Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
57 - 145
مسئلہ ۱۰۸ : ازقصبہ شاہ آباد ضلع ہردوئی ڈیوڑھی کلاں ۲۲ذیقعدہ ۱۳۲۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین زادھم اﷲ شرفا کہ زید اوربکر دوبھائی حقیقی تھے، زید کا لڑکا عمرو اور عمروکالڑکاحامد اورحامد کی لڑکی ہندہ یہ لاولد فوت ہوئے زید کے لڑکے عمرو نے حامد کوبایں شرط اس مضمون کی وصیت تحریر کی ''ہماری موروثی جائداد خاندان دیگرونسل وغیرہ میں منتقل نہ ہوگی'' بعد فوت عمرو کے حامد قابض جائداد ہوئے حامد نے بھی ایک وصیت سعیدہ یعنی زوجہ خود ونیز دخترہندہ کو حسب شرائط تحریر کی''یعنی زوجہ منکوحہ سعیدہ اپنی حیات تک منتظم ومنصرم رہے گی، بعد وفات اس کے ہندہ نسلاً بعد نسلٍ مالک و وارث کل جائداد کی ہوگی'' چونکہ ہندہ بموجودگی مسماۃ سعیدہ اپنی والدہ کے فوت ہوئی اوربعد چندسال کے سعیدہ بھی فوت ہوگئی جوکہ خاندان غیرسے تھی اوربکرکے د ودختریعنی زاہدہ اورعابدہ۔ زاہدہ منسوب چچازادبھائی عمرو کو جس کالڑکا حامد اور حامد کی ہندہ جولاولد فوت ہوئی بلکہ شاخ بھی ختم ہوگئی باقی رہی عابدہ جو منسوب ہوئی محمود کوجن سے ہوئے خالد اور ان سے ہوئے ولید حی القائم، پس بموجب شرع شریف حنفی المذہب کے تقسیم حصص کیاہے اوروارث جائزکون ہے جبکہ عصبہ وذوی کوئی نہیں ہے۔بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپاؤگے۔ت)شجرہ مندرجہ ذیل ہے
26_29.jpg
الجواب : یہ سوال مجمل ہے معلوم نہیں کہ بکرکے بعد زید یاعمرو یاحامد کوئی زندہ تھا یانہیں، نہ معلوم کہ عابدہ کاشوہر محمود عابدہ سے پہلے مرایابعد، اگربعد کومراتو اس کے ماں یاباپ یادوسری زوجہ اوراولاد سوائے ولید تھی یانہیں، بہرحال حکم یہ ہے کہ عمروحامد کی وصایائے مذکورہ باطل وبے اثرہیں، وہ تغییر حکم شرع جس پرکسی کوقدرت نہیں، پس صورت مذکورہ میں حسب شرائط فرائض ایک بھائی زید کاجوکچھ متروکہ ہے تمام وکمال وارثان سعیدہ کوپہنچے گا سعیدہ کاجوکوئی وارث وقت موت سعیدہ موجودتھا اس تمام حصہ کامالک ہے،
لان مالزید وصل لابنہ حامدومنہ لعرسہ سعیدۃ وبنتہ ھندۃ ومن ھندہ لامھا سعیدۃ لان ذوی الارحام لاارث لھم مع اصحاب الفرائض فجمعت سعیدۃ کل ما لزید۔
اس لئے کہ جوکچھ زیدکاہے وہ اس کے بیٹے حامد کو ملاپھرحامد سے اس کی بیوی سعیدہ اور بیٹی ہندہ کوملاپھرہندہ سے اس کی ماں سعیدہ کوملا کیونکہ اصحاب فرائض کی موجودگی میں ذوی الارحام وارث نہیں بنتے  تو اس طرح جوکچھ زیدکاتھا وہ تمام سعیدہ کوپہنچ گیا(ت)
رہادوسرے بھائی بکر کاحصہ، اس میں دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ انتقال بکرکے وقت زیدیاعمرو یاحامد کوئی زندہ تھا اس تقدیر پرحصہ بکرسے دوتہائی وارثان سعیدہ کاہے
لانہ یصیرا ثلاثا بین بنتہ والعصبۃ فماکان للعصبۃ یصل سعیدۃ کما قدمنا وماکان لزاھدہ تصیر لابنھا حامد ومنہ الٰی سعیدۃ۔
اس لئے کہ وہ بکر کی بیٹی اوراس کے عصبہ کے درمیان تین حصوں میں منقسم ہوگا پھرجوعصبہ کے درمیان تین حصوں میں منقسم ہوگا پھرجوعصبہ کے لئے ہے وہ سعیدہ کوپہنچے گا جیسا کہ ہم ذکرکرچکے ہیں اورجوکچھ زاہدہ کے لئے ہے وہ اس کے بیٹے حامد کوملے گا اور اس سے سعیدہ کوپہنچے گا۔(ت)
دوسرے یہ کہ ان میں سے کوئی وقت انتقال بکرزندہ نہ تھا اس صورت میں حصہ بکر کانصف وارثان سعیدہ کاہے،
