فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
در شریفیہ است ھو الذی لاتدخل فی نسبتہ الی المیت ام کاب الاب وان علا ۱؎ درزبدۃ الفرائض ست یعنی اب الاب ہرچند بالا رود، مسئلہ واضح ست وشک درآن از ہیچ ذی علم معقول نے تاہم نص جزئیہ خاصہ بشنوید در زبدہ است عصبہ بنفسہ چارقسم است (الٰی قولہ) چہارم جزء جدمیت مانند عم اعیانی وعلاتی وابنائے ایشاں ہرچند بالاوپایان روند ہمدرانست بعدازاں جزء جد میت یعنی اعمام او وبعد ازاں جزء جد اب میّت یعنی اعمام اب او بعد ازاں ابنائے ایشاں ہرچند پایان ردند بعدازاں اعمال جدمیت وابناء ایشاں ہرچند بالا وپایان روند تاغیرنہایت۔واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
شریفیہ میں جد صحیح وہ ہے جس کی میت کی طرف نسبت میں ماں داخل نہ ہو جیسے باپ کا باپ اگرچہ اوپرتک ہو۔ زبدۃ الفرائض میں ہے یعنی باپ کاباپ جہاں تک اوپرچلاجائے۔ مسئلہ واضح ہے اس میں کسی علم والے کی طرف سے شک کاتصور نہیں ہوسکتا تاہم خاص جزئیہ کی نص سماعت فرمائیں، زبدہ میں ہے عصبہ بنفسہٖ چارقسم پر ہے(اس کے اس قول تک) چوتھی قسم میت کے دادا کی جزء ہے جیسے اعیانی اورعلاتی چچے جہاں تک اوپرچلے جائیں اور ان کے بیٹے جہاں تک نیچے چلے جائیں، اسی قسم میں داخل ہیں۔ اس کے بعد میت کے باپ کے دادا کی جزء یعنی باپ کے چچے اس کے بعد ان کے بیٹے جہاں تک نیچے چلے جائیں، اس کے بعد میت کے دادا کے چچے پھر ان کے بیٹے جہاں تک اوپریانیچے چلے جائیں غیرنہایت تک۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ الشریفیہ شرح السراجیہ باب معرفۃ الفروض ومستحقیھا مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۱۹)
مسئلہ ۲۰ : ازاوجین مکان میرخادم علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ محمدیعقوب علی خاں آخرشعبان ۱۳۱۰ھ کیا فرماتے ہیں علمائے شرعیہ ومفتیان طریقہ نبویہ اس مسئلہ میں کہ مسمی حافظ فتح محمد صاحب کے تین فرزند حمیدالدین اوررحیم الدین اورنورالدین، ان تینوں برادران حقیقی کی اولاد سے کوئی ورثہ شرعیہ باقی نہیں، مگر زوجہ رحیم الدین فقط باقی ہے، لیکن نورالدین کی عورت مطلقہ کے نطفہ زنا سے ایک لڑکی پیداہوئی تھی، اور اس سے ایک لڑکاپیداہوا، لڑکی توبحین حیات نورالدین فوت ہوئی اور زوجہ مطلّقہ باقی ہے، اب وہ لڑکا جونطفہ زنا دختر سے نورالدین کے پیداہوا زوجہ رحیم الدین سے حصہ چاہتاہے توفرزند زنا زادہا ازروئے شرعی حقدار حصہ ہے یامحروم؟ اورزوجہ رحیم الدین مرحوم نے اپنے برادرزادہ کو اس حصہ اپنے کاترکہ شوہری سے حسب القاعدہ شرعیہ پایا تھا مالک ومتبنی ومختار کرکے ہبہ نامہ نمودہ قاضی صاحب لکھ کرقبضہ کرواکے چندروز کے بعد منتقل سوئے جنان ہوئی تو اس جائداد وہبہ شدہ حصہ ترکہ شوہری سے بنام برادر زادہ زوجہ رحیم الدین وزوجہ حمیدالدین موسومہ عظیم خاں خلف محبوب خانصاحب سے وہ لڑکا زنازادہ حصہ چاہتاہے۔ درست یاممنوع اورخط تبنگی اور وہ ہبہ نامہ جو زوجہ رحیم الدین اور حمیدالدین نے جائداد منقولہ وغیرمنقولہ اور مقبوضہ وغیرمقبوضہ حصہ یافتہ کیاتھا جائز ہے یامنسوخ؟ اس مسئلہ میں جو حکم بالتحقیق ہو بیان فرمائیں بحوالۃ الکتاب رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین۔
الجواب : شرع مطہر کو اثبات نسب میں نہایت احتیاط منظور، جہاں ادنٰی گنجائش پائی ہے نسب ثا بت فرمائی ہے، اورحتی الامکان ہرگز ولدالزنا نہیں ٹھہراتی۔ صدہا صورتیں نکلیں گی کہ عوام اپنے بے علمی سے بچہ کو ولدالزنا سمجھیں اور شرعاً وہ ثابت النسل ہو مثلاً یہی مطلقہ کی صورت ہے اگرعورت کوطلاق رجعی دے اور اس نے ہنوز انقضائے عدت کا اقرار نہ کیا تو اگرچہ طلاق سے بیس برس بعد بچہ پیدا ہو شوہر کا ہی قرارپائے گا، یونہی اگرطلاق بائن یامغلظ تھی اور ہنوز دوبرس نہ گزرے کہ بچہ ہوگیا یادوبرس کے بعد ہوا اورشوہر نے اقرار کیا کہ یہ میرابچہ ہے توبھی اس ہی کاٹھہرے گا۔ یوں ہی بہت صورتیں ہیں جن میں زعم جہّال مخالف شرع مطہر ہے۔
درمختار میں ہے :
یثبت نسب ولد معتدۃ الرجعی وان ولدت لاکثر من سنتین ولولعشرین سنۃ فاکثر لاحتمال امتداد طھرھا وعلوقھا فی العدۃ مالم تقر بمضی العدۃ والمدۃ تحتملہ کمایثبت بلادعوۃ احتیاطا فی مبتوتۃ جاءت بہ لاقل منھما من وقت الطلاق لجواز وجودہ وقتہ ولم تقر بمضیہا وان لتمامھما لایثبت النسب و قیل یثبت، وزعم فی الجوھرۃ انہ الصواب الا بدعوتہ لانہ التزمہ ۱؎ الخ ملخصًا۔
طلاق رجعی کی عدت گزارنے والی عورت کے بچے کانسب ثابت ہوگا اگرچہ وہ دوسال سے زائد عرصہ میں بچہ جنے، چاہے بیس سال یا اس سے زیادہ گزرجائیں کیونکہ طہر کے درازہونے اور عدت ک دوران حمل ٹھہرنے کا احتمال موجود ہے جب تک عورت نے عدت کے گزرجانے کااقرارنہ کیا ہو اور وہ مدت بھی عدت کے گزرجانے کا احتمال رکھتی ہو جیسا کہ بغیر دعوٰی کے احتیاطاً بائنہ طلاق والی کے بچے کانسب ثابت ہوتاہے جبکہ وہ طلاق کے وقت سے دوسال سے کم مدت میں بچہ جنے کیونکہ بوقت طلاق حمل کے موجود ہونے کا امکان ہے اور عورت نے عدت کے گزرنے کا اقرار نہیں کیا اور اگروہ پورے دوسال پربچہ جنے تونسب ثابت نہیں ہوگا اور کہاگیاہے کہ ثابت ہوجائے گا، جوھرہ میں گمان کیاکہ یہی درست ہے مگرجب شوہر دعوٰی کرے تو نسب ثابت ہوجائے گا کیونکہ شوہر نے اس کا التزام اپنے اوپرکرلیا الخ ملخصا۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطلاق فصل فی ثبوت النسب مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۶۱)
پس اگرزن مطلّقہ نورالدین کی وہ لڑکی جسے سائل نطفہ زنا سے بتاتاہے کسی ایسی ہی صورت پرپیداہوئی تھی جس میں شرعاً وہ دخترنورالدین قرارپائی اگرچہ جہال دخترزنا کہیں توبیشک اس دخترکابچہ اگرچہ وہ اس کے بطن سے معاذاﷲ بذریعہ زناہی پیداہوا ہو نورالدین کانواسا اور اس کے ذوی الارحام سے ہے کہ اگرنورالدین کاکوئی وارث اہل فرض وعصبات سے نہ تھا تو وہ مستحق ترکہ نورالدین ہے اوراگرنورالدین اپنے کسی بھائی سے پہلے مرا تو ان بھائیوں میں جو سب سے پیچھے مراہوکہ نہ اس کاکوئی عصبہ ہو نہ سوائے زوجہ کے کوئی ذی فرض تو اس کا ترکہ اس لڑکے کوپہنچے گا کہ یہ اس کے بھائی کانواساہے، ولدالزنا کانسب اگرچہ باپ سے نہیں ہوتاشرعاً اس کاکوئی باپ ہی نہیں
وللعاھر الحجر۲؎
(اورزانی کے لئے پتھر۔ت)
(۲؎ الصحیح البخاری کتاب الفرائض باب الولد للفراش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۹۹)
مگر مال سے یقینا ثابت اور اس کی طرف سے ضرور وارث ہوتاہے اورنانا یانانا کے بھائی کی قرابت قرابت مادری ہے تو اس ذریعہ سے اس کی وراثت میں شک نہیں۔
فی الھندیۃ ولدالزنا لا اب لہ، فترثہ قرابۃ امہ ویرثھم ۳؎ اھ ملخصا۔
ہندیہ میں ہے کہ ولدالزنا کاکوئی باپ نہیں ہوتا چنانچہ اس کی ماں کے قرابت دار اس کے وراث نہیں بنیں گے اور وہ ان کا وارث بنے گا اھ تلخیص(ت)
(۳؎ الفتاوی الھندیۃ کتاب الفرائض الباب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۴۵۲)
ہاں اگر مطلّقہ نورالدین کی دختر کانسب شرعاً نورالدین سے نہ ٹھہرے تو اس کا یہ بیٹا نورالدین کاکوئی نہیں، اگرچہ یہ پسرولدالحلال ہے کہ دخترزنا شرعاً درباہ میراث دخترنہیں تو وہ لڑکی خود ہی نورالدین کی بیٹی نہ تھی اس کا بیٹا نواساکیونکر ہوسکتاہے، پھر جس حال پرہم اسے وارث کہہ آئے اس تقدیرپربھی زوجہ رحیم الدین کے مال میں اس کاکوئی حق نہیں کہ نانا کی بھاوج ہونا شرعاً ذریعہ توریث نہیں خصوصاً جومال کہ وہ اپنے بھتیجے کو ہبہ شرعیہ کرکے قابض کراچکی ا س سے اسے بھی کچھ تعلق نہ رہا وہ خاص اس موہوب لہ، کامال ہوچکا اس میں اس شخص کادعوٰی اور بھی بے جاہے، اورہبہ جس قدراشیائے منقسمہ جداگانہ بلاشرکت وشیوع تھا اور واہبہ نے موہوب لہ، کو اس پر قبضہ کاملہ دلادیا اس قدرمیں تام وکامل ہوگیا اور جن اشیائے موہوب لہ، کو قبضہ کاملہ نہ دلایا خواہ یوں کہ سرے سے قبضہ ہی نہ ہوا یا ہواتوشیئ موہوب جدا ومنقسم ہوکر قبضہ میں نہ آئی اس قدرمیں باطل ہوگیا۔
درمختارمیں ہے :
المیم موت احد العاقدین بعد التسلیم فلوقبلہ بطل۱؎۔
میم سے مراد سپردگی کے بعد واھب یاموہوب لہ میں سے کسی ایک کامرجانا ہے اور سپردگی سے پہلے مرگیا تو ہبہ باطل ہوگا۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الھبۃ باب الرجوع فی الھبۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۶۱)
اس صورت میں یہ اشیاء جن کاہبہ ناتمام رہابعد موت واہبہ وارثان واہبہ کو وراثۃً پہنچے گی، رہامتبنی کرنا وہ شرعاً کوئی چیزنہیں،
قال اﷲ تعالٰی ان امھٰتھم الاالّٰئی ولدنھم۲؎۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم ۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ ان کی مائیں نہیں مگر وہ جنہوں نے ان کوجنا۔واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم(ت)
(القرآن الکریم ۵۸ /۲)