Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
53 - 145
ہمدرانست سئل فی رجل یرید الدعوی علی زید بمیراث امہ المتوفاۃ من اکثر من خمس عشرۃ سنۃ وزید یجحد ومضت ھذہ المدۃ من بلوغہ رشید اولم یدع بذٰلک ولامنعہ مانع شرعی وھما مقیمان فی بلدۃ واحدۃ فھل تکون دعواہ بذؒک غیرمسموعۃ للمنع السلطانی۔ الجواب نعم والقضاء یجوز تخصیصہ وتقییدہ بالزمان والمکان واستثناء بعض الخصومات کما فی الخلاصۃ، اشباہ وفیھا الحق لایسقط بتقادم الزمان کذا فی الجوھرۃ قال الحموی السلاطین الاٰن یامرون قضاتھم ان لایسمعوا دعوی بعد مضی خمس عشرۃ سنۃ سوعی الوقف والارث، ومقتضی ماافتی بہ الخیر الرملی ان الارث غیرمستثنی، وقد کتب احمد آفندی المھمنداری علی ثلثۃ اسئلۃ بانہ تسمع دعوی الارث ولایمنعھا طول المدۃ وکتب علی سؤال اٰخر انھا لاتسمع وصرح العلائی قبیل باب التحکیم باستثناء الوقف والارث، ونقل المنلاعلی عن فتاوٰی عل اٰفندی مفتی الروم عدم سماعھا، ونقل مثلہ السائحانی عن فتاوی عبداﷲ آفندی فقد اضطرب کلامھم کما تری فی مسألۃ الارث والظاھر انہ تارۃ ورد امر مع استثنائھا وتارۃ بدونہ۱؎ اھ  ملخصًا۔
اسی میں ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاگیا جوزید پر اپنی ماں کی میرا کادعوٰی کرناچاہتاہے جس کو فوت ہوئے پندرہ سال سے زیادہ عرصہ گزرچکاہے جبکہ زیداس سے انکارکرتاہے۔ یہ عرصہ اس شخص کے عاقل بالغ ہونے کے بعد گزراہے اور اس نے دعوٰی نہیں کیاحالانکہ کسی شرعی مانع نے اس کو دعوٰی سے نہیں روکا اور وہ دونوں ایک ہی شہر میں رہائش پذیرہیں۔ کیا بادشاہ کی طرف سے ممانعت کی وجہ سے اس کایہ دعوٰی نہیں سناجائے گا، جواب : ہاں، اورقضاء کوکسی خاص زمان ومکان کے ساتھ مختص اورمقیدکرنا اوربعض تنازعات کو اس سے مستثنٰی کردیناجائزہے جیسا کہ خلاصہ میں ہے (اشباہ)۔ اسی میں ہے کہ زیادہ زمانہ کے گزرنے سے حق ساقط نہیں ہوتا جیسا کہ جوہرہ میں ہے۔ امام حموی نے کہا کہ اب بادشاہ اپنے قاضیوں کوحکم دیتے ہیں کہ وہ پندرہ سال کاعرصہ گزرجانے کے بعد کسی دعوٰی کی سماعت نہ کریں سوائے میراث اوروقف کے، اورخیرالدین رملی کے فتوے کاتقاضا یہ ہے کہ میراث مستثنٰی نہیں ہے۔ احمدآفندی مہمنداری نے تین سوالوں پرلکھاکہ میراث کے دعوٰی کی سماعت کی جائے گی اورطوالت مدت اس سے مانع نہ ہوگی جبکہ ایک اورسوال تحریر فرمایا کہ میراث کے دعوٰی کی سماعت نہیں کی جائے گی۔ علائی نے باب التحکیم سے تھوڑا ساپہلے وقف اورمیراث کے مستثنٰی ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔ منلاعلی نے مفتی روم علی آفندی کے فتاوٰی سے اس کاقابل سماعت نہ ہونا نقل کیا ہے۔ اسی کی مثل سائحانی نے عبداﷲ آفندی کے فتاوٰی سے نقل کیاہے، ان کے کلا میں جیسا تودیکھ رہاہے میراث کے بارے میں اضطراب پایاگیاہے بظاہر کبھی تواس کے استثناء کے ساتھ امرواردہوا اورکبھی بغیر استثناء کے۔  اھ  ملخصًا۔(ت)
 (۱؎ العقود الدریۃ    کتاب الدعوٰی    ارگ بازار قندھارافغانستان    ۲ /۵)
درردالمحتار است لیس لھذا (یعنی منع الدعوی للسکوت مع الاطلاع علی التصرفات) مدۃ محدودۃ واما عدم سماع الدعوی بعد مضی خمس عشرۃ سنۃ اذا ترکت بلاعذر فذاک فی غیر ھٰذہ الصورۃ ۲؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
ردالمحتارمیں ہے کہ اس کے لئے (یعنی تصرفات پرمطلع ہوکرچپ رہنے کی سے دعوٰی کی ممانعت کے لئے) کوئی مدت متعین نہیں ہے۔ رہاپندہ سال کے گزرجانے کے بعد دعوٰی کی سماعت نہ ہونے کامعاملہ جبکہ بغیرعذرکے اس کوچھوڑاہوتو وہ اس صورت کے علاوہ میں ہے۔اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار        کتاب الوقف    فصل فیمایتعلق بوقف الاود        داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۴۴۶)
مسئلہ ۹۹ : ازشہر چاٹگام موضع نیاپارہ مرسلہ مولوی قدرت اﷲ صاحب آخرربیع الاول ۱۳۲۱ھ

چہ می فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ کہ شخصے وفات یافت یک زوجہ و والدہ ویک خواہر حقیقی ویک اُخت علاتی ویک برادراخیافی ویک ابن العم گزاشت وجمیع مال وصیت برائے ابن العم کردہ بود، پس حکم وصیت چیست وتقسیم ترکہ چسان۔ بینواتوجروا۔
کیافرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ ایک شخص فوت ہوا اوروارثوں میں ایک بیوی، ماں، ایک حقیقی بہن، ایک علاتی بہن، ایک اخیافی بھائی اورایک چچاکابیٹاچھوڑا ہے جبکہ اس نے تمام مال کی وصیت چچا کے بیٹے کے لئے کردی تھی، اس وصیت کاحکم کیاہے اور ترکہ کی رقم تقسیم کیسے ہوگی؟ بیان کرواجرپاؤگے۔(ت)
الجواب :  برتقدیر عدم مانع ارث ووارث آخر بعدادائے مہرزوجہ وغیرہ ہرچہ دین ذمہ متوفی باشد ازباقی ماندہ ایک ثلث بے اجازت ورثہ وبیشتر ازاں بشرط اجازت وارثان بالغین نافذالتصرف بابن العم وصیۃً دہند ودوثلث مابقی یاکم ترازاں ہرچہ ماند برپانزدہ بخش قسمت کردہ سہ سہم بزوجہ ودوبوالدہ وشش بخواہر عینیہ ودوباخت علاتیہ ودوبہ برادر اخیافی رسانند ایں درصورتیست کہ ہمہ ورثہ اصحاء بالغین زیادت برثلث تاحد معین کم از کل مال روا داشتہ باشند۔ واگرہیچ وارث اجازت ندادآنگاہ بعدادائے دیون بیش ازثلث بابن العم ندہند ودوثلث باقی تمام وکمال برہمہ حساب  بورثہ بخشش نمایند واگرہمہ اجازت وصیت درجمیع مال دادند پس بعداخراج دیون ہرچہ ماند جملہ بابن العم رسانند واگربعض اجازت تمام وصیت دادند وبعض نے یابعض نابالغ باشند آنگاہ حصہ اجازت دہندگان ہم بابن العم دہند واگراجازت بعض در زیادہ برثلث بہرتمام وصیت نبود مثلاً دردوثلث تنفیذ نمایند آنگاہ حصہ رسد ازسہام مجیزان کم کنند۔ ابن العم اینجا اگرچہ اہل میراث ست ووارث راوصیت بے اجازت دیگرورثہ روانبود فاما ازانجاکہ اہل فرض چیزے برائے عصبہ نگزاشتند بلکہ مال برایشاں نیزتنگ آمد کہ حاجت بعول افتاد ابن العم وارث بالفعل نماند وصیت کہ ممنوع ست برائے وارث بالفعل ست نہ برائے ہرآنکہ مجرد اہلیت ارث دارد کما یرشد الیہ صدرالحدیث ان اﷲ اعطی کل ذی حق حقہ الا لاوصیۃ لوارث الا ان یشاء الورثۃ ۱؎ آیا نہ بینی کہ وصیت برائے محجوب نیزازاہلیت واستحقاق ارث برکران نیست ہمیں تقدم دیگرے برو او را محجوب نمودہ است درتبیین الحقائق وردالمحتار وغیرہما است اوصی الاخیہ وھو وارث ثم ولد لہ ابن صحت الوصیۃ للاخ۲؎ الخ۔
میراث سے کسی مانع اور مذکورہ وارثوں کے علاوہ کسی وارث کے موجودنہ ہونے کی صورت میں بیوی کامہر وغیرہ جوبھی فرض متوفی کے ذمہ ہے اس کی ادائیگی کے بعد ترکہ کا ایک تہائی وارثوں کی اجازت کے بغیر اور اس سے زیادہ بالغ ورثاء جن کاتصرف نافذ ہوتاہے کی اجازت سے چچا کے بیٹے کو بطوروصیت دیں گے جبکہ باقی دوتہائی یااس سے کمترجتنا بھی بچاہے اس کو پندرہ حصوں پرتقسیم کرکے تین حصے بیوی کو، دوماں کو، چھ حقیقی بہن کو، دوعلاتی بہن کو اوردواخیافی بھائی کو دیں گے، یہ اس صورت میں ہے کہ تمام عاقل بالغ وارثوں نے ایک تہائی سے  زائد کل مال سے کم معین حد تک کوجائزقراردیاہو۔ اگرکسی وارث نے اجازت نہ دی توقرضوں کی ادائیگی کے بعد ایک تہائی سے زائد چچا کے بیٹے کو نہیں دیں گے اورباقی دوتہائی مکمل طورپرتمام وارثوں پران کے حصوں کے حساب  سے تقسیم کریں گے، اگرتمام وارثوں نے کل مال میں وصیت کی اجازت د ے دی تو قرضوں کی ادائیگی کے بعد جوکچھ باقی بچا وہ ساراچچا کے بیٹے کو دیں گے، اگربعض وارثوں نے تمام وصیت کی اجازت دی اوربعض نے نہ دی یابعض ورثاء نابالغ ہوں تواجازت دینے والوں کاحصہ بھی چچاکے بیٹے کودے دیں گے اوراگربعض وارثوں کی ایک تہائی سے زائد کی اجازت تمام وصیت کے لئے نہیں مثلاً وہ دوتہائی تک وصیت کونافذکریں تواس صورت میں اتنی مقدار تک اجازت دینے والوں کے حصوں میں کمی کی جائے گی۔ چچاکابیٹا یہاں پراگرچہ وارث بننے کی اہلیت رکھتاہے اوروارث کے لئے وصیت دیگر وارثوں کی اجازت کے بغیر جائزنہیں مگریہاں چونکہ ذوی الفروض نے عصبہ کے لئے کوئی شیئ نہیں چھوڑی بلکہ خود ان پرمال کے سہام تن پڑگئے جس کی وجہ سے عول کی ضرورت پیش آئی لہٰذا چچا کابیٹا بالفعل وارث نہ رہا اور وصیت کی ممانعت اس کے لئے ہے جو بالفعل وارث ہو نہ کہ محض وارث  بننے کی اہلیت رکھتاہو، جیساکہ اس حدیث کاابتدائی حصہ تیری رہنمائی کرتاہے کہ ''بیشک اﷲ تعالٰی نے ہرحقدار کواس کاحق عطافرمادیا۔ خبردار کسی وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں مگریہ کہ دیگرورثاء کی مرضی سے ہو''۔ کیاتونہیں دیکھتاکہ محجوب کے لئے بالاجماع وصیت جائزہے حالانکہ وہ بھی وارث بننے کی اہلیت واستحقاق سے خالی نہیں ہے بلکہ محض کسی دوسرے وارث کے اس پرمقدم ہونے کی وجہ سے یہ میراث سے محروم ہوگیا ہے۔ تبیین الحقائق اورردالمحتار وغیرہ میں ہے کہ کسی شخص نے اپنے بھائی کے لئے وصیت کی درانحالیکہ وہ وارث تھا پھرمیت کابیٹا پیداہوگیاتو بھائی کے لئے وصیت صحیح ہوگئی۔(ت)
 (۱؎ سنن ابن ماجہ     ابواب الوصایا    باب لاوصیۃ لوارث    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۹۹)

(کنزالعمال        حدیث ۴۶۰۶۳   مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۶/۱۵)

(۲؎ ردالمحتار        کتاب الوصایا    داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۴۱۶)
Flag Counter