وفی رسا لۃ الی اھل مکۃ ما کا ن فیہ حد یث منکر نبینہ بما انہ منکر ۱؎
ابو داود نے اہل مکہ کو ایک خط لکھا ''اس کتا ب میں اگر کو ئی منکر حد یث ذکر کر و ں گا تو اس کا سبب بھی بیا ن کر و ں گا کہ کیو نکر منکر ہے ''
(۱؎ مقد مہ سنن ابی داود مع سنن ابی داود آفتا ب عا لم پر یس لا ہو ر ۱/ ۴)
(فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الاما م الطبر ی بیر و ت ۱/ ۸۸و۹۸)
وقا ل ابو عمر بن عبد البر کل ما سکت علیہ فھو صحیح عندہ ۲؎
ابو عمر بن عبد البر نے کہا ''جس حد یث کو ذکر کرکے ابوداؤد نے سکوت کیا ، تو وہ ان کے نزدیک صحیح ہے ۔
(۲؎ فتح المغیث القسم الثا نی الحسن دا ر الاما م الطبر ی بیر و ت ۱/ ۹۱)
وقال المنذری : کل حد یث عز و تہ الی ابی داود و سکت عنہ فھو کما ذکر ابو داود ولاینز ل عن در جہ الحسن وقدیکون علی شرط الصحیحین۳؎
اما م منذری نے فرمایا ''جس حد یث کی نسبت ابو د اود کی طر ف کر وں اور ابو داود نے اس پر سکو ت کیا ہو تو وہ ابو داود کے قو ل کے مطا بق ہے یعنی درجہ حسن سے تو کم نہ ہو گی بسا اوقا ت صحیحین کے اصو ل پر ہو تی ہے ''
(۳؎ التر غیب التر ہیب مقد مۃ الکتا ب دا راحیا ء التر ا ث العر بی بیر و ت ۱/ ۱۱)
وقا ل ابن الصلا ح ثم الا ما م النو و ی فی التقر یب ما وجد نا فی کتا بہ مطلقا فھو حسن عند ابی داود ۴؎
ابن صلا ح اور نو و ی دو نو ں امامو ں نے فر ما یا ''اما م دا و د کی کتا ب میں جو حد یث مطلق مر و ی ہو وہ ان کے نزدیک حسن ہے ۔''
(۴؎تقر یب النو وی مع تد ر یب الر اوی النو ع الثا نی قد یمی کتب خا نہ کر ا چی ۱/ ۱۳۴)
وقا ل العلا مۃ ابن التر کما نی فی الجو ہر النقی اخر جہ ابو دا ود و سکت عنہ فا قل احو الہ ان یکو ن حسنا عند ہ علی ما عر ف ۵؎
اما م تر کما نی جو ہر النقی میں فر ما تے ہیں ''ابو داود نے جس حد یث کی تخر یج فر ما کر سکو ت کیا اور اس پر کو ئی جرح نہیں کی تو اس حد یث کا کم سے کم در جہ حسن کا ہو گا جیسا کہ یہ بات مشہو ر و معر و ف ہے ۔''
(۵؎الجو ہر النقی علی ھا مش السنن الکبر ی کتا ب الد عو ی و البینا ت حید ر آبا د دکن ۱۰/ ۲۷۱)
وقا ل الزیلعی فی نصب الر ا یۃ ان ابا داود روی حد یث القلتین و سکت عنہ فھو صحیح عند ہ علی عا د تہ فی ذلک ۱؎
نصب الر ا یہ میں اما م زیلعی فر ما تے ہیں'' ابو دا ود نے حد یث قلتین رو ا یت کیا اور اس پر سکو ت فرما یا یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ یہ حد یث ان کے نز دیک صحیح ہے ''
(۱؎نصب الر ایہ کتاب الطہا رۃ با ب الما ء الذی یجو ز بہ الو ضو ء الخ نو ریہ رضویہ پبلیکیشنز لا ہو ر ۱/ ۱۶۳)
وقا ل الحا فظ العر اقی ثم الشمس السخا وی فی المقا صد الحسنۃ یکفینا سکو ت ابی داود علیہ فھو حسن۲؎
حضر ت عر ا قی اور شمس الد ین سخا وی نے ''مقا صد حسنہ'' میں فر ما یا ''اس حد یث پر ابو دا ود کا سکو ت ہی ہمارے لیے کا فی ہے اور یہ حدیث حسن ہے ۔''
(۲؎المقا صد الحسنہ تحت حد یث ۳۸۱ دا ر الکتا ب العر بی بیر وت ص۲۱۶)
وقا ل المحقق علی الا طلا ق فی فتح القد یر سکت ابو دا ؤ د فھو حجۃ ۳؎
محقق علی الاطلا ق فتح القد یر میں لکھتے ہیں ''ابو داؤ د نے اس حد یث پر سکو ت کیا تو یہ حد یث حجت ہے ''
(۳؎فتح القد یر کتا ب الطہا ر ۃ مکتبہ نو ریہ رضو یہ سکھر ۱/ ۱۵)
وقا ل العلا مۃ محمد بن امیر الحا ج روا ہ ابو داود وسکت علیہ فیکو ن حجۃ علی ما ھو مقتضی شر طہ ۴؎
علا مہ محمد ابن امیر الحا ج فر ما تے ہیں ''ابو داود نے اس پر سکو ت کیا تو یہ ان کی شر ط کے موا فق حجت ہے ''
(۴؎حلیۃ المحلی شر ح منیۃ المصلی )
وقا ل العلا مۃ ابر ہیم الحلبی فی الغنیۃ سکت علیہ ابو داو د المنذری بعد ہ فی مختصرہ وھو تصحیح منھما ۵؎، اھ
علا مہ ابر ا ہیم حلبی نے غنیہ میں فر ما یا ابو داو د اور ان کے بعد اما م منذ ری نے اپنی مختصر میں اس پر سکو ت فرما یا تو یہ ان دو نو ں کی طر ف سے اس حد یث کی تصحیح ہے ۔
(۵؎غنیہ المستملی شر ح منیۃ المصلی فصل فی النو ا فل سہیل اکیڈمی لا ہو ر ص۳۸۶ )
وقا ل الخطا بی فی معا لم السنن کتا ب ابی داؤد جا مع لھذ ین النو عین من الحد یث و الحسن اماالسقیم فعلی طبقا ت شر ھا المو ضوع ثم المقلو ب ثم المجھو ل ،و کتا ب ابی داود خلی منھا بر ی من جملۃ وجو ھھا ۱ ؎
علا مہ خطا بی نے معالم السنن میں تحر یر کیا ''ابو دا ود کی کتا ب صحیح اور حسن دو نو ں قسم کی احا دیث پر مشتمل ہے اور حد یث سقیم کی تو کئی قسمیں ہیں سب سے بے حیثیت مو ضو ع پھر مقلو ب پھر مجہو ل اور ابو داود کی کتا ب سقیم کی تما م قسمو ں سے خا لی اور بر ی ہے ۔''
(۱؎معا لم السنن مع مختصر سنن ابی داود للمنذری مقدمہ الکتا ب المکتبہ الا ثر یۃ سا نگلہ ۱/ ۱۱)
وقا ل الا ما م بخا ری فی جز ء القر ۃ قا ل علی بن عبد اللہ نظر ت فی کتا ب ابن اسحق فما وجد ت علیہ الا فی حد یثین و یمکن ان یکو ن صحیحین ۲؎، اھ
اما م بخا ری نے اپنی اکتا ب''جز ء القرۃ ''میں لکھا علی ابن عبد اللہ نے کہا کہ میں نے ابن سحق کی کتا بیں دیکھیں تو سوا ئے دو حدیثوں کے اور کسی میں کو ئی عیب نہیں پا یا اور ممکن ہے کہ وہ دو نو ں بھی صحیح ہو ں،''
(۲؎جزء القر اءۃ خلف الا ما م للبخا ر ی با ب لادلیل علی ان القر ا ن رکن فی الصلو ۃ ۱/ ۶۰)
و بیّنھما القسوی عن علی لیس حد یثنا ھذا بحمد اللہ تعا لی منھما احد ھما عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم اذا نعس احد کم یو م الجمعۃ ۳؎ وا لا خر عن زید بن خا لد اذا مس احد کم فر جہ فلیتو ضأ ۴؎
ان دو نو ں حد یثو ں کو قسو ی نے حضر ت علی بن عبد اللہ سے روا یت کیا ۔بحمد اللہ ہما ری ذکر کر دہ حد یث ان میں نہیں ہے دو نو ں میں سے ایک حد یث ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہ نے حضو ر سے روا یت کی کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے روز او نگھے اور دوسر ی حد یث زید بن خا لد سے کہ تم میں سے کو ئی جب اپنی شر مگا ہ کو چھو ئے تو وضو کر ے ۔
(۳؎جا مع التر مذی ابو ا ب الجمعۃ با ب فی من ینعس یو م الجمعۃ امین کمپنی دہلی ۱/ ۶۹)
(۴؎مو ار د الظما ن کتا ب الطہا رۃ با ب ما جا فی مس الفر ج حدیث ۲۱۴ المطبعۃ السلفیہ ص۷۸)
و علی ھذا ھو ابن المد ینی شیخ البخا ر ی الذی کا ن یقو ل فیہ البخا ری ما استصغر ت نفسی الا عند ہ۱؎ فثبت بحمد اللہ تعا لی ان ابن اسحق ثقۃ و ان الحد یث حسن صحیح ۔
یہ علی ابن المد ینی اس پا ئے کے محد ث ہیں کہ ان کے شا گر د اما م بخا ری کہتے ہیں کہ سوا ئے علی بن المد ینی کے اور کسی کے سا منے میں نے اپنے کو چھو ٹا نہیں محسو س کیا تو مذکو رہ با لا تفصیلا ت سے بحمد اللہ ثا بت ہو گیا کہ محمد بن اسحق ثقہ ہیں اور اذا ن خطبہ کے با رے میں ان کی بیا ن کر دہ حد یث صحیح ہے۔
(۱؎ میز ان الاعتدال ترجمہ علی بن عبد اللہ ۵۸۷۴ دا را لمعر فۃ بیر و ت ۳/ ۱۴۰)