Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۸ (کتاب الشتّٰی)
11 - 135
نفحہ ۵: اکثر اصحا ب لزھر ی لم یذکر و ا فی الحد یث ''علی با ب المسجد''ولا ''بین ید یہ ''وھما زیا دۃ ثقۃ فو جب قبولھما ،ومن الظلم قبو لہ فی ھذا  لا فی ذا لک فلیس مستند کو نہ ''بین ید یہ ''من الحد یث الا زیا دۃ ابن اسحق ومن اشد الجہل زعم ان ذکرہ ما لم یذ کر و ا مخا لفۃ لھم وا لا لاضطر بت الاحا دیث عن اخر ھا الا افر ادا  عد ید ۃ فما من حدیث اتی بطر یقین او اکثر الا و فی بعضھا ما لیس فی الا خر ،الانا درا ،ولا عبر ۃ با لنا در،ھذا وجہ ۔
نفحہ ۵: اما م زہر ی کے اکثر شا گر دو ں نے حد یث میں ''علی با ب المسجد ''اور ''بین ید یہ ''کا ذکر نہیں کیا ہے ان دونو ں ٹکڑو ں کا ذکر صر ف ابن اسحق نے کیا ہے جو ایک ثقہ روا ی کا اضا فہ ہے اور اس کا قبو ل کر نا وا جب ہے تو یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ''بین ید یہ ''کو تسلیم کیا جا ئے اور ''علی با ب المسجد ''کو تر ک کر دیا جا ئے اور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ابن اسحق کے اس اضا فہ کو اس وجہ سے تر ک کیا جا ئے کہ صر ف ابن اسحا ق اس کے را و ی ہیں اورو ں نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے اور اسی بنا پر اس اضا فہ کو ان کی ثقہ راویو ں کی مخا لفت قرا ر دیا جا ئے اور حد یث کو مضطرب قرار دیا جا ئے اگر یہ ظلم روا رکھا جا ئے تو چند معد و د اور مختصر روا یتیں ہی اضطر ا ب سے محفو ظ رہیں گی کیو نکہ کو ن حد یث ہے جو دو یا دو سے ز ائد طر یقو ں سے مر و ی نہیں اور ہر طر یقہ روا یت کے متن میں کچھ ایسا حصہ بھی ضر و رہے جو دو سر ے میں نہیں شا ید ہی ایسا ہو گا کہ دونوں روایتوں کے الفاظ بالکلیہ یکساں اور  برا بر ہو ں اور نا در  کاکیا اعتبا ر۔
وثانیا کثیر ا ما تر ی الا ئمہ المحد ثین یجمعو ن الطر ق فیقو ل احد ھم حد ثنا فلا ن ،و فلا ن عن فلا ن یزید بعضھم علی بعض ثم یسو ق الحد یث سیا قا واحد ا افترا ھم یجمعو ن بین الضب و النو ن۔
ثانیا اکثر دیکھا گیا ہے کہ ائمہ محد یثین چند سند و ں کو ایک سا تھ جمع کر تے ہیں مثلا وہ کہتے ہیں فلا ں فلا ں اور فلا ں نےفلا ں سے روا یت کی جس میں بعض نے بعض سے زا ئد بیا ن کیا اور پھر پو ری حد یث ایک ہی سیا ق میں بیا ن کر تے ہیں تو کیا وہ لو گ مچھلی اور گو ہ دو نو ں کو ایک سا تھ ہی ملا دیتے ہیں ۔
و ثا لثا مفسر و ا لقرا ن العظیم من الصحا بۃ وا لتا بعین وھلم جرا کلما فسر وا و اقعۃ ذکر ت فی القر ا ن المجید زا دوا ا شیا ء لیست فی القر ا ن العظیم فا ذن کلھم یخا لفو ن القرا ن الکر یم حا شم ھم۔
