Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
6 - 145
مسئلہ ۱۱  :  ۸ربیع الاول ۱۳۰۸ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ مہرمسماۃ ریاست النساء مرحومہ کاذمہ احمدشاہ خاں شوہر کے واجب الادا ہے اورترکہ مسماۃ سے نصف حصہ اس کے شوہر کا ہے مہر بتعداد پانچ ہزار (۵۰۰۰) روپیہ ہے اور ترکہ بمقدار قلیل مسماۃ کی والدہ اور بھائی دعویدار مہرہیں۔ اس صورت میں ترکہ اس کے شوہر کوملے گا یانہیں؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجردئیے جاؤگے۔ت)
الجواب :  بیشک ملے گا،
فان الدین المحیط علی المیت تمنع تقسیم الترکۃ بین الورثۃ لادین المیت۔
اس لئے کہ ترکہ کا احاطہ کرنے والا قرض اگرمیت پرہوتو وہ ورثاء میں ترکہ کی تقسیم سے مانع ہوتا اوراگرمیت کاقرض دوسروں پرہو تو وہ مانع نہیں ہوتا۔(ت)

وہ ترکہ سے اپناحصہ لے اورباقی وارث اس سے نصف مہرلیں اگرنہ دے دعوٰی کرلیں
فان الدین قدحل بالموت
 (کیونکہ موت کے سبب سے قرض کی ادائےگی کاوقت آپہنچاہے۔ت) یہ خیال کہ اس پرمہرکثیراورجائداد قلیل اگرترکہ سے حصہ دے دیاجائے گاشاید کسی کے نام منتقل کردے اور مہرماراجائے ہرگز اسے ترکہ ملنے سے مانع نہ ہوگا نہ یہ روکناکچھ مفید کہ وہ بلاتقسیم بھی بیع کرسکتاہے جوقطعاً نافذ ہوگی کہ یہ حجربالدین امام کے نزدیک مطلقاً اور بے حکم قاضی اجماعاً جائزنہیں۔
ہندیہ میں محیط سے ہے :
ثم لاخلاف عندھما ان الحجر بسبب الدین لایثبت الابقضاء القاضی۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم ۔
پھرصاحبین کے نزدیک اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرض کی وجہ سے پابندی قضاء قاضی کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
 (۱؎ الفتاوٰی الھندیۃ  کتاب الحجر   الباب الثانی   الفصل الاول  نورانی کتب خانہ پشاور  ۵ /۵۵)
مسئلہ ۱۲ :۲۸ربیع الاول شریف ۱۳۰۸ھ

 کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں ایک مردمذہب اہلسنت وجماعت نے عورت مذہب شیعہ تبرائی سے حسب طریقہ رفاض صیغہ پڑھایا اوراپنی زوجیت میں لایا وہ عورت زوجہ شرعی ہوسکتی ہے یانہیں اورترکہ اس مرد کی مستحق ہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا(بیان کیجئے اجرپاؤگے۔ت)
الجواب :  وہ ہرگز زوجہ شرعیہ نہیں، نہ اصلاً ترکہ کی مستحق۔ رافضی تبرّائی ہمارے فقہاء کرام اصحاب فتاوٰی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین کے نزدیک مطلقاً کافر ہے، عامہ کتب فتاوٰی میں اس مسئلہ کی جابجا تصریح ہے اور فقہائے ممدوحین کے نزدیک ان کا کفر بوجوہ کثیرہ ثابت :

اوّلاً خود یہی تبرائے ملعون والعیاذباﷲ تعالٰی فقہاء کرام فرماتے ہیں حضرات شیخین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی شان میں ان کلمات ملعون کابَکنے والاکافرہے۔
فتاوٰی عالمگیری میں فتاوٰی خلاصہ سے ہے :
الرافضی اذاکان لیسب الشیخین و یلعنھما والعیاذباﷲ فھو کافر۱؎۔
رافضی جب شیخین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو گالی دے  اور  ان  پر لعنت بھیجے العیاذباﷲ تو  وہ کافرہوگا۔ (ت)
 (۱؎الفتاوٰی الھندیۃ    کتاب السیر        الباب التاسع         نورانی کتب خانہ پشاور     ۲ /۲۶۴)
بحرالرائق میں ہے :  امام ابوزید دبوسی وامام ابواللیث سمرقندی وامام ابوعبداﷲ حاکم شہید وغیرہم ائمہ کبار نے  رافضی تبرائی کے مطلقاً کافرہونے کی تصریح فرمائی اور اسی پراشباہ والنظائر وتنویرالابصار ومنح الغفار ودرمختار وغیرہاکتب معتمدہ میں جزم کیا۔
درمختارمیں ہے :
فی البحر عن الجوھرۃ معزیا للشھید من سب الشیخین اوطعن فیھما کفرولاتقبل توبۃ وبہ اخذ الدبوسی وابواللیث، وھو المختار للفتوی انتھی وجزم بہ فی الاشباہ واقرہ المصنف۲؎ الخ۔
بحرمیں بحوالہ جوہرہ شہیدکی طرف منسوب ہے کہ جس نے شیخین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو گالی دی یا ان پرطعن کیا تو وہ کافرہوگیا ور اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی اسی سے دبوسی اور ابواللیث نے اخذ کیا اوروہی فتوٰی کے لئے مختارہے انتہی۔ اشباہ میں اسی پرجزم کیا ہے اور مصنف علیہ الرحمہ نے اس کو مسلم رکھاہے الخ(ت)
 (۲؎ الدرالمختار    کتاب الجہاد  باب المرتد   مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۷)
ثانیاً حضرت افضل الاولیاء المحدبین امیرالمومنین امام المتقین سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی امامت برحق سے انکارکرنا، فقہاء کرام فرماتے ہیں : صحیح مذہب پر اس کامنکر کافرہے۔ 

فتاوٰی ظہیریہ پھر طریقہ محمدیہ اور اس کی شرح حدیقہ ندیہ میں ہے :
من انکر امامۃ ابی بکر  الصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ ای خلافتہ بعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی الامۃ فھو کافرفی القول الصحیح لاجماع الامۃ علٰی ذٰلک من غیرخلاف احد یعتدبہ۳؎۔
جس نے ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی امامت یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد امت پرآپ کی خلافت کاانکارکیا توصحیح قول میں وہ کافر ہے، کیونکہ اس پر اجماع امت ہے اور کسی قابل اعتبار شخص نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔(ت)
 (۳؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ   الباب الثانی     الفصل الاول     نوریہ رضویہ فیصل آباد  ۱ /۳۲۱)
اسی طرح فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
الصحیح انہ کافر۱؎
 (صحیح یہ ہے کہ وہ کافر ہے۔ت)
 (۱؎ الفتاوی الھندیۃ  کتاب السیر    الباب التاسع    نورانی کتب خانہ پشاور   ۲ /۲۶۴)
ثالثاً حضرت امیرالمومنین امام العادلین عمرفاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی خلافت برحق سے  منکر ہونا، فقہاء کرام فرماتے ہیں : اصح مذہب پریہ بھی کفرہے۔
ظہیریہ وعالمگیریہ وسیرت احمدیہ وغیرہا میں ہے :
کذٰلک من انکر خلافۃ عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ فی اصح الاقوال۲؎۔
اسی طرح جوحضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی خلافت کامنکرہے اصح قول میں وہ کافرہے۔(ت)
(۲؎الفتاوی الھندیۃ     کتاب السیر         الباب التاسع         نورانی کتب خانہ پشاور   ۲ /۲۶۴)
فتاوٰی خلاصہ وفتح القدیر شرح ہدایہ میں ہے :
ان انکر خلافۃ الصدیق اوعمر فھو کافر۳؎۔
اگرکسی  نے صدیق اکبر یاحضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہما کی خلافت کا انکارکیا تو وہ کافرہے۔(ت)
 (۳؎ فتح القدیر         کتاب الصلٰوۃ     باب الامامۃ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۱ /۳۰۴)
اورکتب فقہ کاتتبع کیجئے تو ان کے سوا اور وجوہ کفربھی روافض تبرائی میں پیداہوں گی اور حق یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے یہ رافضی قطعاً یقینا بالاجماع کافرمرتد ہیں کہ ان کامنکر ضروریات دین ہونا تحریرات مطبوعہ مجتہد لکھنؤ وغیرہ سے ثابت۔
وقد فصّلنا ذٰلک فی بعض فتاوٰنا ولن تجد احدا  منھم الا وھو  یقول بنقصان القراٰن العظیم الموجود بایدالمسلمین  الیوم عن القدر المنزل علی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم  وقد افصح بذٰلک کبارھم وصغارھم وعلماؤھم  وجھا لھم تحریرا وتقریرا وکذٰلک بتفضیل سیدنا علی ن المرتضٰی وسائر الائمۃ الاطہار کرم اﷲ تعالٰی وجوھھم علٰی جمیع الانبیاء السابقین صلواۃ اﷲ وسلامہ علیھم اجمعین فلایجوزلمسلم ان یرتاب فی کفرھٰؤلاء الانجاس الارجاس و العیاذ باﷲ تعالٰی من شرکل وسواس خناس۔
ہم نے اپنے بعض فتووں میں اس کی تفصیل بیان کردی ہے۔ ان میں سے ہرگز تجھے کوئی ایسانہ ملے گا کہ جو اس بات کا قائل نہ ہوکہ مسلمانوں کےہاتھ میں جو موجودہ قرآن مجید ہے وہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پرنازل شدہ قرآن مجید سے کم ہے۔ اس بات کی تصریح ان کے بڑوں، چھوٹوں، عالموں اورجاہلوں نے تحریروتقریر میں کی ہے۔ اسی طرح وہ سیدنا علی مرتضٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ اورباقی ائمہ اطہار کی تمام سابقہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات پرافضلیت کے قائل ہیں لہٰذا کسی مسلمان کے لئے جائزنہیں کہ وہ ان پلید وغلیظ لوگوں کے کفر میں شک کرے، ہرچھپ کر پھسلانے والے وسوسہ ڈالنے والے کے شرسے اﷲ تعالٰی کی پناہ۔(ت)
پس بلاشبہہ رافضیہ ہرگز اہلسنت کی زوجہ شرعیہ نہیں ہوسکتی اور ان سے مناکحت محض باطل اور اولاد اولاد زنا اور وہ ہرگز ترکہ اہلسنت کااستحقاق نہیں رکھتی۔ عالمگیری میں ہے :
اختلاف الدین یمنع الارث ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
دین کا مختلف ہونا میراث سے مانع ہے اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
 (۱؎ الفتاوی الھندیۃ    کتاب الفرائض     الباب الخامس     نورانی کتب خانہ پشاور     ۶ /۴۵۴)
Flag Counter