نفحہ ۹: اشنع منہ زعم ان(عہ) العا طف محذوف قبل قو لہ ''علی با ب المسجد ''والمعنی کا ن الاذا ن تا ر ۃ بین ید یہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و تا رۃ علی با ب المسجد او کا ن یکو ن فی المحلین غیر ان الذی علی البا ب کا ن اعلا ما بغیر لفظ الاذان و ھذا بحکا یتہ یعنی عن نکا یتہ فما مثلہ الا کمن یقو ل فی قو لہ تعا لی صیا م شہر ین متتا بعین من قبل ان یتما سا ۱؎ ان الوا و بمعنی او محذو ف قبل من''من قبل''والمعنی اما متتا بعین او قبل ان یتما سا ۔
نفحہ ۹: اس سے بر ی تا ویل یہ ہے کہ یہ کہا جا ئے کہ الفا ظ حد یث میں لفظ ''علی البا ب ''سے پہلے واو یا او محذوف ہے اور مطلب یہ ہے کہ اذا ن کبھی حضو ر کے سا منے منبر کے پا س ہو تی اور کبھی دروا زہ پر یا مطلب یہ ہے کہ مو ذن با نگ دو نو ں جگہ دیتا منبر کے پا س وا لی تو اذا ن ہو ئی اور درو ا زے کے پا س وا لا اعلا ن تھا جو اذان کےالفاظ میں نہیں ہوتا تھا یہ با ت خو د ہی اپنا بطلان کر رہی ہے کیو نکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کو ئی کفارہ ظہار کی آیت صیا م شہر ین متتا بعین من قبل ان یتما سا (صحبت سے قبل مسلسل دو مہینے روزہ رکھنا ہے ) میں یہ کہے کہ آیت میں لفظ من قبل کے پہلے حر ف وا و جو بمعنی او ہے مقد ر ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل دو مہینے روزہ رکھے یا عو ر ت سے صحبت سے پہلے روزہ رکھے ۔
(۱؎القرآن الکر یم ۵۸/ ۴)
عہ: و مثلہ بل ابعد منہ قو ل اعجا ز الحق ان فی روایۃ محمد بن اسحق تقد یرا یعنی اذجلس النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم علی المبنر أذن بین یدیہ (بعد ما کا ن ) علی با ب المسجد فا لند ا ء لا با لفا ظ مخصو صۃ علی با ب المسجد کان فی زمن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و الشیخین ،ثم جعل عثمٰن ھذا الندا ء اذا نا ای با لفاظ مخصوصۃ علی مقام عال ھو الزوراء علی ما صرح بہ فی المر قا ۃ ۱؎فھذا ھو التحقیق الحقیق با لقبو ل وبہ ارتفع التعا رض فی الروا یا ت ،وزین القو ل با لفا ظہ الفصیحۃ فھذا اشد ۃ [شفا ھتہ لارزانتہ ]لم یقنع بحذف حر ف وا حد و لتو ھمہ ان ''یؤذن''فی الحدیث علی ۔۔۔۔۔۔ ولعمر اللہ لو جو ز امثا ل ھذہ الحذفا ت فی الکلا م لھان تحو یل کل نص الی ما تہو ی الانفس للئام فیقو ل من یبح الزنا للاعزب الحق ان فی قو لہ تعا لی ''ولا تقر بو ا الزنا ۲؎''تقد یر ا یعنی بعد ما تزو جتم لا ن المتا ھل عند ہ ما یغنیہ من الز نا المحر م علیہ بخلا ف الا عزب فا نہ محتا ج الیہ و یقو ل من یبیح قتل الشبا ن الحق ان فی قو لہ تعا لی ''ولا تقتلو ا النفس التی حر م اللہ ۳؎''تقد یرا یعنی بعد ما تحر م لا ن القتل لدفع الا یذا ء والھرم ، اضعف من ان یوذی احدا بخلا ف الشبا ب فا نہ ان لم یوذ حا لا فیستطیع ان یو ذی وقتل المو ذی قبل الا یذا ء ثم ھو بنفسہ لم لا یستدل علی مزعومہ با یۃ الجمعۃ قائلا : الحق ان فی کلامہ تعالٰی اذا نو دی للصلو ۃ من یوم الجمعۃ تقد یرا یعنی''اذا نودی للصلو ۃ ''داخل المسجدلصیق المنبر یو م الجمعۃ ولا حو ل ولا قو ۃ الا با اللہ العلی العظیم وما نسب التصر یح بہ الی القا ری فلم یصرح بہ ولم یکن وانما ابدی من عندنفسہ عد ۃ احتمالات شتی لما سبق الی وھمہ فا حتما ل ھو بعد ہ للتوفیق کما یاتی بعو نہ تعا لی بیا نہ الشافی فی نفحۃ عشر ین من الشما مۃ الرا بعہ ۱۲منہ ۔
اور اس سے بھی زیا دہ بعید اعجا زالحق کا قو ل ہے کہ محمد بن اسحق کی روا یت میں پو را ایک جملہ مقد ر ہے یعنی عبا ر ت یو ں ہے ''حضو ر اکر م صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جب منبر پر تشر یف فر ما ہو تے تو دروا زہ پر ہو نے کے بعد اذان آپ کے سامنے ہو تی ''یعنی وہ ند ا جو دروا زہ پر ہو تی اذان کے الفا ظ میں نہیں ہو تی تھی ایسا حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اور شیحین کے زما نہ میں ہو تا رہا پھر عثما ن غنی رضی اللہ تعا لی عنہ نے اپنے زما نہ میں اس کو اذا ن ہی کے الفا ظ میں مقا م زوراء پر کہلا نا شر و ع کیا جو مسجد سے دور ایک بلند جگہ تھی ایسا ہی ملا علی قا ری علیہ الر حمہ نے مر قا ۃ شر ح مشکو ۃ میں تحر یر فر ما یا یہ تحقیق لا ئق قبو ل ہے ،اور اس سے تما م رو ا یتو ں کا تعا ر ض بھی اٹھ جا تا ہے مسمی اعجا ز الحق نے اپنی اسی با ت کو فصیح الفا ظ سے آرا ستہ کیا ہے لیکن اس کی یہ تا ویل بھی سخت گند ی ہے کہ اس نے ایک لفظ کے مقد رماننے پر قناعت نہ کی پورامرکب غیرمفید کر ڈا لا اور یہ سو چ کر کہ حد یث شر یف میں یؤ ذن کا مطلب چو نکہ اذا ن معر و ف ہے اس لیے با ب مسجد وا لا اعلا ن ہو گا اور اس کو ملا علی قا ر ی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کی طر ف منسو ب کر دیا واللہ العظیم اگر اس طر ح کی خر ا فا ت کلا م میں جا ئز ہو ں تو ہر شحص کو اپنی ہو ا ئے نفس کے مطا بق قرآ ن عظیم کی آیتیں پھیر نا آسا ن ہو گا مثلا جو لو گ کہتے ہیں کہ غیر شا دی شد ہ کو زنا جا ئز ہے وہ یہ کہنے لگیں گے کہ آیت شر یفہ لا تقر بو ا الزنا (زنا کے قر یب مت جا ؤ ) میں یہ ٹکڑا مقدر ہے بعد تزوجتم یعنی جس کی شا دی ہو چکی ہو وہ زنا کے قر یب بھی نہ جا ئے کیو نکہ شا د ی کر لینے و الے کو زنا کی حا جت نہیں بخلا ف غیر شا دی شد ہ کے اس کے پا س بیو ی نہیں تو کس طر ح اپنی شہو ت پو ر ی کر ے گا اسی طر ح جو لو گ جو انو ں کا قتل جا ئز رکھتے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعا لی کے فر ما ن ولا تقتلوا النفس التی حر م اللہ میں یہ ٹکڑا مقد ر ہے بعد ما تحر م اور مطلب بجا ئے اس کے کہ اللہ تعا لی نے قتل نفس حر ا م کیا ہے یہ ہے کہ بوڑھے ہو نے کے بعد انسا نو ں کا قتل حر ا م ہے کیو نکہ کسی کو قتل اس لیے کیا جا تا ہے کہ لو گو ں کو اس کی ایذا سے نجا ت ملے اور بو ڑھا ایذا پہنچا نے کے لا ئق نہیں تو اس کا قتل حر ام ہو نا چا ہیے بخلا ف جوانو ں کے کہ یہ فی الوقت ایذا نہ دیں ایذادے تو سکتے ہیں اور مو ذی کو ایذا سے پہلے قتل کر دینا چا ہئے اس طر ح آیت میں صر ف بڈھوں کے قتل کی مما نعت ہے جو انو ں کے قتل کی نہیں بلکہ خو د یہ مو و ل اسی مسئلہ میں قرآ ن کی آیت کو بھی اپنے مقصد کے مو افق بنا سکتا ہے مثلا قر آن شر یف کی آیت مقد سہ
اذا نو دی للصلو ۃ من یو م الجمعۃ
(جمعہ کے دن جب اذا ن پکاری جا ئے ) میں یہ مقدر ما ن لے
اذا نو دی للصلو ۃ دا خل المسجد لصیق المنبر من یو م الجمعۃ
(جب مسجد کے اند ر منبر سے متصل جمعہ کے دن اذان دی جا ئے ) لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم ۔۔۔۔ رہ گئی اس قدر نا معقول کی نسبت ملا علی قاری کی طرف تو یہ قطعا غلط ہے انھوں نے اس امر کی طر ف نہ کنا یہ کیا نہ تصر یح بلکہ انہو ں نے ایک وہم کی بنا پر حد یث کے الفا ظ میں اختلاف تصورکرتےہوئے اپنی طرف سے چند احتمالات کاذکر کیا کہ ان مخالف الفاظ میں تو فیق ہو جا ئے لیکن اختلا ف ان کا وا ہمہ تھا تو یہ سا ری تو فیقیں اسی کی پید وا ر ما نی جا ئیں گی اس کی پو ر ی تفصیل ان شا ء اللہ تعا لی شما مہ چہا ر م نفحہ بستم میں آرہی ہے ۱۲منہ۔
(۱؎مر قا ۃ المفا تیح با ب الخطبۃ والصلو ۃ تحت الحد یث ۱۴۰۴ المکتبہ الحبیبیہ کو ئٹہ ۳/ ۴۹۷)
(۱؎القر ان الکر یم ۱۷/ ۳۲ )(۱؎القر آن الکر یم ۱۷/ ۳۳)(۲؎القرآن الکر یم ۶۲/ ۹)
ثم اولا لیس مبنا ہ الا علی زعم المقا بلۃ بین ''بین ید یہ''و''علی البا ب ''وما ھو الا وھم فی تبا ب فلو وجد العا طف لم یدل علی التو زیع بل علی جمع جمیع و ھو مرا دنا ۔
پھر اولا اس کی تا ویل کی بنا اس وا ہمہ پر ہے کہ لفظ بین ید یہ اور علی البا ب میں تقا بل ہے دو نو ں ایک مصدا ق پر صا د ق نہیں آسکتے اور چو نکہ یہ وہم با طل ہے اس لیے او بھی یہا ں تقسیم کے لیے نہیں ہو گا بلکہ اس با ت کے اظہا ر کے لیے ہو گا کہ لفظ بین ید یہ اور علی البا ب دو نو ں ایک ہی ہیں یعنی جمع کے لیے ہو گا ۔
ثم ثانیا یلزم علی الثا نی وجو د التثو یب فی الجمعۃ علی عہد رسو ل اللہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وھو خلا ف ما صرحو ا بہ بل السا ئب نفسہ رضی اللہ تعا لی عنہ یقو ل لم یکن للنبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم مؤ ذن غیر وا حد و کا ن التا ذین یو م الجمعۃ حین یجلس الا ما م یعنی علی المنبر روا ہ البخا ری ۱؎
ثانیا ''علی البا ب ''اور ''بین ید یہ ''دو الگ الگ ند ا ؤ ں سے متعلق ما ننے پر یہ لا زم آئیگا کہ عہد رسا لت میں نما ز جمعہ کے لیے تثو یب ہو تی تھی اور یہ تصر یحا ت علما ء کے با لکل خلا ف ہے بلکہ خو د سا ئب بن یز ید رضی اللہ تعالی عنہ یہی فر ما تے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد مسعود میں ایک ہی مؤ ذن ہو تا تھا جو اما م کے منبر پر بیٹھتے ہی اذان دیتا یہ روا یت بخا ری شر یف کی ہے ۔
(۱؎صحیح البخا ری کتا ب الجمعۃ با ب المؤ ذن الو ا حد یوم الجمعۃ قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/ ۱۲۴)
ثم ثالثاًھذا الا ذا ن ھو المحکو م علیہ فی الحد یث بکو نہ بین ید یہ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم وبکو نہ علی البا ب فکیف تفصیل بینھما با ن ما علی البا ب اعلا م غیر الا ذا ن الا ان تقدر مع العا طف معطوفا وھو الا علام او تحمل الاذان علی عمو م المجا ز فتر تکب مجا ز ا علی مجاز و تر ک الحقیقۃ من دو ن ضرو رۃ ملجئۃ وثیقۃ اشنع مسلک و اخنع طر یقۃ و با لجملۃ امثا ل الھو سا ت لا یر تکبھا الا من یکید النصو ص با لتعطیل و یرید التغیر با سم التا ویل۔
ثالثا حد یث شر یف میں تو ایک ہی اذا ن کے بین ید یہ اور علی البا ب ہو نے کی تنصیص ہے اس تفصیل کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے کہ دروا زہ پر اذان سے مختلف کلما ت میں اعلا ن ہو تا تھا ہا ں حر ف عطف کے ساتھ معطو ف کو بھی مقد ر ما نا جا ئے یعنی و بعد ما کا ن الا علا م علی با ب المسجد (مسجد کے دروا زہ پر اعلا ن ہو نے کے بعد سا منے اذا ن ہو تی یا لفظ یؤ ذن کو ہی عمو م مجا ز پر محمول کیاجاتا جس سے ڈبل مجاز بلکہ بلا کسی قرینہ ملجئہ کےتر ک حقیقت ما ننالا زم آئے تو یہ سب مخا لفین کی ہو س ہے جس سے وہ حد یث کی تفسیر کے نا م پر تغییر و تبد یل حد یث کر نا چاہتے ہیں )
نفحہ ۱۰: وبعض من تعیرنا بہ الجہل اراد ان یبد ی فی الحدیث علۃ تہد مہ عن اصلہ فزعم ان لم یکن فی زمنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم للمسجد الکر یم با ب تجاہ المنبر انما کا ن لہ ثلثۃ ابو ا ب ،با ب جبر یل (عہ) فی الشر ق و با ب السلا م و با ب الر حمۃ فی الغر ب وھذا ھجو م علی رد الحد یث با لجہل الخبیث کا ن للمسجد الکر یم ثلثۃ ابو اب با ب جبر یل فی الشر ق ثم زا د ا میر المو منین عمر رضی اللہ تعا لی عنہ با ب النسا ء وباب الر حمۃ فی الغر ب ثم زا د امیر المو منین عمر رضی اللہ تعا لی عنہ با ب السلا م و با ب ابی بکر فی الشما ل ثم زا د امیر المو منین با با اٰخر کما فصلہ عا لم المد ینۃ السید السمھو دی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ فی خلا صۃ الو فا ء ۱؎ و حسبک حد یث البخا ری فی ابو ا ب الا ستسقا ء عن انس بن ما لک رضی اللہ تعا لی عنہ ان رجلا دخل یو م الجمعۃ من با ب کا ن وجا ہ منبررسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم قا ئم یخطب ۲؎الحد یث۔
اور مخا لفین میں سے بعض جن کو ہم نے جہا لت پر عا ر دلا یا تھااس نے حد یث پا ک میں ایک ایسی علت پید ا کر نی چا ہی جو سر ے سے اس حد یث سے استد لا ل کو ہی ختم کر دے وہ کہتا ہے کہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے عہد پا ک میں کو ئی دروا زہ منبر کے سا منے تھا ہی نہیں پو ر ی مسجد نبو ی شر یف میں صرف تین دروا زے تھے پو ربی رخ پر با ب جبر یل اور پچھم طر ف با ب السلا م اور با ب الرحمہ (شما ل و جنو ب میں کوئی دروا زہ تھا ہی نہیں) یہ خبیث جہا لت سے حد یث کو رد کر نا ہے مسجد شر یف میں یہ تین دروا زے ضر و ر تھے مگر اور دروا زے بھی تھے جن کی تفصیل یو ں ہے پو ربی جا نب با ب جبر یل پھر امیر المو منین عمر فا روق رضی اللہ تعا لی عنہ نے اسی سمت
با ب النسا ء قا ئم فر ما یا پچھم طر ف با ب الر حمۃ پھر اسی طر ف امیر المو منین نے باب السلا م قا ئم فر ما یا شما لی جانب با ب ابی بکر پھر اسی طر ف امیر المو منین نے ایک دروا زے کا اور اضا فہ فر ما یا عا لم مد ینہ حضر ت سید سمہو دی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ نے خلا صۃ الو فا ء میں اس کی تصر یح فر ما ئی پھر با ب شما ل کے لیے کسی دوسرے حو ا لہ کی ضر و ر ت نہیں بخا ری شر یف با ب الا ستسقا ء کی یہ حد یث کا فی ہے انس بن ما لک رضی اللہ تعالی عنہ سے روا یت ہے کہ ایک آدمی اس دروا زہ سے جو منبر کے سا منے تھا ایک جمعہ کو آیا آپ صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اس وقت خطبہ ارشا د فر ما رہے تھے (الحد یث)
عہ : ھذا الاسامی حا دثۃ و لا یقیت الابو ا ب فی محل الابو ا ب بل احد ثت علی محا ذا تھا بعد الزیا دا ت ۱۲منہ۔
ابو ا ب کے نا م بعد میں رکھے گئے ہیں اور مو جو دہ دروا زے بھی ٹھیک انہیں مقا ما ت پر نہیں جہا ں تھے بلکہ مسجد کی تو سیع کے بعد انہیں دروا زوں کی محا ذا ت میں رکھے گئے منہ ۱۲غفر لہ
(۱؎ وفا ء الو فا ء الفصل الثا لث عشر دا ر احیا ء التر ا ث العر بی بیر و ت ۲/ ۴۹۴تا۴۹۶)
(۲؎صحیح البخاری ابو ا ب الاستسقا ء با ب الاستسقا ء فی المسجد الجا مع قدیمی کتب خا نہ کر اچی ۱/ ۱۳۷)