Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
56 - 145
مسئلہ ۱۰۶ : شہربریلی محلہ بھوڑون نوازی میاں ۱۵شعبان یوم جمعہ ۱۳۲۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے ساتھ تعین مہر بدون گواہوں کے ایجاب قبول کرلیا۔ اور زیدکاہندہ کوحمل رہ گیا اور زیدمرگیا، اب ہندہ دادخواہ ہے ترکہ زید سے اپنے اوراپنے لڑکے کے  حصہ کی۔ وارثان زیدکہتے ہیں کہ تیراحصہ نہیں چاہئے ہم تجھ کونہیں دیں گے۔بیّنواتوجروا۔
الجواب : اگرجس وقت زید نے ہندہ سے ایجاب وقبول کیاتھا دومردمسلمان یا ایک مرد دوعورتیں مسلمان وہاں موجودتھے اور ان کاایجاب وقبول سن رہے تھے اورسمجھتے تھے کہ یہ نکاح ہو رہاہے جب تونکاح ہوگیا، ہندہ اور اس کالڑکادونوں ترکہ زید میں اپنے اپنے حصے کے مستحق ہیں کچھ اس کی ضرورت نہیں کہ خاص کرکے دوشخصوں کوگواہی کے ساتھ نامزدکیاجائے جبھی تونکاح ہوا اوراگرواقع میں اس وقت زید وہندہ تنہاتھے یافقط ایک مرد یا صرف چندعورتیں یاکچھ غیرمسلمان کفار موجودتھے اورزید وہندہ نے ایجاب وقبول کرلیا تو نکاح نہ ہوا ہندہ ترکہ  کی مستحق نہیں مگربیٹاحصہ پائے گا
لان النکاح بغیر شھود فاسد لاباطل والصواب التفرقۃ بین فاسد النکاح وباطلہ کما تشھد بہ فروع جمۃ وماشاع علٰی السنۃ من ان النکاح لاینعقد الا بشھود فالمراد الصحۃ بقول الدر یجب مھرالمثل فی نکاح فاسد ھوالذی فقد شرطا من شرائط الصحۃ کشھود ۱؎ الخ ۔
کیونکہ گواہوں کے بغیرنکاح فاسد ہے باطل نہیں اورصحیح یہ ہے کہ فاسد اورباطل نکاح میں فرق کیاجائے گا جیسا کہ تمام فروع اس پرگواہ ہیں، اورعام لوگوں کی زبانوں پرجومشہور ہوگیا ہے کہ گواہوں کے بغیرنکاح منعقدنہیں ہوتا اس سے مراد نکاح کاصحیح ہوناہے۔ درکے قول کے مطابق کہ نکاح فاسد میں مہرمثل واجب ہوتا ہے اورنکاح فاسدوہ ہے جس میں صحت نکاح کی کوئی شرط مفقود ہو، جیسے گواہوں کی موجودگی الخ ۔
 (۱؎ الدرالمختار    کتاب النکاح    باب المہر    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۰۱)
وفی ردالمحتار عن النھر، ان النکاح لہ فی قولھم فرق۔۲؎ فسخ طلاق وھٰذا الدر یحکیھا تبائن الدار مع نقصان مھرکذا  فساد عقد وفقد الکفؤ ینعیھا الٰی قولہ وتلک الفسخ یحصیھا۳؎
ردالمحتار میں نہر سے منقول ہے کہ مشائخ کے قول میں نکاح کی جدائیاں کئی قسم پرہیں فسخ اورطلاق۔ اور موتی جیسی یہ نظم ان کوبیان کرتی ہے۔ پہلی جدائی اختلاف دار، دوسری مہر کی کمی کے ساتھ نکاح کرنا، اسی طرح تیسری عقد کافاسد ہونا اورچوتھی کفوکامفقود ہونا عورت کوموت کی خبر سناتاہے اس قول تک کہ ان سب جدائیوں کوفسخ جمع کرتاہے۔
 (۲؎ ردالمحتار   کتاب النکاح     باب الولی    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۳۰۸)

(۳؎ الدالمختار    کتاب النکاح     باب الولی    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۱۹۳)
قال فی ردالمحتار بعد مابدل الشطر الاول الٰی ماذکرنا لتصحیح الوزن، قولہ فساد عقد کان تزوج بغیر شھود۱؎ اھ  فھذا ایضا نص انہ اذا نکح بغیر شھودتکون الفرقۃ فیہ فسخا ومعلوم ان لافسخ الا بانعقاد ثم المرأۃ لاترث بالنکاح الفاسد بل الولد فی الدرالمختار یستحق الارث بنکاح صحیح فلاتوارث بفاسد ولاباطل اجماعا۲؎ قال الشامی قولہ، بفاسد ھو ما فقد شرط صحتہ کشھود ولاباطل کالمتعۃ۳؎ اھ  وفیہ اٰخر باب ثبوت النسب انہ نکاح باطل، فالوطء فیہ زنا لایثبت بہ النسب بخلاف الفاسد فانہ وطء بشبھۃ فیثبت بہ النسب ولذا تکون بالفاسد فراشا لابالباطل، رحمتی۱؎۔
ردالمحتارمیں قسم اول کو جہاں تک ہم نے بیان کیا وزن کی تصحیح کے لئے کچھ تبدیل کرنے کے بعد فرمایا کہ ماتن کاقول ''فسادعقد'' جیسے کسی نے گواہوں کے بغیرنکاح کیاہو  اھ ۔ تویہ بھی اس پرنص ہے کہ اگرگواہوں کے بغیرنکاح کیاتوجدائی بطور فسخ ہوگی اوریہ بات معلوم ہے کہ فسخ بغیر انعقاد کے نہیں ہوتا پھرنکاح فاسد کے ساتھ عورت وارث نہیں ہوتی بلکہ اولاد وارث ہوتی ہے۔ درمختار میں ہے کہ میراث کا استحقاق نکاح صحیح کے ساتھ ہوتاہے نکاح فاسد اورنکاح باطل کے ساتھ بالاتفاق میراث جاری نہیں ہوتی۔ شامی نے کہاکہ ماتن کے قول ''نکاح فاسد میں میراث جاری نہیں ہوتی'' میں نکاح فاسد سے مراد وہ نکاح ہے جس میں کوئی شرط صحت مفقود ہوجیسے گواہوں کاموجودہونا اور ''نہ نکاح باطل میں میراث جاری ہوتی ہے'' نکاح باطل کی مثال جیسے نکاح متعہ  اھ ۔ اوراسی میں باب ثبوت نسب کے آخرمیں ہے کہ نکاح متعہ باطل ہے اور اس میں وطی کرنازناہے جس سے نسب ثابت نہیں ہوتا بخلاف نکاح فاسد کے۔ کیونکہ وہ وطی ہے شبہہ کے ساتھ جس سے نسب ثابت ہوجاتاہے۔ اسی لئے عورت نکاح فاسد کے ساتھ فراش ہوجاتی ہے نہ کہ نکاح باطل کے ساتھ، رحمتی۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار        کتاب النکاح    باب الولی    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۳۰۸)

(۲؎ الدرالمختار     کتاب الفرائض     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۲۵۲)

(۳؎ ردالمحتار    کتاب الفرائض    داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۴۸۶)

(۱؎ ردالمحتار    باب ثبت النسب    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۶۳۳)
ہاں عورت اپنامہر بہرحال پائے گی
لحصول الوطء کما تقدم، واﷲ تعالٰی اعلم
 (وطی کے حاصل ہوجانے کی وجہ سے، جیسا کہ گزرچکاہے۔ اوراﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔ت)
مسئلہ ۱۰۷ :  ہدایت علی شہرکہنہ بریلی     ۱۴ذیقعدہ ۱۳۲۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے انتقال کیا اور اس کے دولڑکیاں تھیں، ایک لڑکی جو زید کی حین حیات میں فوت ہوگئی اس کاایک لڑکافی الحال موجود ہے اور ایک لڑکی اورتین چچازادبھائی عمر، بکر، خالد بعد فوت ہونے اپنے وارث چھوڑے، عمربڑے چچاکالڑکا اپنی شریف خاندانی منکوحہ ماں سے ہے اوردوسرے چچاکالڑکاایک چمارن غیرمنکوحہ عورت سے ہے جس کاختنہ بھی نہیں ہواہے، اورتیسرے چچاکالڑکا ایک رنڈی سے ہے جس کے نکاح کی تصدیق نہیں، اس صورت میں ترکہ کی تقسیم کیاہے؟بیّنواتوجروا۔
مکرریہ ہے کہ زیدمذکور کی تین بہنیں تھیں اور دس بسوہ اراضی زیدکو اور اس کی تینوں بہنوں کوموروثی باپ کے  ترکہ سے ملی تھی۔ ایک بہن زید کی لاولد فوت ہوگئی اوردوبہنیں وہ بھی زید کے سامنے فوت ہوگئیں مگران دوکے اولادہے ایک بہن کے ایک لڑکا، دوسری کے تین پسر اورایک دختر، تواب زید کے ان بھانجی بھانجوں کوترکہ زیدکاجوکہ اراضی تعدادی دس بسوہ ہے اور زید حین حیات میں اپنے بہنوں کے اس جائداد مذکورپر مالک اورقابض رہا اوربعد فوت اپنی تینوں بہنوں کے اس جائداد مذکورپرمالک اورقابض رہا کسی طرح تقسیم ہوگا یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : سائل نے ظاہرکیاکہ چماری کانکاح نہ ہواتھا، نہ یہ لڑکازید کے چچاکاتھا بلکہ چماری کے ساتھ آیا اور اس رنڈی کوپردہ نہ کرایاتھا بلکہ اخیرتک ویسی ہی بے پردہ پھرتی رہی اور اس کے نکاح کاکوئی ثبوت نہیں اگریہ بیان واقعی ہیں توزید کاترکہ حسب شرائط معلومہ دوحصے ہوں کرنصف دخترموجودہ زید اورنصف بڑے چچا کے لڑکے کو ملے گا جومنکوحہ سے ہے اورباقی دونوں لڑکے اوربھانجے اوربھانجیاں سب محروم ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter