المنبر ،و قد کا ن لر سو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مؤ ذن واحد فکا ن اذا جلس علی المنبر اذن علی با ب المسجد فا ذا انزل اقا م للصلو ۃ ثم کا ن ابو بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنھما علی ذلک حتی اذا کا ن عثما ن و کثر النا س و تباعد ت المنا زل زا د مؤ ذنا اٰخر فا مر با لتا ذین الاو ل علی دا رہ التی تسمی ''زوراء''فا ذا جلس علی المنبر اذن المو ذن الثا نی فا ذا نز ل اقا م للصلو ۃ ۱؎، اھ
تفسیر کشا ف میں ہے (سورہ جمعہ کی آیت میں ) ند ا ء سے مراد اذا ن ہے کہتے ہیں کہ اس اذا ن کی طر ف اشا ر ہ ہے جو اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جا تی تھی حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبا ر ک میں ایک ہی مؤ ذن آپ کے منبر پر بیٹھتے ہی مسجد کے دروا زہ پر اذا ن دیتا خطبہ کے بعد آپ مبنر سے اتر کر نما ز قا ئم فرماتے ابو بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنھما کے زما نہ میں بھی ایسا ہی ہو تا رہا حضر ت عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہ خلیفہ ہو ئے اور لو گو ں کی تعدا د میں بڑا اضا فہ ہو ا اور دور دور تک مکا نا ت ہو گئے تو آپ نے ایک مو ذن کا اور اضا فہ فر مایا اور اسے پہلی اذا ن کا حکم دیا جو آ پ کے گھر سے مو سو م بہ زوا ء  پر د ی جا تی (یہ مکا ن مسجد سے دور با زا ر میں تھا ) اور آپ جب منبر پر بیٹھتے تو دوسر ے مو ذن اذا ن دیتے پھر آپ منبر سے اتر کر نما ز قا ئم فر ما تے ۔
 (۱؎الکشا ف عن حقا ئق غو امض التنزیل         تحت الا ۤیہ ۶۲/ ۹        دار الکتا ب العر بی بیر وت     ۴/ ۵۳۲)
وفی الد ر الشفا ف لعبد اللہ بن الہا دی : کان لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مؤذن واحدفکان اذا جلس علی المنبر أذّن علٰی باب المسجد فاذا نزل اقام الصّلوۃ۱؎اھ
در شفاف لعبد اللہ بن الہادی میں ہے: آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک ہی مؤذن تھے جو آپ کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دروازہ مسجد پر اذان دیتے پھر آپ منبر سے اتر کر نماز قائم فرماتے۔
 (۱؎الد ر الشفا ف )
وکذا فی النھر الماد من البحر لا بی حیا ن : کذالک کا ن فی زما ن رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کا ن اذ ا صعد علی المنبر اذن علی با ب المسجد فاذا نزل بعد الخطبۃ اقیمت الصلو ۃ و کذا کا ن فی زمن ابی بکر و عمر الی زمن عثمان کثر النا س و تبا عد ت المنا زل فزا د مو ذنا آخر علی دارہ التی تسمی الزورا ء فا ذا جلس علی المنبر اذن الثا نی فا ذا نزل من المنبر اقیمت الصلو ۃ ولم یعب احد ذلک۲؎
نہر الما د من البحر لا بی حیا ن میں بھی اسی طر ح ہے حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے زما نہ پا ک میں ایسا ہی ہو تا تھا کہ جب آپ منبر پر بیٹھتے تو مسجد کے دروا زہ پر اذا ن ہو تی ،اور جب خطبہ کے بعد آپ اتر تے تو نما ز قا ئم ہوتی ایسے ہی صا حبین کے عہد تا ابتدا ء عہد عثما ن غنی رضو ان اللہ علیہم اجمعین ہو تا رہا پھر عثما ن کے زمانہ میں مد ینہ شر یف کی آبا دی بڑھ گئی لوگ زیا دہ ہو گئے اور مکا نا ت دور تک پھیل گئے تو آپ نے ایک مؤ ذن کا اضافہ فر ما یا اور انہیں حکم فرما یا کہ پہلی اذا ن آپ کے مکا ن زوراء پر دیں پھر جب آپ منبر پر بیٹھتے تو مؤ ذن دوسر ی اذان دیتا پھر آپ منبر سے اترکر نما ز قا ئم فر ما تے اس اضا فہ پر کسی نے آپ پر اعترا ض نہیں کیا ۔
 (۲؎النہر الما د من البحر علی ہا مش البحر المحیط         تحت الا ۤیۃ ۶۲/ ۹        دا را لفکر بیر و ت     ۸/ ۲۶۵)
وفی تقر یب الکشا ف (لا بی الفتح محمد بن مسعود ) کا ن لر سو ل اللہ صلی اللہ تعا لی وسلم کذا لشیخین بعد ہ مؤ ذن واحد یو ذن عند الجلو س علی المنبر علی با ب المسجد ۳؎، اھ
