فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
54 - 145
درشریفیہ فرمود الاخوۃ مع الاب لایجعلون کالموتٰی وان کانوا لایرثون معہ لان اھلیۃ الارث ثابتۃ لھم وانما لم یرثوا فی ھذہ الحالۃ لفقدان الشرط وھو عدم الاب۱؎۔
شریفیہ میں فرمایا کہ باپ کی موجودگی میں میت کے بھائیوں کو مردوں کی طرح نہیں بنایاجائے گا اگرچہ باپ کے ہوتے ہوئے وہ وارث نہیں بنتے کیونکہ ان کے لئے وارث بننے کی اہلیت ثابت ہے مگر اس حالت میں وہ اس لئے وارث نہیں بنتے کہ ان کے وارث بننے کی شرط مفقود ہے یعنی باپ کی عدم موجودگی۔(ت)
(۱؎ الشریفیۃ شرح السراجیۃ باب الحجب مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۵۰)
بلکہ حجب بجہۃ آں کہ اصحاب فرائض ہیچ نگزاشتند ودخل دراخراج او از زمرہ ورثہ است بہ نسبت حجب وارث اقرب زیراکہ آنجا فقد شرط است واینجا فقدان محل کہ عصبہ رامحل وراثت نیست مگرمالیکہ ازذوی الفرائض باقی ماند، درسراجیہ فرمود العصبۃ کل من یاخذ من الترکۃ ما ابقتہ اصحاب الفرائض۲؎ الخ ھٰذا ماعندی والعلم بالحق عند ربی، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
بلکہ عصبہ کا محجوب ہونا اس وجہ سے ہے کہ اصحاب فرائض نے اس کے لئے کچھ نہیں چھوڑا، اس کادخل عصبہ کو وارثوں کے زمرہ سے خارج کرنے میں زیادہ ہے بنسبت وارث اقرب کے وارث ابعد کومحجوب کرنے کے، کیونکہ وارث اقرب کے سبب سے ابعد کے محجوب ہونے میں شرط مفقود ہے جبکہ صورت مذکورہ میں عصبہ کے محجوب ہونے میں محل مفقود ہے۔ اس لئے کہ عصبہ کے لئے وراثت کامحل نہیں سوائے اس مال کے جواصحاب فرائض سے باقی بچ جائے۔ سراجیہ میں فرمایا کہ عصبہ اس شخص کوکہتے ہیں جو اصحاب فرائض سے بچاہوا ترکہ لے لے الخ، یہ وہ ہے جو میرے پاس تھا اورحق کا علم میرے رب کے پاس ہے۔ اﷲ سبحانہ، وتعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
مسئلہ ۱۰۰ : ازلکنؤمحلہ باغ قاضی مکان داروغہ منشی مظفرعلی مرسلہ حکیم محمدابراہیم صاحب بریلوی ثم اللکنوی رجب ۱۳۲۱ھ
بعدآرزوئے قدمبوسی معروض خدمت یہاں دربارہ ترکہ جھگڑا ہے، فرنگی محل کے علماء نے ترکہ زوجہ اورہمشیراورچچازادبھائی کے لڑکوں میں تقسیم کیاہے اور سگی بھتیجی اورچچازادبھائی کے لڑکوں میں تقسیم کیا ہے اور سگی بھتیجی اورچچازادبھائی کی لڑکیوں کومحجوب کیاہے مقصود صرف اس قدرہے کہ ان بھتیجوں کوکسی وجہ سے ترکہ پہنچتاہے جبکہ متوفی کے روبرو ان کے والد فوت ہوچکے ہیں فقط۔
الجواب : فی الواقع جب تک دادا پرادادا کی اولاد میں کوئی مرد باقی ہے اگرچہ کتنے ہی دور کے رشتے کاہو اس کے سامنے سگی بھتیجیاں کچھ نہیں پاسکتیں،
حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وسلم فرماتے ہیں :
الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فلاولی رجل ذکر۔ رواہ الائمۃ احمد ۱؎ والبخاری ومسلم والترمذی عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اصحاب فرائض کو ان کے مقررہ حصے دوجوباقی بچے وہ قریبی مرد کے لئے ہے۔ اس کو امام احمد، امام بخاری، امام مسلم اورترمذی نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیاہے۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الفرائض باب میراث الولد من ابیہ وامہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۹۷)
(صحیح مسلم کتاب الفرائض ۲ /۳۴ و جامع الترمذی ابواب الفرائض ۲ /۳۱)
(مسنداحمدبن حنبل ۱ /۳۲۵)
مسئلہ ۱۰۱ : ازشہرکہنہ ۲۵صفر۱۳۲۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس باب میں کہ ایک باپ اور دوماں سے تین بیٹے ہیں، پہلی بیوی سے سیدمحرم علی اوردوسری بیوی سے سیدوزیرعلی سیدمنیرعلی پیداہوئے اوردولڑکیاں پیداہوئیں۔ سیدمحرم علی صحبت شیعہ میں شیعہ ہوگئے اب ان کاانتقال ہوا موافق وصیت کے تجہیزوتکفین ان کی شیعوں نے کی اسباب ان کامالیت تخمیناً () کاہے یہ اسباب بموجب شرع شریف سید وزیرعلی ومنیرعلی اورہمشیران پانے کے مستحق ہیں یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : بیان سائل سے واضح ہواکہ سیدمحرم علی کے عقائد مثل عقائد اکثرروافض زمانہ حدکفرتک پہنچنا معلوم نہیں، نہ کبھی ان سے کوئی بات ایسی سنی۔ اورسید وزیرعلی وسیدمنیرعلی اوردونوں سیدانیاں غنی نہیں۔ پس صورت مذکورہ میں وہ مال انہیں چاروں بہن بھائیوں کوچھ حصے کرکے دیاجائے کہ دوحصے ہربھائی اورایک ایک ہربہن کوکہ اگرمحرم علی کے عقائد کفرتک نہ پہنچے ہوں جب تو ظاہر ہے کہ یہ بہن بھائی وارث ہیں اوراگرپہنچ گئے ہوں تو اس میں سے جتنا مال محرم علی کے زمانہ اسلام کاکمایاہوا ہو اس کے بھی وارث یہی بہن بھائی ہیں۔
فان کسب المرتد فی الاسلام لورثۃ المسلمین کما نص عی فی الدر۱؎ وغیرھا عامۃ الکتب۔
مرتد نے جوحالت اسلام میں کمایا وہ اس کے مسلمان وارثوں کے لئے ہے جیسا کہ دروغیرہ عام کتابوں میں اس پرنص کی گئی ہے(ت)
(۱؎الدالمختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۹)
اورجتنا مال زمانہ کفرکاکمایاہواہو وہ حق فقرائے مسلمین ہے اور یہ بہن بھائی بھی فقراء ہیں اغنیاء نہیں، توہرحال میں انہیں اس مال کااستتحقاق ہے،
ان پرمال تین حصے بناکرتقسیم کرنے میں یقینی طورپرذمہ داری سے فراغت ہے جیسا کہ توجان چکا ہے۔ اوراﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
مسئلہ ۱۰۲ : ازشہربریلی محلہ کہنہ منشی شرافت علی بتاریخ ۲۷ جمادی الاول ۱۳۱۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیا ن شرع متین اس مسئلہ میں کہ زیدقرضدارتھا اور اسی عرصہ میں فوت ہوگیاتوفرمائیے کہ اس کاترکہ قرضداروں کوملناچاہئے یاکہ بی بی کامہرملناچاہئے یاعزیزوں کوملناچاہئے اوربعد وفات اپنے شوہر کے بی بی نے کچھ قرضہ اپنازیورفروخت کرکے قرضداروں کودیاتھامگروارثوں نے قرض اداکرتے وقت کچھ نہیں کہاتھا، توفرمائیے کہ وقت تقسیم ترکہ کے پہلے قرضداروں کوملناچاہئے یاکہ مہر بی بی کاملناچاہئے یااوروارثوں کو، اور ترکہ اس قدرنہیں ہے جوکہ سب کو کافی ہوسکے اورمہربی بی کابھی ویساہی قرضہ ہے جیسا کہ دوسرے قرضداروں کایانہیں، اورمہرکا دعوٰی اگرعورت تین سال یاکچھ زائد تک نہ کرے وہ ساقط ہوگایانہیں؟
الجوا ب : مہرویساہی دین ہے جیسا کہ دیون۔ اورمہراورتمام دیون تقسیم ترکہ پرمقدم ہیں جب تک مہروغیرہ سب دیون ادانہ ہولیں وارثوں پرتقسیم نہ ہوگی۔ مہراوردیگردیون کوجب کہ جائداد کافی نہ ہوگی تومع مہرسب حصہ رسد اداہوں گے۔ مہرکادعوٰی تین برس تک عائد نہ کرنے سے مہرشرعاً ہرگز ساقط نہیں ہوتا یہ محض جھوٹ ہے۔ شوہر کاجوقرضہ عورت نے بطورخود اپنازیور بیچ کراداکیاہے وہ اب عورت کادین ترکہ پرہوگیا مہرکے ساتھ اس کابھی حصہ اس کے لئے لگایاجائے گا اگراس نے باقی وارثوں سے ترکہ میں واپس لینے کی شرط نہ کرلی ہو ہاں اگرعدم واپسی کی شرط کرلے کہ یہ میں اپنی طرف سے اداکرتی ہوں او رواپس نہ لوں گی توالبتہ اس قدرکی واپسی کا استحقاق نہ ہوگا، جامع الفصولین میں ہے :
ولواستغرقھا دین لایملکہا بارث الا اذا ابرأ المیت غریمہ اواداہ وارثہ بشرط التبرع وقت الاداء اما لوادی من مال نفسہ مطلقا بلاشرط تبرع او رجوع یحب لہ دین علی المیت فتصیرالترکۃ مشغولۃ بدینہ ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگرقرض ترکہ کا احاطہ کرلے توکوئی وارث بطورمیراث اس کامالک نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ قرضخواہ میت کوقرض سے بری قراردے دے یاکوئی وارث اپنے مال سے میت کاقرض اداکردے اورادائیگی کے وقت تبرع کی شرط لگادے لیکن اگروارث نے مطلقاً یعنی تبرع یارجوع کی شرط کے بغیراپنے مال سے قرض اداکردیا تو میت پراس وارث کاقرض لازم ہوجائے گا اورترکہ اس کے قرض میں مشغول ہوجائے گا۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل الثامن والعشرون اسلامی کتب خانہ پشاور ۲ /۳۲)