Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
55 - 145
مسئلہ ۱۰۳ : ازبیرم نگر ڈاک خانہ شیرگڑھ ضلع بریلی    مرسلہ غلام صدیق صاحب مدرس ۱۰شوال ۱۳۲۲ھ

زیدکاانتقال ہوا، اس نے ایک زوجہ، چاربھانجیاں اورچارچچازادبہنیں  چھوڑیں۔ ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟ بیّنواتوجروا (بیان فرمائیے اجرپاؤگے۔)
26_28.jpg
برتقدیرعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم مہر ودیگردیون ووصایا ترکہ زیدکاسولہ سہام ہوکرچارسہم زوجہ اور تین تین ہربھانجی کوملیں گے اورچچازاد بہنیں کچھ نہ پائیں گی
من الصنف الثالث جزء ابوی المیت مقدم علی الصنف الرابع جزء جدیہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
تیسری قسم سے میت کے والدین کی جزء چوتھی قسم سے اس کے دادا کی جزء پرمقدم ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
مسئلہ ۱۰۴ : ازلاہور مرسلہ مولوی عبداﷲ صاحب ٹونکی     ۲۴شعبان ۱۳۲۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کاانتقال ہوا اور اس کی ایک منکوحہ ہے اور منکوحہ سے جوفوت ہوگئی ہے ایک لڑکا ہے۔ یہ ایسی صورت ہے کہ متوفی کی منکوحہ کوآٹھواں حصہ متوفی کے متروکہ مال سے پہنچے اس شخص متوفی پردَین بھی ہے کہ متوفی کے اس متروکہ سے دلوایاجاسکتاہے۔ پس اگرمنکوحہ مذکورہ اپنے آٹھویں حصہ کو دین کے ادا سے بچالے اوریہ چاہے کہ اولاد متوفی کے دَین کے بارکے متکفل ہوں اورمیراحصہ خالص رہے، پس ایسی صورت میں حکم شرعی کیاہے؟ قاضی شرع دین کاحساب اس آٹھویں میں بخوبی دے گا یااس پرجبرنہیں کرسکتا؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : عورت کامہر اگرباقی ہے تووہ بھی مثل سائردیون ایک دَین ہے اس کے ذریعہ سے حصہ رسد ثمن سدس نصف ثلث کم زائد جوکچھ پڑے اپنے لئے بچاسکتی ہے مگریہ خواہش کہ ترکہ سے اپناثمن حق زوجیت بذریعہ وراثت جداکرے اوردیون صرف ورثہ کے سہام پرڈالے
یہ محض باطل تغییر حکم شرع ہے۔
قال تعالٰی فلھن الثمن مماترکتم من بعد وصیۃ توصون بھا اودین۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: ان (بیویوں) کے لئے آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کونکالنے کے بعد جوتم کرجاؤ اورقرض کی ادائیگی کے بعد۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۲)
مسئلہ ۱۰۵ : ازقصبہ چاندپور ضلع بجنور متصل تھانہ مرسلہ مولوی حکیم سیدمشتاق حسین صاحب 

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین وعلمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے اپنے ترکہ میں کچھ جائداد موروثی چھوڑی تھی اور نو (۹) وارث چھوڑے تھے تین فرزندچھ دختران، اورہرکوئی اپنے حصے کاشرعاً مالک قراردیاگیامگرقبضہ اورتصرف فرزندوں کارہا اورہنوز ہے لیکن منجملہ دختران کے ایک دختر کے دوفرزندوں میں سے ایک فرزند جوعرصہ دس سال سے مفقود الخبر ہے اس کی زوجہ نے فی الحال انتقال کیا اس عورت کے حصہ کاجواپنے خاوند مفقودالخبر کے حصہ کی مالک متصورتھی اب کون قراردیاجائے اور کس کانام کتاب میں درج ہو، آیا مفقودالخبرکابھائی ہوگا یا اس عورت کابھائی ہوگا یاحقیقت عود کرکے حصہ داران مذکوران تین فرزند ان کوجواب تک مالک وقابض ہیں پہنچیں گے؟ بیّنواتوجروا۔ فقط
الجواب : سائل نے کچھ نہ بتایا کہ یہ مفقودالخبراپنی ماں کے انتقال سے پہلے مفقودہواتھا یابعد، اگر زندگی مادرمیں مفقودالخبرہوچکاتھا توہنوز اس کااستحقاق حصہ مادر میں ثابت ہیں، جتنے ورثہ مادر بحال موت وحیات مفقودالخبر ہرحال میں جس قدر یقینی پائیں گے اتنا ان کو دے کرباقی موقوف رکھاجائے گا یہاں تک کہ مفقودالخبر کی موت وحیات کاحال معلوم ہویا اس کی عمر س سترسال گزرجائیں اورکچھ حال نہ کھلے پس اگر وہ زندہ ثابت ہوتوحصہ خود اس کاہے اس کی زوجہ وغیرہ کے لئے وراثت نہیں اور اس مدت تک کچھ حال نہ ظاہرہو یاثابت ہوکہ وہ اپنی ماں سے پہلے مرچکاتھا توخود اس کے لئے وراثت نہیں اس کی زوجہ وغیرہ کے لئے وراثت کیسے ثابت ہوگی، اوراگرثابت ہوکہ ماں کے بعد مراتواگرموت زوجہ بھی اس کی موت سے پہلے ہے زوجہ کے لئے وراثت نہیں جو حصہ اسے ماں سے پہنچا اسی کے بھائی وغیرہ ان وارثوں کا ہے جوموت مفقود کے بعد زندہ تھے اوراگرمعلوم ہوکہ زوجہ  سے پہلے مراتو زوجہ بھی وارثہ ہے اورمفقود کے بھائی بھی وارث ہیں، جو حصہ حصہ مفقود میں زوجہ کوپہنچے اس کاوارث زوجہ کابھائی ہے یا اورجووارث زوجہ ہو، دیگروارثان مفقود کا اس میں حق نہیں، اواگر وہ شخص اپنی ماں کی موت کے بعد مفقودالخبرہوا تومتروکہ مادرمیں اس کاحصہ ثابت ہولیا اب وہ حصہ تقسیم نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اس کی موت وحیات ظاہرہویا اس کی پیدائش سے ستربرس گزرجائیں، اگرسترسال گزریں اور کچھ حال موت وحیات مفقودالخبر معلوم نہ ہوتوزوجہ مفقوداورنیزوہ تمام اشخاص جواس سترسال گزرنے سے پہلے مرچکے ہوں گے کچھ نہ پائیں گے، اس سترسال گزرنے کے وقت جو وارثان شرعی مفودکے لئے ہوں وہی مستحق ہوں گے اوراگرعمرکے سترسال گزرنے سے پہلے ظاہرہوجائے کومفقودزندہ ہے تومال اس کاہے زوجہ وغیرہا کوئی وارث نہیں، اوراگرظاہر ہوکہ موت زوجہ کے بعد مراتو زوجہ وارث نہیں مفقود کے بھائی وغیرہ جوورثہ موت مفقود پر رہے ہوں وہ پائیں گے، اوراگرظاہرہوکہ زوجہ سے پہلے مراتوجوحصہ زوجہ کوپہنچے اس کے وارث زوجہ کے بھائی وغیرہ ہیں نہ کہ دیگروارثان مفقود۔ اگرمفقود اپنی ماں کے بعد مفقود ہوا تو اس کے حصہ میں اسی کی مالکیت مندرج رہے گی یہاں تک کہ حال کھلے یاسترسال گزریں اورحسب تفصیل بالاورثہ کی طرف انتقال ہو، اوراگرموت مادر سے پہلے مفقود ہوتوجس قدرموقوف رکھاجائے گا اس میں ہنوز کسی کانام درج نہیں ہوسکتا بلکہ حصہ موقوفہ ازترکہ فلاں بانتظار فلاں مفقود تامدت بست سال ازیں تاریخ حاضراور پچاس سال کی عمرمیں مفقود ہوا توبجائے بست سال دہ سال لکھیں وعلٰی ہذالقیاس۔ واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter