Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۷(کتاب الشتّٰی )
7 - 212
بارہا حدیث صحیح ہوتی ہے اور امام مجتہد اُس پر عمل نہیں فرماتا خواہ یوں کہ اس کے نزدیک یہ حدیث نامتواتر نسخ کتاب اللہ چاہتی ہے یا حدیث احاد زیادت علی الکتاب کررہی ہے۔ یا حدیث موضوع تکرروقوع وعموم بلوی یا کثرت مشاہدین و توفردواعی میں احاد آئی ہے یا اس پر عمل میں تکرار نسخ لازم آتی ہے۔ یا دوسری حدیث صحیح اس کی معارض اور وجوہ کثیرہ ترجیح میں کسی وجہ سے اس پر ترجیح رکھتی ہے۔ یا وہ بحکم جمع وتطبیق و توفیق بین الادلہ ظاہر سے مصروف و موؤل ٹھیری ہے، یا بحالتِ تساوی وعدم امکان جمع مقبول وجہل تاریخ بعد تساقط ادلہ نازلہ یا موافقت اصل کی طرف رجوع ہوئی ہے۔ یا عمل علماء اس کے خلاف پر ماضی ہے۔ یا مثل مخابرہ تعامل امت نے راہ خلافت دی ہے۔ یا حدیث مفسر کی صحابی راوی نے مخالفت کی ہے۔ یا علت حکم مثل سہم مؤلفۃ القلوب وغیرہ اب منتفی ہے۔ یا مثل حدیث
لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اﷲ
 (۳؎صحیح البخاری کتاب الجمعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۲۳ وصحیح مسلم کتاب الصلوۃ ۱/ ۱۸۳ )
 (اللہ کی بندیوں کو مسجدوں سے مت روکو۔ ت ) مبنائے حکم حال عصر یا عرف مصر تھا، کہ یہاں یا اب منقطع و منتہی ہے، یا مثل حدیث شبہات اب اس پر عمل ضیق شدید و حرج فی الدین کی طرف داعی ہے۔ یا مثل حدیث تغریب عام اب فتنہ و فساد ناشی ہے، یا مثل حدیث ضجعہ فجر و جلسہ استراحت منشاء کوئی امر عادی یا عارضی ہے۔یا مثل جہربآیۃ فی الظہراحیاناً وجہر فاروق بدعائے قنوت حامل کوئی حاجت خاصہ نہ تشریع دائمی ہے۔ یا مثل حدیث
علیک السلام تحیۃ الموتٰی (علیک السلام) ۔۱؂
مردوں کا سلام ہے۔ت) مقصود مجرد اخبار نہ حکم شرعی ہے۔
 ( ۱ ؎ المصنف  لعبدالرزاق باب کیف السلام والرد حدیث ۱۹۴۳۴  المجلس العلمی بیروت ۱۰/ ۳۸۴ )
الٰی غیر ذلک من الوجوہ التی یعرفھا النبیہ ولا یبلغ حقیقۃ کنھھا الاالمجتھد الفقیہ۔
اس کے علاوہ دیگر وجوہ جن کو باخبر لوگ پہچانتے ہیں، اور سوائے مجتہد عالم کے ان کی حقیقت تک کسی کی رسائی نہیں۔(ت)
تو مجردصحت مصطلحہ اثر صحت عمل مجتہد کے لیے ہر گز کافی نہیں۔ حضراتِ عالیہ صحابہ کرام سے لے کر پچھلے ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین تک کوئی مجتہد ایسا نہیں جس نے بعض احادیث صحیہ کو مؤول یا مرجوح یا کسی نہ کسی وجہ سے متروک العمل نہ ٹھہرایا ہو۔
امیر المومنین عمر فارق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث عمار رضی اللہ تعالٰی عنہ دوبارہ تیمم جنب پر عمل نہ کیا۔ اور فرمایا۔
اِتق اﷲ یا عمار کما فی صحیح مسلم ۔۲؂
اے عمار ! اللہ سے ڈر، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔(ت)
 ( ۲ ؎  صحیح مسلم کتاب الحیض باب التمیم   قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۶۱ )
یونہی حدیث فاطمہ بن قیس دربارہ عدم النفقہ والسکنی للمبتوتہ پر۔ اور فرمایا:
  لانترک کتاب ربنا ولا سنۃ نبینا بقول امرأۃ لاندری لعلھا حفظت ام نسیت رواہ مسلم ایضا،۔۳؂
ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک ایسی عورت کے قول سے نہیں چھوڑیں گے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ اس نے یاد رکھا ،یا بھول گئی، اس کو بھی مسلم نے روایت کیا(ت)
 ( ۳ ؎  صحیح مسلم  کتاب الطلاق باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لہا  قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۸۵)
یوں ہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث مذکور تیمم پر اور حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا:
  اولم تر عمر لم یقنع بقول عمارکما فی الصحیحین ۔۱؂
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قول پر قناعت نہیں کی، جیسا کہ صحیحین میں ہے۔(ت)
 ( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب التیمم باب اذاخاف الجنب علی نفسہ المرضی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۰ )

(صحیح مسلم   کتاب الحیض   باب التیمم   قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۶۱ )
یونہی حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حدیث مذکور فاطمہ پر اور فرمایا:
  مالفاطمۃ الا تتقی اﷲ، رواہ البخاری ۔۲؂
فاطمہ کو کیا ہے، کیا وہ اللہ تعالٰی سے نہیں ڈرتی۔ اس کو بخاری نے روایت کیا۔(ت)
 ( ۲ ؎  صحیح البخاری   کتاب الطلاق   باب قصۃ فاطمہ بنت قیس قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۸۰۲ )
یونہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ :
الوضوء مما مست النار ۔۳؂
اس چیز کی وجہ سے وضو لازم ہے کہ جس کو آگ نے چھُوا ۔ت) پر اور فرمایا:
انتوضّاء من الدھن انتوضاء من الحمیم رواہ الترمذی ۔۴؂
کیا ہم تیل کی وجہ سے وضو کریں گے، کیا ہم گرم پانی کی وجہ سے وضو کریں گے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔(ت)
 ( ۳ ؎  جامع الترمذی   ابواب الطہارۃ   باب الوضوء مما غیرت النار  امین کمپنی دہلی   ۱/ ۱۲ )

( ۴ ؎  جامع الترمذی   ابواب الطہارۃ   باب الوضوء مما غیرت النار  امین کمپنی دہلی   ۱/ ۱۲ )
یونہی حضرت امیر معاوضہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا :
  انہ لانستلم ھذین الرکنین ۔۵؂
ہم ان دو رکنوں کو بوسہ نہیں دیتے۔(ت)
پر اور فرمایا : لیس شیئ من البیت مھجوراکما فی البخاری۔ ۶ ؎
بیت اللہ شریف میں سے کچھ بھی چھوڑنے کے لائق نہیں ۔جیسا کہ بخاری میں ہے ۔(ت)
 ( ۵ ؎ صحیح البخاری کتاب المناسک باب من لم یستلم الاالرکنین والیمانیین   قدیمی کتب خانہ ۱/ ۲۱۸)  ( ۶ ؎ صحیح البخاری کتاب المناسک باب من لم یستلم الاالرکنین والیمانیین   قدیمی کتب خانہ ۱/ ۲۱۸)
یوں ہی جماہیرا ئمہ صحابہ و تابعین ومن بعد ہم نے
حدیث الوضوء من لحوم الابل ۔۱؂
 (اونٹوں کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو ہے۔ت) پر:  وھوصحیح معروف من حدیث البراء وجابر بن سمرۃ وغیرھما رضی اللہ تعالٰی عنھم ۔
اور یہ حدیث حضرت براء اور جابر بن سمرۃ اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے صحیح ومعروف مروی ہے۔(ت)

امام دارالہجرۃ عالمِ مدینہ سیدنا مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے:
   العمل اثبت من الاحادیث ۔۲؎
عمل علماء حدیثوں سے زیادہ مستحکم ہے۔
 ( ۱؎  جامع الترمذی   ابواب الطہارۃ   باب الوضوء من لحوم  الابل  امین کمپنی دہلی   ۱/ ۱۲ )

(سنن ابو داؤد   کتا ب الطھارت   باب الوضوء من لحوم  الابل  آفتاب عالم پریس لاہور  ۱/۲۴ )

(سنن ابن ماجہ   ابواب الطھارت   وسننھا باب ماجاء فی الوضوء من لحوم  الابل  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۸)

(مسند احمد بن حنبل عن براء بن عازب المکتب الاسلامی بیروت  ۴/ ۲۸۸)