تقر یب کشا ف لابی الفتح محمد بن مسعود میں حضو ر صلی اللہ تعا لی وسلم اور آپ کے بعد شیخین رضی اللہ تعا لی عنہما کے عہد میں ایک ہی مؤ ذن تھا جو اما م کے منبر پر بیٹھنے کے وقت مسجد کے دروا زے پر اذا ن دیتا تھا ۔اور جب آپ منبر پرسے اترتے نماز قائم فرماتے ۔
 (۳؎تقر یب الکشا ف محمد بن مسعود )
وفی تجر ید الکشا ف لا بی الحسن علی بن القا سم : کا ن لہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مؤ ذن وا حد فکا ن اذا جلس علی المنبر اذن علی با ب المسجد فا ذا نز ل اقا م الصلو ۃ ۱؎، اھ
اور تجر ید کشا ف لا بی الحسن علی بن القا سم میں ہے : حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کا ایک مؤ ذن تھا جب آپ منبر پر بیٹھتے تو وہ مسجد کے دروا زے پر اذا ن دیتا تھا اور آپ جب منبر سے اتر تے تو نما ز قا ئم فر ما تے ۔
 (۱؎تجر ید الکشاف )
وفی تفسیر النیسا بو ری :  الند ا ء الا ذان فی اول وقت الظہر و قد کا ن لر سو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مؤ ذن وا حد فکا ن اذا  جلس علی المنبر اذن علی باب المسجد۲؎الخ مثل ما فی الکشا ف ۔
تفسیر نیشا پو ر ی میں ہے نداء اول وقت ظہر میں اذا ن ہے حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کا ایک مؤ ذن تھا جب آپ منبر پر بیٹھتے تو وہ مسجد کے دروا زے پر اذا ن دیتا تھا الخ(موافق تفسیر کشا ف )
(۲؎غر ا ئب القر ا ن (تفسیر نیشا پوری) تحت الا ۤیۃ        ۶۲/ ۹    مصطفی البا بی مصر        ۲۸/ ۵۲)
وفی تفسیر الخطیب ثم الفتو حا ت الا لھیۃ : قو لہ تعا لی ''اذا نو دی للصلو ۃ ''المرا د بھذا ا لند اء الا ذان عند قعو د الخطیب علی المنبر لا نہ لم یکن فی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ند اء  سو اہ فکا ن لہ مؤ ذن واحد اذا جلس علی المنبر اذن علی با ب المسجد فا ذا نزل اقا م الصلو ۃ ثم کا ن ابو بکر و عمر و علی بالکو فۃ رضی اللہ تعا لی عنھم علی ذلک حتی کا ن عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہ و کثر النا س و تبا عد ت المنا زل زا د اذانا آخر ۱؎،الخ
تفسیر خطیب وفتو حا ت الہیہ میں ہے اللہ تعا لی کا فر ما ن ''جمعہ کے دن جب نما ز کے لیے اذان دی جا ئے ''اس ندا  سے وہ اذا ن مرا د ہے جو اما م کے منبر پر بیٹھنے پر دی جا تی ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی وسلم کے عہد میں اس اذا ن کے علا وہ تھی ہی نہیں ایک ہی مؤ ذن تھا جب آپ منبر پر بیٹھتے تو وہ دروازہ پر اذان  دیتا جب آپ منبر سے اترتے تو نما ز قا ئم ہو تی پھر ابو بکر و عمر و علی (رضی اللہ تعا لی عنھم)کو فہ میں اسی پر عا مل رہے مد ینہ میں عہد عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ میں آبا دی بڑھی اور مکا نا ت دور دور تک پھیل گئے تو انہو ں نے ایک اذا ن اور زائد کی ۔
 (۱؎الفتو حا ت الا لہیہ (الشہیر با لجمل)    تحت الا ۤیۃ     ۶۲/ ۹    مصطفی البا بی مصر ۴/ ۳۴۳)
وفی کشف الغمۃ للا ما م الشعر ا نی کا ن الاذا ن الا و ل علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و ابی بکر و عمر رضی اللہ تعا لی عنھما اذا جلس الخطیب علی المنبر الی قو لہ و کا ن الا ذا ن علی با ب المسجد ۱؎، اھ
کشف الغمہ للا ما م شعرا نی میں ہے اذا ن او ل حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور ابو بکر وعمر رضی اللہ تعا لی عنھما کے زما نہ میں جب خطیب منبر پر بیٹھتا اور اذان مسجد کے دروا زہ پر ہو تی ۔
 (۲؎کشف الغمہ         با ب صلو ۃ الجمعہ فی الا ذا ن و الخطبۃ وغیرہا         دار الفکر بیرو ت     ۱/ ۱۸۵ )
الشما مۃ الثا نیہ من صندل الفقہ

