Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۷(کتاب الشتّٰی )
3 - 212
مسئلہ ۸ و ۹ : مرسلہ حکیم عبدالشکور صاحب از ڈاکخانہ رتسٹر ضلع بلیا ۲ ربیع الاخر ۱۳۳۵ھ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین سوالات مندرجہ ذیل میں :

(۱) زید کہتا ہے کہ اس پر ائمہ مجتہدین و علمائے کاملین و حضراتِ محدثین کا اتفاق ہوچکا ہے کہ ان صحاح ستّہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کے ارشاد فرمائے ہوئے کلمات بعینہ اُس حدیث میں موجود نہیں بلکہ صحابہ نے معنٰی مرادی ہی کو اختیار فرما کر اس پر حدیث کا حکم دے دیا ہے۔ زید کا یہ قول صحیح ہے یا غلط ؟ اور ایسے شخص پر آپ کا کیا فتوٰی ہے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ لفظی کو رد کرتا ہے؟
 (۲) '' حدیث اوّل ما خلق اللہ نوری  ۱؎  واول ماخلق اللہ العقل  ۲؎ واوّل ما خلق اللہ القلم ۳ ؎ واوّل ما خلق اللہ العرش۔ ۴؎
سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ میرا نور ہے ، اور سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ عقل ہے۔اور سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ قلم ہے۔ اور سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ عرش ہے۔(ت)
 ( ۱ ؎  المواہب اللدنیہ   اول المخلوقات    المکتب الاسلامی بیروت   ۱/ ۷۴ )

( ۲ ؎  اتحاف السادۃ المتقین        کتاب العلم باب شرف العقل   دارالفکر بیروت    ۱/ ۴۵۳ )

( ۳ ؎ المستدرک للحاکم کتاب التفسیر سورہ الجاثیہ دارالفکر بیروت ۲/ ۴۵۴ )

( ۴ ؎ مرقاۃ المفاتیح   کتاب الایمان   باب الایمان بالقدر الفصل الثانی   المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ    ۱/ ۲۹۱ )
یہ چار حدیثیں ہیں ان میں سے کون صحیح ہے اور کون موضوع ؟ زید کہتا ہے کہ حدیث اول ما خلق اللہ نوری بالمعنی صحیح ہے۔ اگرچہ اس کے الفاظ کتابوں میں مذکور نہیں۔ اب علماء سے سوال یہ ہے کہ جس حدیث کے الفاظ کتب احادیث میں مذکور نہیں اس کو موضوع کہیں گے یا نہیں؟ اور اس کے مرادف کون حدیث ہے جس کے اعتبار سے کہا جائے کہ یہ حدیث بالمعنٰی صحیح ہے اور حدیث کے موضوع ہونے کے لیے کیا شرط ہے، الفاظ اور معنی دونوں یا صرف الفاظ معنی نہیں؟ جواب مفصل فرمائیے مع حوالہ کتب بینوا توجروا۔
الجواب : (۱) روایت حدیث کے دونوں طریقے ہیں۔ روایت باللفظ و روایت بالمعنٰی ، خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحدیث بالمعنی کی اجازت فرمائی ہے ' قرآن عظیم کے نظم کریم و حکم عظیم دونوں کے ساتھ تعبّد  ہے اس میں نقل بالمعنی جائز نہیں حدیث کے حکم کے ساتھ تعبّد ہے جو الفاظِ کریمہ جو امع الکلم سے ارشاد ہوئے ہیں وہ بعینہا منقول ہیں اور باقی میں لفظ پر اقتصار موجب ضیق و عسر تھا۔
اور اللہ عزوجل فرماتا ہے۔
'' ماجعل علیکم فی الدین من حرج  ۱ ؎ ۔
تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔
 (القرآن الکریم ۲۲/ ۷۸ )
اور وہ یقینا حدیث ہے اُسے یہ کہنا کہ صحابہ نے اس پر حدیث کا حکم دے دیا ہی ایک بہت براپہلو رکھتا ہے، بادشاہ فرمائے زید سے کہو کہ ابھی آئے اس پر حکم پہنچانے والا زید سے جا کر کہے کہ ظل سبحانی نے فرمایا ہے۔ فوراً حاضر ہو، تو بے شک اس نے بادشاہ ہی کا حکم پہنچایا اور بادشاہ ہی کی بات نقل کی ۔
 (۲) عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔
یاجابران اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ۲ ؎
اے جابر ! بے شک اللہ تعالٰی نے تمام عالم سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا۔
( ۲ ؎  المواہب اللدنیہ اول المخلوقات المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۷۱ )
یہ اس معنٰی میں نص صریح ہے اور قلم و عقل کے بارے میں بھی احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں سے احادیث عقل غایت درجہ ضعف میں ہیں۔ حدیث کے جب معنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسلم سے ثابت اور صحیح ہیں تو اسے موضوع نہیں کہہ سکتے ورنہ صحیحین کی صدہا حدیثیں معاذ اللہ موضوع ہوجائیں گی۔ ہاں اگر کوئی یہ دعوٰی کرے کہ یہی الفاظ بعینہا زبان اقدس سے صادر ہوئے ہیں، اور اس کا ثبوت نہ ہو تو وہ سخت خاطی ہے اور اگر دانستہ کہے تو۔
'' من کذب علیّ متعمد افلیتبوأ مقعدہ من النار '' ۱ ؎
جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔(ت) میں داخل ۔ واللہ تعالٰی اعلم
 ( ۱ ؎ صحیح البخاری    کتاب العلم    باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم    قدیمی کتاب خانہ کراچی  ۱/ ۲۱ )