ثالثا قرآن عظیم کے مفسر و ں میں ،صحابہ ہو ں یا تا بعین (بعد کے لو گو ں کا بھی یہی حا ل ہے)کہ کسی ایسے وا قعہ کی تفسیر کر تے ہیں جو قرآن عظیم میں مذکو ر ہے تو اس وا قعہ میں کچھ ایسا اضا فہ بھی کر تے ہیں جو قرآن عظیم میں نہیں ہے ،تو کیا سب کے سب نے قر آن عظیم کی مخا لفت کی پنا ہ بخد ا !-
 را بعاً فی الصحیحین عن ابی ھر یر ۃ رضی اللہ تعا لی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الا احد ثکم حدیثا عن الد جا ل ما حد ث بہ نبی قو مہ انہ اعو ر الحد یث فا ذن یکون صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم و العیا ذبا للہ تعا لی قد خا لف جمیع الانبیا ء علیہھم الصلا ۃ والسلا م فی بیا ن واقعۃ وھذا لا یتفو ہ بہ مسلم ۔
را بعا صحیحین میں حضر ت ابو ہر یر ہ رضی اللہ تعا لی عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روا یت کرتے ہیں ''میں تم سے دجا ل کے با رے میں وہ با ت نہ بیا ن کر و ں جو کسی نبی نے اپنی قو م سے بیا ن نہ کیا ''تو پیغمبر خدا صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم نے اور انبیا ء سے زا ئد بتا کر ان سب انبیا کی مخا لفت کی کو ن مسلم یہ کہے گا ؟
 (۱؎صحیح البخا ری     کتا ب الا نبیا ء     با ب قو ل اللہ و لقد ا رسلنا نو حا الی قو مہ   قد یمی کتب خا نہ کر ا چی     ۱/ ۴۷۰)

(صحیح مسلم         کتا ب الفتن     با ب ذکر الد جا ل      قد یمی کتب خا نہ کر ا چی     ۲/ ۴۰۰)
و خامسا السو ر القرا نیۃ تذکر قصۃ مو سی و غیر ھا یز ید بعضھا علی بعض و حا شا القرا ن ان یتخا لف
خامسا قرا ن شر یف میں حضر ت مو سی وغیر ہ انبیا ء کر ا م علیہم السلا م کے قصے مختلف جگہ بیا ن کئے گئے ہیں کہیں کم کہیں کچھ زیا د ہ تو کیا قر آن شر یف نے اپنے بیا ن کی خو د مخا لفت کی ؟
نفحہ ۶: ما اجھل من زعم ان الحد یث متنا قض بنفسہ فا ن قو لہ بین ید ی رسو ل اللہ تعا لی علیہ وسلم یعا ر ض قو لہ علی با ب المسجد فلو کا ن علی البا ب کیف یکو ن بین ید یہ و ھذا فھم لا یتصو ر الا من وھم اذا جلست علی المنبر فتجا ہ وجھک با ب فالقائم علیہ ھل یکو ن بین ید یک ام خلفک و الصفو ف الجلو س بینکما لا تحجبہ عن نظر ک الا تری ان اللہ تعا لی سمی السما ء بین اید ینا اذقا ل و قو لہ الحق
افلم یر و ا الی ما بین اید یھم وما خلفھم من السما ء والا رض ۱؎
وکم من جبا ل بینھما و بیننا و سیا تیک زیا د ۃ وا فیۃ فی تحقیق معنی ''بین ید یہ ''ان شاء اللہ تعا لی ۔
نفحہ ۶: وہ شخص بھی کیا خو ب جا ہل ہے جو یہ کہتا ہے کہ سا ئب بن یزید رضی اللہ تعا لی عنہ کی حد یث خو د ہی متنا قض ہے اس لیے کہ حدیث کے الفاظ خطیب کے سامنے اور مسجد کے دروازہ پر میں تناقض ہے ۔ تواگر با ب مسجد پر ہو گی تو خطیب کے سامنے کیسے ہو گی ؟ یہ شبہہ سر ا سر وہم کی پید ا وا ر ہے کیو نکہ جب تم منبر پر بیٹھو اور تمھا رے منہ کے سا منے مسجد کا دروازہ ہو تو دروا زے پر کھڑا ہو نیو الاکیو ں تمہا رے سا منے نہ ہو گا؟ کیا اس کو تمہا رے پیچھے کھڑا ہو نیو ا لا کہا جا ئیگا ؟شا ید یہ سو چتے ہو ں گے کہ اس صور ت میں اما م اور مؤ ذن کے بیچ میں صفیں حا ئل ہیں پھر سا منے کیسے ہوا ! صفیں بیچ میں ضرو ر ہیں لیکن وہ مؤ ذن اور اما م میں حا ئل نہیں ہیں اللہ تعا لی نے قر آن عظیم میں ارشا د فر ما یا ''کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسما ن و زمین تمھا رے آگے پیچھے ہیں ''حا لا نکہ کتنے پہا ڑ اس کے اور ہما رے درمیا ن میں حا ئل ہیں ۔''بین ید یہ ''کی زیا دہ تفصیل آگے آرہی ہے ان شا ء اللہ تعا لی ۔
 (۱؎القرا ن الکر یم ۳۴/ ۹)
نفحہ ۷: اذا بطل زعمۃ التنا قض انتقض ما بنی علیہ من وجو ب تا ویل الحد یث فا ن الشجر ۃ تنبئی عن الثمر ۃ و لکن ان تعجب فعجب قو لہ و ان المر ا د با لباب البا ب الذی کا ن فی جدا ر القبلۃ قبل تحو یلھا الی الکعبۃ المشر فۃ فیا للانصاف با ب کا ن و با ن و صا ر جدا را  وا لبا ب الحقیقی مو جو د الا ن فا ذا ذکر با ب المسجد ھل یذھب ذھن ا حد الی ان ا لقا ئل لم یرد البا ب بل الجد ا ر فمثل ھذا یکو ن تحو یلا و تعطیلا و تبد یلا  لا  تا ویلا و لا سیما والحا کی لھذا اعنی سید السا ئب بن یزید رضی اللہ تعا لی عنہ لم یشا ھد ذلک البا ب الکا ئن البا ئن قط ۔

فا نہ کا ن ابن سبع عند و فا ۃ المصطفی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم فو لادتہ سنۃ ثلا ث او اربع من الھجر ۃ الشر یفۃ  و تحویل القبلۃ فی السنۃ الثانیۃ فھو یحکی ما شا ھد ہ فکیف یر ید با با لم یشا ھدہ ثم انک تحتا ج فیہ الی مجا ز فی مجا ز فان ذلک البا ب کا ن فی الجد ار القبلی و المنبر دو نہ بینھما ممر شا ۃ و المؤ ذن دون المنبر فکیف یکو ن حقیقۃ علی البا ب افتر ی انہ کا ن یؤ ذن متقد ما الی جدا ر القبلۃ مستد برا للنبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم او متو جھا الی ظہر ہ الشر یف متد بر اللقبلۃ بل لو فر ض ھذا لم یکن ایضا حقیقۃ علی البا ب المفقو د ای محلہ المو جو د لا نہ الا ن مسدو د ۔
نفحہ ۷: اور جب'' بین ید یہ ''او ر ''علی البا ب''کا تنا قض ختم ہو گیا تو اس پر حدیث کی جو تاویل مبنی تھی وہ بھی ختم ہوگئی کہ در خت بیج کے بغیر نہیں اگ سکتا لیکن اس تا ویل میں حیر تنا ک با ت یہ ہے کہ مؤ و ل کے نزدیک سا ئب بن یزید رضی اللہ تعا لی عنہ کی حد یث میں دروا زہ سے مرا د وہ دروا زہ ہے جو دیو ا ر قبلہ میں منبر کی پشت پر تھا تو خطیب کے سا منے منبر کے با لکل متصل کھڑے ہو نے و ا لے مؤ ذن کو مسجد کے دروا زہ پر کہہ دیا اگر چہ مؤذن اور دروا زہ کے بیچ میں خو د خطیب اور منبر حا ئل تھا مگر کھڑے ہو نے وا لے مؤ ذن کے سا منے ہی در وا زہ تھا ۔

یاللعجب ! مؤ و ل جس دروا زہ کی با ت کر رہا ہے وہ اب نہیں ہے اسے بند کر کے اب دیو ارکر دیا گیاہے وہ تو مراد ہوسکتا ہے  اور حقیقی دروازہ جو فی الو قت مو جو د ہے اور خطیب کے سا منے ہے وہ مر ا د نہیں ہو سکتا کیا ایسی صو رت میں کو ئی با ب ا لمسجد کہے تو کسی کا ذہن اس باب  کی طر ف منتقل ہو سکتا ہے کہ اس سے مرا د مو جو د اور مشا ہد دروا زہ مو جو د نہیں بلکہ یہ دیو ا ر مر ا د ہے اس کو تا ویل نہیں کہتے یہ تو تحو یل ہے تعطیل ہے اور تبد یل ہے خصو صا اس صو ر ت میں کہ سا ئب ابن یز ید رضی اللہ تعا لی عنہ نے اس بند شد ہ دروا زہ کو دیکھا بھی نہیں اس لیے کہ وہ حضو ر صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کے وصا ل کے وقت سا ت سا ل کے تھے اس حسا ب سے ان کی ولا دت ۳ھجر ی میں ہوئی جب کہ تحویل قبلہ کاواقعہ ۲ ھ کا ہے تو جب وہ اپنے مشا ہد ہ کی با ت کر ر ہے ہیں تو یہ کیسے سو چا جا سکتا ہے کہ وہ اس ان دیکھے دروا زہ کی گو ا ہی دیں گے پھر اس تا ویل میں مجا ز در مجا ز ماننا پڑے گا کیونکہ یہ دروازہ قبلہ کی دیو ا ر میں تھا اور اسی کے پا س منبر تھا اس دروا زہ اورمنبر کے درمیان بکری کے گزرنے بھر جگہ تھی اور منبر کے پاس مؤ ذن کھڑا ہو تا تھا ایسی صو ر ت میں مؤ ذن حقیقی معنی میں دروا زہ پرکس طرح کھڑا ہوسکتاہے کیونکہ حقیقی معنی میں دروازہ پر  ماننے کی صو ر ت تو یہ ہو گی مؤ ذن منبر سے آگے بڑھ کر قبلہ کی دیوار کے اند ر وا لے دروا زہ پر کھڑا ہو کر حضو ر کی پشت اقد س کے پیچھے قبلہ کی طر ف پشت اور آپ کے پشت کی طر ف رخ کر ے بلکہ سچ پو چھو تو یہ اذان بھی دروا زہ پر نہ ہو گی کہ دروا زہ تو بند ہو کر اس جگہ دیو ا ر بنا دی گئی تھی۔
نفحہ ۸: اراد ۃ البا ب الشما لی المو جو د اذ ذا ک و تا و یل علی با لمحا ذ ات ای کا ن یقو م المؤذن متصلا با لمنبر بین یدی النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم لکو نہ ا ذذا ک علی محا ذا ت البا ب الشما لی قیل لہ علی با ب المسجد کلا م مفسو ل مزد و ل ۔
نفحہ ۸: اور دروا زہ سے مسجد کا با ب شما لی مراد لینا جو منبر کے سا منے واقع تھا اور ''علی با ب المسجد ''کے علی کو محا ذا ت پر محمو ل کر نا اور مطلب یہ بتا نا کہ مؤ ذن تو منبر سے متصل ہی کھڑا ہو تا تھا لیکن لفظ ''علی با ب المسجد ''سے اس کی تعبیر اس لیے کی گئی کہ دروا زہ منبر کے سا منے تھا مؤ ذن اور دروا زہ میں آمنا سا منا تھا یہ بے وزن اور حقیر کلا م ہے ۔
فاولاً تجو ز بعید من دو ن قر ینۃ و ا لتکلم بمثلہ تغلیط للسا مع و تلبیس للسنۃ فلا یظن با لصحا بی۔
اولاً بلا قر ینہ معنی بعید مر ا د لینا اور ایسا کلا م بو لنا سامع کو غلط فہمی میں ڈالنا اور تلبیس سنت ہے صحا بی رسول صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم ایسی حر کت نہیں کر سکتے ۔
ثانیا فیہ تضییع قو لہ علی با ب المسجد لا ن البا ب لما کا ن محا ذیا للاما م فا لقا ئم بین ید ی الا ما م قا ئم علی محا ذا ۃ البا ب قطعا اینما کا ن فذکر ہ بعد ذکر ہ لیس فیہ تخصیص ولا تو ضیح ولا افا د ۃ شیئ مقصو د  اذلم یکن القصد شر عا الا الی مو اجھۃ الا ما م لا الی محا ذا ۃ البا ب فبقی لغو ا عبثا لا طا ئل تحتہ ۔
ثانیا اس تا ویل کی رو سے ''علی با ب المسجد ''کا لفظ بے سو د ہے کیو نکہ دروا زہ جب اما م کے سا منے ہے تو جو امام کے سا منے کھڑا ہے وہ دروازہ کے  سامنے بھی کھڑا ہے تولفظ ''بین ید یہ ''کے ذکر کے بعد لفظ ''علی با ب المسجد ''نہ تو اس پہلے معنی کی تو ضیح ہو ئی نہ تخصیص اور نہ ہی اس لفظ سے کسی معنی کا افا دہ مقصو د کیونکہ بقو ل مؤ ول مقصد تو اما م کے سا منے کھڑا ہو نا ہے دروا زہ پر کھڑا ہو نا نہیں ایسی صو ر ت میں لفظ علی با ب المسجد لغو اور بیکا ر ہو ا جس سے کو ئی فا ئد ہ حا صل نہیں ۔
وثالثا ان من اخنع الاباطیل ما یقضی وجو دہ علیہ با لر حیل و ذلک ان التا و یل انما یحتا ج الیہ اذا لم یستقم المعنی الظاہر و انما احلت الظا ہر ۃ لمنا فا تہ بز عمک قو لہ بین ید یہ الا لمحا ذا ۃ بلا حا ئل کما اعتر فہ بہ ابن اخت خا لتک فالذی قا م لصیق الا ما م اذا کا ن علی محا ذا ۃالبا ب کما اعتر ف الا ن ،کیف لا یکو ن الذی علی البا ب محا ذیا للا ما م ولا حا ئل ثمہ یحجبہ من النظر فصد ق بین ید یہ فتاویلک با طل با ستقا مۃ المعنی الظا ہر ،وا ستقامتہ نقتضی لبطلا ن التا و یل فکا ن و جو د حا کم بعد مہ و ھذا ھو ا شنع الا با طیل ۔
ثالثا اولاً یہ تا ویل خو د اپنے وجو د کے ابطا ل کی دلیل ہے کیو نکہ تا ویل کی ضر و ر ت تب ہو تی ہے کہ کلا م کے معنی ظا ہر در ست نہ ہو ں اور مخا لف نے علی با ب المسجد کو محا ذا ت پر اس لیے محمو ل کیا کہ اس کے نزدیک بین ید یہ اور علی با ب المسجد میں تضا د تھا اور بین ید یہ کے معنی محا ذا ت بلا حا ئل ہیں جیسا کہ تمہا ری خا لہ کے ابن اخت نے اس کا اعترا ف کیا اور اب تمھاری تاویل سے جب اما م کے پا س کھڑا ہو نے وا لا دروا زہ کے سا منے اور محا ذی ہے تو دروا زہ پر کھڑا ہو نیوالا اما م کے محا زی و مقا بل کیو ں نہ ہو گا جب کہ دو نو ں کے درمیا ن 

حا ئل نہیں تو جب آپ کی یہ تا ویل علی البا ب کے معنی تو جب آپ کی یہ تا ویل علی البا ب کے معنی ظا ہر کی تائید کر تی ہے تو اس تا ویل کی کیا ضر و رت ہے اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ آپ کی تا ویل اپنی تخر یب کا سا ما ن اپنے سا تھ ہی لا ئی ہے اور یہ بد تر ین با ت ہے ۔
Flag Counter