(شمامہ ثانیہ از صندل فقہ)
نفحہ ۱: الحمدللہ تظافرت النصوص علی کراھۃ الاذان فی المسجد والنھی عنہ بصیغۃ النفی الا کد من صیغۃ النھی ففی الخا نیۃ والخلا صۃ و خزا نۃ المفتین و شر ح النقا یۃ للعلا مۃ عبد العلی و الفتا وی الھند یۃ والتا تا ر خا نیۃ ومجمع البر کا ت ینبغی ان یو ذن علی المئذنۃ او خا ر ج المسجد ولا یو ذن فی المسجد ۱؎، اھ
نفحہ ۱: اللہ تعالی  کے لیے بے شما ر حمد ہے کہ مسجد کے اند ر اذا ن مکر و ہ ہو نے پر کثیر التعدا د فقہی نصو ص ہیں وہ بھی صیغہ نفی کے ساتھ جو مما نعت میں نہی سے زیا دہ مؤ کد ہو تا ہے ۔خا نیہ خلا صہ خزا نہ المفتین ،شر ح نقایہ للعلامہ عبد العلی فتا وی ہند یہ ،تا تا رخا نیہ ،مجمع البر کا ت میں ہے مئذنہ پر اذا ن دینا چا ہیے یا مسجد کے باہر ؟ مسجد میں اذا ن نہ دی جا ئے ۔
 (۱؎الفتا وی الہند یہ         کتا ب الصلوۃ     البا ب الثا نی الفصل الثا نی     نو را نی کتب خا نہ پشا ور     ۱/ ۵۵)

(فتا وی قا ضی خا ن         مسا ئل الا ذا ن    ۱/ ۳۷    و خلا صۃ الفتا وی الفصل الا و ل فی الا ذا ن         ۱/ ۴۹)

(خزا نۃ المفتین         فصل فی الا ذا ن     ۱/ ۱۹    وشر ح النقا یۃ للبر جند ی     با ب الا ذا ن     ۱/ ۸۴)
وفی البحر الرا ئق شر ح کنز الد قا ئق وفی الخلا صۃ ولا یؤ ذن فی المسجد ۱؎، اھ
بحر الرا ئق شر ح کنز الدقا ئق اور خلاصۃ الفتا وی مسجد میں اذان نہ دی جا ئے ۔
 (۱؎البحر الر ا ئق         کتا ب الصلو ۃ     با ب الا ذا ن     ایچ ایم سعید کمپنی کر ا چی         ۱/ ۵۵)

(خلا صۃ الفتا وی         الفصل الا ول فی الا ذا ن         مکتبہ حبیبیہ کو ئٹہ             ۱/ ۴۹)
وفی شر ح مختصر الاما م الطحا و ی للا ما م الا سبیجا بی ثم المجتبی شر ح مختصر الا ما م القدو ری لا یؤ ذن الا فی فنا ء المسجد او علی المئذ نۃ ۲؎
شر ح مختصر الا ما م طحا وی للا ما م اسبیجا بی اور مجتبی شر ح مختصر للا ما م قد ور ی میں ہے اذا ن نہ دی جا ئے مگر صحن متعلقہ مسجد میں منا رہ پر ۔(۲؎)
وفی البنا یۃ شر ح الھد ا یۃ للا ما م العینی: لا یؤ ذن الا فی فنا ء المسجد او نا حیتہ(عہ)۳؂۔
بنا یہ شر ح ہد ایہ لا ما م عینی میں ہے :اذا ن نہ دی جا ئے مگر صحن مسجد میں یا مسجد کے کنا رے ۔(۳؎)
عہ : النا حیۃ الر کن ،وا لجا نب کلھا بمعنی فی القا مو س النا حیۃ الجا نب ۴؂ اھ  وفی المصبا ح الجا نب۵؂ النا حیۃ وفی تا ج العر و س رکن الجبل والقصر جا نبہ و ارکا ن کل شیئ جو ا نبہ التی یستند الیھا و یقو م بھا ۶؂ اھ  واللفظ مبنی من التنحی والا عتزال کا لمجا نب من المجا نبۃ والا نفصا ل و تر ی رکنی الکعبہ الکر یمۃ الا سو د الیما نی خا ر جۃ منھا ۔

وذکر فی خلا صۃ الو فا ء ان عمر بن عبد العز یز رضی اللہ تعا لی عنہ جعل للمسجد اربع منا را ت فی زوا یا ت الا ربع ثم قال کل ذلک من الھلال  الی الا رض خا رج عن المسجد  ۳؎منہ غفر لہ۔
ناحیہ رکن اور جا نب سب کے معنی ایک ہیں قا مو س میں ہے نا حیہ جا نب اور کنا رے کو کہتے ہیں مصبا ح میں ہے الجانب الناحیۃ جانب اور کنارہ ہی ناحیہ ہے ۔تا ج العر و س میں ہے پہا ڑ اور محل کا رکن اس کا کو نہ ہو تا ہے اور ہر شیئ کا رکن اس کا کنارہ ہی ہوتا ہے۔ جس کی طر ف اس کی نسبت ہو تی ہے یا اس کے سا تھ قا ئم ہو تا ہے یہ لفظ علیحد گی اور جد ائی کے معنی دیتا ہے جیسے جا نب دوری اورانفصال کے معنی دیتا ہے اورکعبہ شریف کے  دونو ں رکن اسو د اور یما نی کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ دو نو ں کعبہ سے خا رج ہیں 

اور خلا صۃ الوفا ء میں ذکر کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعا لی عنہ نے مسجد نبو ی شر یف کے چا رو ں کونوں پر چار میناربنائے اور فرمایا کہ یہ چاروں مینار  زمین سے لے کر چا ند تک خا رج مسجد ہیں (منہ غفر لہ)۔
 (۴؎القا مو س المحیط         با ب الوا و وا لیا ء     فصل النو ن    مصطفی البا بی مصر     ۴/ ۳۹۷)

(۵؎المصبا ح المنیر         تحت اللفظ ''جنب''    منشو را ت دار الہجر ۃ قم ایر ان         ۱/ ۱۱۰)

(۶؎تا ج العر و س         با ب النو ن فصل الر ا ء         دار احیا ء التر اث العر بی بیر و ت    ۹/ ۲۱۹ )

(۳؎وفا ء الو فا ء         الفصل السا بع عشر        دار احیا ء الترا ث العر بی بیر وت ۲/ ۵۲۶و۵۲۷)
Flag Counter