( ۲ ؎ المدخل لابن الحاج  بحوالہ مالک  فصل فی ذکرالنعوت دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۱۲۲)
ان کے اتباع نے فرمایا:
انہ لضعیف ان یقال فی مثل ذلک حدثنی فلان عن فلان ۔۳؂
ایسی جگہ حدیث سنانا پوچ بات ہے۔
 ( ۳ ؎ المدخل لابن الحاج   فصل فی ذکر الصلوۃ علی المیت فی المسجد دارالکتاب العربی بیروت       ۲/ ۲۸۹)
ایک جماعت ائمہ تابعین کو جب دوسروں سے ان کے خلاف حدیثیں پہنچتیں، فرماتے :
   مانجھل ھذا ولکن مضی العمل علٰی غیرہ ۔۴؂
ہمیں ان حدیثوں کی خبر ہے مگر عمل اس کے خلاف پر گزر چکا ۔
امام محمد بن ابی بکر بن جریر سے بار ہا ان کے بھائی کہتے تم نے فلاں حدیث پر کیوں نہ حکم کیا ؟فرماتے:
لم اجد الناس علیہ ۔۵؂
میں نے علماء کو اس پر عمل کرتے نہ پایا۔
بخاری و مسلم کے استاذ الاستاذ امام المحدثین عبدالرحمن بن مہدی فرماتے :
السنۃ المتقدمۃ من سنۃ اھل المدینۃ خیرمن الحدیث ۔ ۶ ؎ ۔
اہل مدینہ کی پرانی سنت حدیث سے بہتر ہے ۔
 (۴ تا۶ ؎ المدخل لابن الحاج   فصل فی ذکر الصلوۃ علی المیت فی المسجد دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۲۸۹)
نقل ھذا الاقوال الخمسۃ الامام ابوعبداللہ محمد بن الحاج العبدری المکی المالکی فی مدخلہ فی فصل النعوت المحدثۃ ، وفیہ فی فصل فی الصلوۃ علی المیت فی المسجد ماورد "من ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صلی علی سہیل بن بیضاء فی المسجد " فلم یصحبہ العمل والعمل عند مالک رحمہ اﷲ اقوی الخ ۔۱؂
ان پانچوں اقوال کو امام ابوعبداللہ محمد بن الحاج العبدری مکی مالکی نے اپنی کتاب المدخل کی فصل فی النعوت المحدثۃ میں نقل فرمایا ، اور اسی کتاب میں مسجد کے اندر نماز جنازہ سے متعلق فصل میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مسجد کے اندر سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نماز جنازہ کے بارے میں جو وارد ہے عملِ (علماء) اس کی موافقت نہیں کرتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے نزدیک عمل زیادہ مستحکم ہے۔ (النخ (ت)
 ( ۱ ؎ المدخل لابن الحاج   فصل فی ذکر الصلوۃ علی ا لمیت فی المسجد دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۲۸۹)
خود میاں نذیر حسین صاحب دہلوی معیار الحق میں لکھتے ہیں:  بعض ائمہ کا ترک کرنا بعض احادیث کو فرعِ تحقیق اُن کی ہے کیونکہ انہوں نے اُن احادیث کو احادیث قابل عمل نہیں سمجھا۔ بدعوی نسخ یا بدعوی ضعف اور امثال اس کے ۔۔۲؂
( ۲؎ معیار الحق   مکتبہ نذیریہ لاہور  ص ۱۵۱ )
اس امثال کے بڑھانے نے کھول دیا کہ بے دعوی نسخ یا ضعف بھی ائمہ بعض احادیث کو قابل عمل نہیں سمجھتے۔ اور بے شک ایسا ہی ہے خود اسی معیار میں حدیث جلیل صحیح بخاری شریف
حتی ساوی الظل التلول ۔۳؂
(یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا۔ت) کو بعض مقلدین شافعیہ کی ٹھیٹ تقلید کرکے بحیلہ تاویلات باردہ کاسد ہ ساقطہ فاسدہ متروک العمل کردیا اور عذر گناہ کےلیے بولے کہ
  جمعابین الادلۃ ۔۴؂
 (دلائل میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے۔ ت) یہ تاویلیں حقہ کی گئیں۔ اور اس کے سوا اور بہت احادیث صحاح کو محض اپنا مذہب بنانے کے لیے بدعاوی باطلہ عاطلہ ذاہلہ زائلہ بے دھڑک واہیات و مردود بتادیا جس کی تفصیل جلیل فقیر کے رسالہ  حاجزالبحرین الواقی عن جمع الصلاتین (ف) میں مذکور، یہ رسالہ صرف ایک مسئلہ میں ہے اس کے متعلق حضرت کی ایسی کاروائیاں وہاں شمار میں آئیں۔ باقی مسائل کی کارگزاریاں کس نے گنیں اور کتنی پائیں۔

قیاس کن زگلستانِ اوبہارش را

( اس کے باغ سے اس کی بہار کا اندازہ کرلے۔ ت)
 ( ۳ ؎  صحیح البخاری کتاب الاذان باب الاذان لمسافر اذا کانوا جماعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱/ ۸۸ )

( ۴؎ معیار الحق  مکتبہ نذیریہ لاہور  ص ۳۵۴)
ف : رسالہ حاجز البحرین الواقی فتاوٰی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن کی جلد پنجم ۱۵۹ پر ملاحظہ ہو
Flag Counter