لانہ ینتصف بین بنتیہ فماکان لزاھدۃ یصل لھم کما تقدم۔
کیونکہ وہ اس کی دوبیٹیوں کے درمیان نصف نصف ہوگا پھرجوکچھ زاہدہ کوملاو ہ سعیدہ  کے وارثوں کوپہنچے گا، جیسا کہ گزرچکا۔(ت)
باقی حصہ بکرکا ایک ثلث یانصف وہ خاص ولید کے لئے ہے، اگرمحمود عابدہ سے پہلے مرگیاہو یابعد کومرا اورسواولید کے محمود کابھی کوئی وارث مثل مادر یاپدریا زوجہ ثانیہ یا اولاد محمود اززوجہ دیگرنہ تھا ورنہ اس تہائی یانسف کے تین ربع ولید کے لئے بلاشرکت ہیں اورایک رع میں کہ عابدہ سے محمود کوپہنچا باقی وارثان محمود کے ساتھ ولید کاہے جب تک بقیہ ورثہ محمود کی تعیین نہ ہو یابتانا ناممکن ہے کہ اس ربع سے ولید کوکیاپہنچے گا۔

بالجملہ مجموع جائداد زید وبکر کے اڑتالیس حصے کریں، پھراگرانتقال بکر کے وقت حامد زندہ تھا توچالیس حصے وارثان سعیدہ کودے دیں اورباقی آٹھ ولید کواگر محمود کے اور وارث کا استحقاق نہ ہو، ورنہ آٹھ میں سے چھ ولید کواوردو مع ولید جمیع ورثہ محمود پرتقسیم ہوں اوراگرحامد بکر سے پہلے مراہوتو اڑتالیس سے چھتیس حصے وارثان سعیدہ کودیں باقی بارہ ولید کو اگروارث محمود مستحق نہ ہو ورنہ بارہ سے نوولید کواورتین ولید وغیرہ دیگرورثہ محمود پرمنقسم ہوں۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۰۹ :کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں، زید نے ایک بیٹا اورایک پوتاچھوڑا، ترکہ زیدمیں سے پوتے کوحصہ ملے گا یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : پوتے کوکچھ نہ ملے گا
لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلا ولی رجل ذکر۱؎
 (نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے۔ت) بیٹے کے ساتھ پوتے کوحصہ دلانا کفارہند کامسئلہ ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الفرائض     باب میراث الولد من ابیہ وامہ     قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۹۷)

(صحیح مسلم     کتاب الفرائض    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۴)
مسئلہ ۱۱۰ : مرسلہ حاجی احمداﷲ خاں صاحب ازپیلی بھیت ۱۶جمادی الاولٰی ۱۳۲۵ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ ہندہ بہو اپنی ایک حمیدہ اور ایک فہمیدہ اوردواخترایک جمیلہ اورایک سعیدہ اورایک پوتی کلثوم چھوڑ کرفوت ہوگئی اوربعد وفات ہندہ اس کی دختر سعیدہ بھی فوت ہوگئی بعد چاریوم کے اورہندہ کے دونوں فرزند اس کی حیات میں اس کی روبرو مرچکے تھے جن زوجہ حمیدہ اورفہمیدہ ہیں یعنی ان کے شوہر اورفہمیدہ کے بطن سے کلثوم ہے اور فہمیدہ حاملہ بھی اپنے شوہرسے ہے جواپنی ماں کے روبرو فوت ہوئی توایسی صورت میں جمیلہ اورکلثوم دونوں وراثت ہندہ پائیں گی یاصرف جمیلہ دخترہندہ اورحمل فہمیدہ قابل ہوگایانہیں؟
الجواب : برتقدیر عدم موانع ارث ووارث آخیر وصحت ترتیب اموات وتقدیم ماتقدم اگرموت ہندہ کو چھ مہینے ابھی نہ گزرے یاگزرگئے ہیں توجمیلہ کوتسلیم ہے کہ فہمیدہ اپنے شوہر سے حاملہ ہے توہندہ کا ترکہ اٹھارہ سہام پرتقسیم کرکے نوسہم فی الحال جمیلہ کو دے دیں اورباقی کو سہم موقوف رکھیں اگرفہمیدہ کے لڑکا پیداہوتو ان میں سے سات سہم اسے اوردوکلثوم کودیں اوراگرلڑکی ہویاکچھ نہ ہوتووہ نوسہم بھی جمیلہ کودے دیں کلثوم وغیرہ کوکچھ نہ دیں۔واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter