فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
8 - 145
مسئلہ ۱۷ : ازمارہرہ شریفہ باغ پختہ مرسلہ مولوی نبی بخش صاحب ۲۰شوال المکرم ۱۳۰۹ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اورمفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص اپنے فرزند سے جوکہ عورت منکوحہ سے ہے بسبب اس کے اعمال زبون (یعنی فرزند اپنے باپ کی عزت کاخواہاں نہ ہے اور سخن نازیبا باپ کوکہتاہے اورقصدکرتاہے کہ اگرموقع ہوتوباپ کو مارڈالوں) کے سخت ناخوش ہے اورچاہتاہے کہ اس کو عاق کردے اور اپنی جائداد کو دواورلڑکوں کو جو عورت غیرمنکوحہ سے ہیں دے دے تو اس شخص کا اپنے فرزند کے ان افعال پرعاق کرنا اور اپنی جائداد کوغیرمنکوحہ کے لڑکوں کو دینا کیساہے اورعاق ہونے کے واسطے کون سے الفاظ کئے جاتے ہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : بے علموں کے ذہن میں یہ ہے کہ جس طرح عورت کاعلاقہ زوجیت قطع کرنے کے لئے شرع مطہر نے طلاق رکھی ہے کہ اس کا اختیار بدست شوہر ہے اور اس کے لئے کچھ الفاظ ہیں کہ جب شوہر سے صادرہوں طلاق واقع ہو یوں ہی اولاد کاعلاقہ ولدیت قطع کرنے کے لئے عاق کرنابھی کوئی شرعی چیزہے جس کا اختیار بدست والدین ہے اور اس کے لئے بھی کچھ الفاظ مقررہیں کہ والدین ان کا استعمال کریں تو اولاد عاق ہوکر ترکہ سے محروم ہوجائے۔ مگریہ محض تراشیدہ خیال ہیں جس کی اصل شرع مطہرمیں اصلاً نہیں، نہ علاقہ ولدیت وہ چیز ہے کہ کسی کے قطع کئے منقطع ہوسکے، مگر معاذاﷲ بحالت ارتداد والعیاذباﷲ تعالٰی۔ شرع میں عقوق ناحق نافرمانی والدین کوکہتے ہیں کہ یہ کار اولاد ہے، جوشخص اپنے ماں باپ کاحکم بے عذر شرعی نہ مانے گا یامعاذاﷲ انہیں آزارپہنچائےگا وہی عاق ہے اگرچہ والدین اسے عاق نہ کریں بلکہ اپنی فرط محبت سے دل میں ناراض بھی نہ ہوں مگر کوئی شخص عاق ہونے کے سبب ترکہ سے محروم نہیں ہوسکتا اورجوفرمانبرداری والدین میں مصروف رہے اور وہ بے وجہ اس سے ناراض رہیں یابحکم
لاطاعۃ لاحد فی معصیۃ اﷲ تعالٰی ۱؎
(اﷲ تعالٰی کی نافرمانی میں کسی کی بات نہیں مانی جائے گی۔ت) کسی مخالف شرع بات میں ان کا کہا نہ مانے اور وہ اس سبب سے ناخوش ہوں تو ہرگزعاق نہیں۔
(۱؎ کنزالعمال برمزق ۔ د ۔ ن عن علی حدیث ۱۴۸۷۴ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۶۷)
اور اگر کوئی شخص لاکھ بار اپنے فرمانبردار خواہ نافرمان بیٹے کو کہے کہ میں نے تجھے عاق کیا یا اپنے ترکہ سے محروم کردیا تونہ اس کایہ کہناکوئی نیا اثرپیداکرسکتاہے نہ وہ بدیں وجہ ترکہ سے محروم ہوسکے۔ یہ شخص اگراپنی جائداد اپنے بیـٹے کومحروم کرنے کے لئے ان بے نکاحی عورت کے لڑکوں کو دے دے گا تودنیا میں یہ کاروائی اس کی اگرچہ چل جائے مگرعنداﷲ ماخوذہوگا۔
حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من فرمن میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ ۔ رواہ ابن ماجہ ۱؎ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جواپنے وارث کی میراث سے بھاگے اﷲ تعالٰی اس کی میراث جنت سے قطع کردے(اس کو ابن ماجہ نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب الحیف فی الوصیۃ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۱۹۸)
مسئلہ ۱۸ : ازصاحب گنج گیا مکان سیدمحمدابوصالح خان بہاد ر رئیس کڑہ مرسلہ شیخ وزارت حسین خاں ۳ جمادی الاولٰی ۱۳۱۰ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت نے انتقال کیا اوردوماموں ایک بھتیجا یعنی پھوپھی زادہ بھائی کالڑکا جس کا باپ اس عورت کے سامنے مرچکا تھا اور ایک پھوپھی زادہ بہن کوچھوڑا، اس صورت میں ترکہ اس کا کس کس کو کس کس قدرملے گا؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : برتقدیر عدم موانع ارث ووارث آخروتقدیم مایقدم کالدین والوصیۃ، کل ترکہ دونوں ماموں نصفاً نصف پائیں گے۔ پُھپی کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا۔
علامہ ابوعبداﷲمحمدغزی تنویرمیں ذوی الارحام کے احکام عامہ میں فرماتے ہیں
: یحجب اقربھم الابعدا ۲؎ اھ، واﷲ تعالٰی اعلم۔
ان میں سے جواقرب ہے وہ دوروالے کے لئے حاجب(رکاوٹ) بن جاتاہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ الدرالمختار شرح تنویرالابصار کتاب الفرائض باب توریث ذوی الارحام مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۶۳)
ہمارے مولانا بزرگوار آپ کی بزرگی میں اضافہ ہو آداب واجبہ کی ادائےگی کے ساتھ سعادتمندی حاصل کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں عرض پیش کرنے سے مشرف ہو رہاہوں کہ حامل ہذا کے ہاتھ خدمت اقدس میں استفتاء ارسال ہے جس کی صورت اس طرح ہے :
اصل المسئلۃ زید صورت ہکذا
مادر خواہر ابن ابن ابن عم جدالاب
۲ ۳ ۱
قال فی الدرثم العصبات بانفسھم اربعۃ اصناف جزء المیت ثم اصلہ ثم جزء ابیہ ثم جزء جدہ ۱؎الخ۔ قال العلامۃ الشامی قولہ ثم جزء جدہ اراد بالجد مایشمل اب الاب ومن فوقہ۲ ؎ الٰی اٰخرھا ،
در میں کہا پھرعصبہ بنفسہ کی چارقسمیں ہیں: میت کی جزء، پھر میت کی اصل، پھرمیت کے باپ کی جزء، پھر میت کے دادا کی جزء الخ۔ علامہ شامی نے کہا کہ مصنف کے قول ''پھرمیت کے دادا کی جزء'' میں دادا سے مراد وہ ہے جو باپ کے باپ اور اس سے اوپر والے کو شامل ہو الخ ۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الفرائض فصل فی العصبات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۵۶)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الفرائض فصل فی العصبات داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۴۹۳)
واﷲ اعلم الساطرالوارد محب احمدعبدالرسول عفی عنہ فریق مخالف رادریں مسئلہ مخالفتے است میگوید کہ مراد از جزء جدہ فقط عم اب وعم جد است نہ آنہا کہ فوق اینہا اند ونزد شامی علیہ الرحمۃ از من فوقہ صرف ہمیں دواہل قرابت مراد اند چنانکہ ازمثال پرظاہر ست بواپسی حامل جواب مطلوب والسلام یکے ازخدم افقر البرایا عبدالرسول محب احمدعفی عنہ۔
اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے، راقم السطور محب احمد عبدالرسول اس کی مغفرت ہوجائے۔ مخالف فریق اس مسئلہ کی مخالفت رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ دادا کی جزء سے مراد فقط باپ کاچچا اوردادا کا چچاہے نہ کہ اس سے اوپروالے۔ اورشامی علیہ الرحمہ کے نزدیک بھی اوپر والوں سے مراد یہی دواہل قرابت ہیں جیسا کہ مثال سے خوب ظاہرہے حامل ہذا کے ہاتھ جواب مطلوب ہے۔ آپ کامخلص خادم مخلوق میں سب سے زیادہ محتاج عبدالرسول محب احمد، اس کی مغفرت ہوجائے۔(ت)
الجواب : مولانا المکرم اکرمکم الاکرام السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ جواب جناب حق وصواب ست فی الواقع درصورت مستفسرہ بکرعصبہ زیدومستحق باقی ودرقول درجزء جدہ داخل است کہ درفرائض بلکہ ہمہ ابواب فقہ از جد ہمیں پدرپدریاجد قریب پدرمراد نباشد بلکہ ازنسب پدرجملہ ذکور کہ در نسبت بایشان زن نیاید بذلک عرفوہ قاطبۃ وھو المراد حیث اطلق سراجیہ درہمیں بیان تقسیم عصبات فرمود ثم الجد ای اب الاب وان علا ۱؎ خود درہمیں عبارت درمختار است ثم الجد الصحیح وھو اب الاب وان علا۲؎ ۔
مولانا مکرم رب کریم آپ کو اکرام بخشے، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ،۔ جناب کاجواب حق اوردرست ہے۔ فی الواقع صورت مسئولہ میں بکرزید کا عصبہ اوربچے ہوئے مال کامستحق ہے اور در کے قول ''میت کے دادا کی جزء'' میں داخل ہے کیونکہ فرائض بلکہ فقہ کے تمام ابواب میں دادا سے فقط باپ کا باپ کاجدقریب ہی مراد نہیں ہوتابلکہ باپ کے نسب کے تما مذکر جن کی میت کی طرف نسبت میں کوئی عورت واسطہ نہ آتی ہو۔ تمام نے دادا کی یہی تعریف کی ہے اور جب اس کا اطلاق کیاجائے تویہی مراد ہوتاہے۔ صاحب سراجیہ نے تقسیم عبارت کے اسی بیان میں فرمایا پھرجد یعنی باپ کا باپ اگرچہ اوپرتک ہو۔ خود درمختار کی اسی عبارت میں ہے پھر جد صحیح اور وہ باپ کا باپ ہے اگرچہ اوپرتک ہو۔
(۱؎ السراجی فی المیراث باب العصبات مکتبہ ضیائیہ راولپنڈی ص۲۲)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الفرائض فصل فی العصبات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۵۶)