(صحیح مسلم    مقدمۃ الکتاب     باب تغلیظ الکذب علٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۷)
مسئلہ ۱۰ : از محلہ بارہ ریواڑی ضلع گوڑگانوہ ہزاری مرسلہ مرزا یوسف صاحب ۳۰ ذیقعدہ ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں جس کے متعلق حدیث شریف ذیل میں درج ہے۔
'' عن جابر بن سمرۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول لایزال الاسلام عزیز ا الی اثناعشر خلیفۃ کلھم من قریش  ۲ ؎
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بارہ خلیفوں کے گزرنے تک اسلام غالب رہے گا اور وہ قریش سے ہوں گے۔
 ( ۲ ؎ صحیح مسلم مقدمۃ الکتاب باب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
وفی روایۃ لایزال امرالناس ماضیا ماولھم اثنا عشرر جلاکلہم من قریش  ۳ ؎ ،  فی روایۃ لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعۃ اویکون علیکم اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش ۴ ؎  ''
اور ایک روایت میں ہے کہ لوگوں کا معاملہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔ جب تک ان پر بارہ خلیفوں کی ولایت رہے گی ، جو سب کے سب قریشی ہوں گے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے یا تم پر بارہ خلفاء کی خلافت قائم رہے گی جو تمام قریشی ہیں۔(ت)
 ( ۳ ؎ صحیح مسلم مقدمۃ الکتاب باب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)

( ۴؎ صحیح مسلم مقدمۃ الکتاب باب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
اشارۃً یہ عبارت کتاب سے نقل کردی ہے مجھ کو عربی لکھنے پڑھنے کی مہارت نہیں ہے۔ لہذا یہ کام اہل علم کا ہے کہ وہ ذرا سے اشارہ سے سمجھ لیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ بموجب اس حدیث شریف کے وہ کون سے بارہ خلیفہ قریش میں سے آں سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد جانشین یا ولیعہد یا نائب منجانب خدا اور رسول اُمتِ محمدیہ میں قابل شمار ہیں، چونکہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لیں تو پوری تعداد ہوگی۔ اور اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لیں تو اصحاب ثلثہ رہ جاتے ہیں غرض کونسی وہ صورتِ حق ہے جو اس حدیث شریف کا مصداق ہے؟ یا یہ حدیث ہی ماننے کے قابل نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عنایت کرے۔ جواب سے ممنون فرمائیے۔
الجواب : حدیث ہے، اور صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہی شمار لینا لازم کہ اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے۔
''یکون بعدی اثنا عشر خلیفۃ ابوبکر الصدیق لایلبث الا قلیلہ ''۱؂.
میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے ابوبکر تھوڑے ہی دن رہیں گے۔
 ( ۱ ؎   المعجم الکبیر   حدیث ۱۴۲    المکتبۃ الفیصیلۃ بیروت ۱ /۹۰)
اس سے مراد وہ خُلفاء ہیں کہ والیانِ اُمّت ہوں اور عدل و شریعت کےمطابق حکم کریں، ان کا متصل مسلسل ہونا ضرور نہیں۔ نہ حدیث میں کوئی لفظ اس پر دال ہے، اُن میں سے خلفائے اربعہ وامام حسن مجتبٰے و امیر معاویہ و حضرت عبداللہ بن زبیر و حضرت عمر بن عبدالعزیز معلوم ہیں اور آخر زمانہ میں حضرت سیدنا امام مہدی ہوں گے۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ یہ نو ہوئے باقی تین کی تعیین پر کوئی یقین نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter