فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
7 - 145
مسئلہ ۱۳: ۱۹جمادی الآخرہ ۱۳۰۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سیدحسین علی نے نوکری سے روپیہ پیداکیا اور اپنے مکان پرجمع کرکے بھیجا اس کی زوجہ معصومہ نے بعد انتقال میرحسین علی کے اس روپے سے اپنے نابالغ بیٹے میرفضل علی کے نام جائداد خرید دی میرعلی حسین نے یہی زوجہ وپسر اوردودختر مستین، بسم اﷲ وارث چھوڑے پھرفضل علی نے یہی وارث اور حیدرعلی چچا پھربسم اﷲ نے شوہرعلی جان اور یہی ورثہ پھر معصومہ نے دختر مستین وارث چھوڑ کر انتقال کی اس صورت میں وہ جائداد میرحسین علی کی قرار پائے گی یافضل علی کی؟ اورہروارث کو کس قدرپہنچے گا؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب
صورت مستفسرہ میں مالک جائداد فضل علی ہے۔ عقودالدریۃ میں ہے :
ذکر فی الذخیرۃ والتجنیس امرأۃ اشترت ضیعۃ لولدھا الصغیر من مالھا وقع الشراء للام لانھا لاتملک الشراء للولد وتکون الضیعۃ للولد لان الام تصیر واھبۃ والام تملک ذٰلک ویقع قبضا عنہ احکام الصغار من البیوع ۱؎۔
ذخیرہ اورتجنیس میں ہے ایک عورت نے اپنے مال سے اپنے نابالغ بیٹے کے لئے جائداد خریدی توخریداری ماں کی طرف سے واقع ہوگی کیونکہ وہ نابالغ اولاد کے لئے خریداری کی مالک نہیں اور جائداد بیٹے کے لئے ہوگی کیونکہ ماں ہبہ کرنے والی ہوگئی اور اس کی وہ مالک ہے اور ماں کا مبیع پرقبضہ بیٹے کی طرف سے واقع ہوگا (احکام الصغار، کتاب البیوع)(ت)۔
(۱؎ العقودالدریۃ کتاب الوصایا باب الوصی ارگ بازار قندھار افغانستان ۲ /۳۳۷)
پس جائداد مذکورہ برتقدیر عدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وصحت ترتیب اموات وتقدیم امورمقدمہ علی المیراث کاداء الدین واجراء الوصیۃ، چوبیس سہام پرمنقسم ہوکر اس حساب سے ورثہ فضل علی کی دی جائے گی۔
مستین حیدرعلی علی جان
۱۷ ۴ ۳
البتہ جبکہ وہ روپیہ جس کے عوض یہ جائداد خریدی گئی ملک میرحسین علی تھا اور اس میں تمام وارثانِ میرحسین علی کاحق تھا جسے معصومہ نے بے اجازت دیگرورثہ خرچ کرڈالا توباقی وارثوں کے حصص کا تاوان معصومہ پرآیا کہ وہ اس کے متروکہ سے (خواہ اسی جائداد فضل علی کاحصہ ہو یا اس کے سوا اور کوئی چیزہو) وصول کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔
ردالمحتار میں ہے :
ما اشتراہ احدھم لنفسہ یکون لہ ویضمن حصۃ شرکائہ من ثمنہ اذا دفعہ من المال المشترک۲؎۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
شرکاء میں سے ایک نے جو کچھ اپنی ذات کےلئے خریدا وہ اسی کا ہوگا اور اس کے ثمن میں دیگر شرکاء کے حصہ کاتاوان دے گااگر اس نے مشترکہ مال سے ثمن ادا کیاہو۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الشرکۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۳۸)
مسئلہ ۱۴ : ازریاست رامپور مرسلہ جناب سیدمظہرحسن صاحب خادم جبہ مقدسہ ۱۶ذیقعدہ ۱۳۰۸ ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غلام حسین خاں لاولدمرا اور اس نے نکاح بھی نہ کیاتھا اس کاوارث سواخیراتی خان ،اس کے پھوپھی زادبھائی کے اور کوئی نہ تھا مگر خیراتی خاں اس کے سامنے مرگیا۔ خیراتی خاں نے اپنی زوجہ سے کہ اس کے سامنے مرچکی تھی ایک دخترچھچی او رزوجہ ثانیہ سے کہ زندہ ہے دوپسربندہ حسن ومجب حسین چھوڑے، اس صورت میں یہ وارثان خیراتی خاں غلام حسین خاں کے وارث ہوں گے یانہیں؟ اگرہوں گے تو کس کس کو کتناکتنا پہنچے گا؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجردئیے جاؤگے۔ت)
الجواب : برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وصحت ترتیب اموات وتقدیم امور مقدمہ علی المیراث کاداء الدین واجراء الوصیۃ،ک ترکہ غلام حسین خاں کاپانچ سہام پرمنقسم ہوکر دو۲دو۲سہم بندہ حسن ومجب حسین اورایک سہم چھچی کوملے گا اور زوجہ خیراتی خاں کچھ نہ پائے گی۔
عالمگیریہ میں ہے :
ان اجتمعوا وکان حیزقرابتھم متحدا فالاقوی اولی، ثم ولدالوارث اولٰی، وان استوت قرابتھم فللذکر مثل حظ الانثیین، فان ترک ابن عمۃ وابنۃ عمۃ فالمال بینھما للذکر مثل حظ الانثیین، والکلام فی اولادھٰؤلاء بمنزلۃ الکلام فی اٰبائھم عند انعدام الاصول ۱ ؎ اھ ملتقطا واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگرذوی الارحام کی صنف رابع کے چند رشتہ دار جمع ہوں او ران کی قرابت متحد ہو تو ان میں سے جو اقوٰی ہوگا وہ اولٰی ہوگا۔ پھروارث کی اولاد اولٰی ہوگی، او ر اگر ان کی قرابت برابر ہے تومذکر کے لئے مؤنث سے دگنا ہوگا۔ اگر ایک پھوپھی کابیٹا اورایک پھوپھی کی بیٹی چھوڑ کرمرگیا توترکہ کامال ان کے درمیان یوں تقسیم ہوگا کہ مذکر کومؤنث سے دگنا ملے گا، ان کی اولاد میں کلام ایسے ہی ہے جیسا ان کے آباء میں ہے جبکہ اصول معدوم ہوں اھ التقاط۔ اوراﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
(۱؎ الفتاوی الھندیۃ کتاب الفرائض الباب العاشر الصنف الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۴۶۲ تا ۴۶۴)
مسئلہ ۱۵ : ازٹونک دروازہ کلاں مرسلہ احمدحسن خاں محرر تھانہ جھندوا پرگنہ سرونج ریاست ٹونک ۱۰رجب ۱۳۰۹ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسمی بوہارخاں نے ایک عورت مسلمان کی تھی اس سے تین لڑکے بوہارخاں کے پیداہوئے مگرنکاح نہ کیاتھا اب بوہارخاں کے ترکہ میں یہ لڑکے وارث ہوسکتے ہیں یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : اگر فی الواقع ثبوت شرعی سے ثابت ہوکہ بوہارخاں اس عورت کو بے نکاح تصرف میں لایا اور یہ لڑکے معاذاﷲ محض زنا سے پیداہوئے غرض حالت وہ ہوکہ شرع ان کا نسب بوہارخاں سے اصلاً نہ ثابت کرے توبیشک ترکہ بوہارخاں میں ان کا کوئی حق نہیں۔
درمختار میں ہے :
یرث ولدالزنا واللعان بجہۃ الام فقط لما قدمناہ فی العصبات انہ لااب لھما ۱ ؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
زنا اورلعان کی صورت اولاد فقط ماں کی طرف سے وارث ہوگی جیسا کہ ہم عصبات میں ذکرکرچکے ہیں کہ ان دونوں کاکوئی باپ نہیں ہوتا۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الفرائض فصل فی الغرقٰی الخ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۶۵)
مسئلہ ۱۶ : ۲۴رجب ۱۳۰۹ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب زید پیداہوا اس کی خالہ نے اپنی بہن سے اسے لے کر اپنا بیٹا کرکے پالا اور بعد انتقال ہمشیرہ یہ عورت پدرِ زید کے نکاح میں آئی اس صورت میں کچھ ترکہ اسے ملے گا یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : اگرمراد سائل کی یہ ہے کہ اس صورت میں زید کو اپنی اس خالہ کے ترکہ سے بوجہ متبنی یا سوتیلے بیٹے ہونے کے کچھ پہنچے گا یانہیں، توجواب یہ ہے کہ کچھ نہیں کہ متبنی یاسوتیلا بیٹاہونا شرعاً ترکہ میں کوئی استحقاق نہیں پیداکرتا۔ اوراگریہ مراد ہے کہ اس صورت میں زیداپنی حقیقی والدہ یاوالد کے ترکہ سے حصہ پائے گا یانہیں، توجواب یہ ہے کہ بیشک پائے گا کسی کا اسے اپنابیٹا بنالینا اپنے حقیقی والدین کے بیٹے ہونے سے خارج نہیں کرتا۔واﷲ تعالٰی اعلم