فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
دوم نہی سلطان اسلام، این ست آنچہ درارث وغیرارث متخالف شود کاربرتحدید مدت ازپیشگاہ سلطنت قرارگیرد بے نظر بصددرتصرف واطلاق مدعی وعدم موانع وظہور تزویروغیرذلک، سرایں کارآنست کہ ولایت قضاۃ مستفاد ازجہت سلطان وقضابزمان ومکان واشخاص واشیاء ہرچہ سلطان مولی بآں تخصیص فرماید تخصیص پزیردپس اگرسلطان اسلام اعزاﷲ نصرہ قضاۃ خودرابعد مدتے معینہ مثلاً پانزدہ سال یاماہ یا فرضادو سہ روز ازسماع دعوی نہی کند قاضیان بعدآں زمان درحق آں دعاوی معزول باشند سماع نامقبول دریں اختلاف استثنائے وقف وارث ومال یتیم وغائب وغیرذلک ہمہ یابعض یامطلقاً عدم استثناء ازہمیں جہت داشتہ است اسلطان ہرزمان آنکہ مطلق داشت علماء مطلق گزاشتند وآنکہ استثناکرد استثناء فرمودند کہ اینجا کاربرزبان شہریارست وبس وازیں بیان بوضوح پیوست کہ دریں وادی نیزارث وغیراوہمہ متساوی الاقدام ست تاآنکہ اگرسلطانے قضاۃ خودرابعدیک سال ملاً خاص ازسماع دعوی ارث منع فرماید بالخصوص ہمیں دعوی ارث نامسموع باشد وغیراومسموع والعکس بالعکس ایں ست ریں مقام تحقیق انیق وباﷲ التوفیق سخن دریں باب درکتاب القضاء والدعاوی ازفتاوٰی خودم قدرے درازراندہ ام اینجا برتلخیص عباراتے چندقناعت ورزیدن برازراہ اسہاب واطناب گزیدن درفتاوٰی علامہ ابوعبداﷲ محمدبن عبداﷲ غزی تمرتاشی مصنف تنویرالابصار ست سئل عن رجل لہ بیت فی دارلیسکنہ مدۃ تزیدعلی ثلث سنوات ولہ جاربجابجانبہ والرجل المذکور یتصرف فی البیت المذبور بناء وعمارۃ مع اطلاع جارہ علی تصرفہ فی المدۃ المذکورۃ فھل اذا ادعی البیت بعد ماذکر تسمع دعواہ ام لا۔ اجاب لاتسمع دعواہ علی ماعلیہ الفتوٰی ۱؎۔
وجہ دوم بادشاہ اسلام کامنع کرنا۔ یہ ہے وہ صورت جس میں میراث اورغیرمیراث مختلف ہوتے ہیں۔ اسی میں کاروائی مدت کی حدبندی پرسلطنت کی طرف سے قرارپاتی ہے۔ اس میں تصرف کاصادرہونا، مدعی کاآگاہ ہونا، رکاوٹوں کاموجود نہ ہونا اور دھوکہ دہی کاظاہرہونا وغیرہ امورملحوظ نہیں ہوتے۔ اس کاروائی کارازیہ ہے کہ قاضیوں کی ولایت بادشاہ کی طرف سے حاصل شدہ ہے اورقضاء زمانے، مکان، اشخاص اور دیگرجن اشیاء کے ساتھ بادشاہ خاص کردے خاص ہوجاتی ہے، لہٰذا، اگربادشہ اسلام اﷲ تعالٰی اس کی نصرت کو غالب کرے اپنے قاضیوں کو ایک خاص مدت جیسے پندرہ سال یاپندرہ مہینے یابالفرض دوتین دن کے بعد دعوی کی سماعت سے منع کردے توقاضی صاحبان اس مدت کے بعد ان دعووں کے حق میں معزول ہوجاتے ہیں اور ان کی طرف سے دعوی کی سماعت نامقبول ہوتی ہے۔ اس مسئلہ میں میراث، وقف، مال یتیم اورمال غائب وغیرہ میں کل یابعض کے استثناء یامطلقا عدم استثناء کااختلاف اسی وجہ سے ہے کہ ہردور کے بادشاہ نے جس کو مطلق رکھا علماء نے بھی اس کومطلق رکھا اور بادشاہ نے جسے مستثنٰی کردیا علماء نے بھی اسے مستثنٰی کردیاکیونکہ یہاں کاروائی فقط بادشاہ کی زبان پرہے، اس بیان سے خوب وضاحت ہوگئی کہ اس وادی میں میرا اورغیرمیراث برابرہیں یہاں تک کہ اگربادشاہ مثال کے طورپر ایک سال کے بعد اپنے قاضیوں کو خاص دعوٰی میراث کی سماعت سے منع کردے توخاص اسی دعوی میراث کی ممانعت ہوگی اس کے علاوہ دیگردعووں کی سماعت ہوسکے گی اور اگربادشاہ اس کے برعکس حکم دے تومسئلہ کی صورت بھی برعکس ہوجائےگی۔ اس مقام پریہ نفیس تحقیق ہے اورتوفیق اﷲ تعالٰی ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس مسئلے سے متعلق میں نے اپنے فتاوٰی کی کتاب القضاء اورکتاب الدعاوی میں قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ اور یہاں پربطور خلاصہ چندعبارتوں پرقناعت اختیارکرناطوالت کاراستہ اپنانے سے بہترہے۔
(۱؎ العقود الدریۃ بحوالہ فتاوی الامام الغزی کتاب الدعوٰی ارگ بازار قندھارافغانستان ۲ /۴)
درفتاوی علامہ خیرالدین رملی استاذ صاحب درمختار است سئل فی رجل اشتری من اخر ستۃ اذرع من ارض بید البائع وبنی بھا بناء وتصرف فیہ ثم بعدہ ادعی رجل علی البانی المذکور ان لہ ثلثۃ قراریط ونصف قیراط فی المبیع المذکور ارثا عن امہ والحال ان امہ تنظر یتصرف بالبناء والانتفاع المذکورین ھل لہ ذلک ام لا۔ اجاب لاتسمع دعواہ لان علمائنا نصوا فی متونھم وشروحھم وفتاواھم ان تصرف المشتری فی المبیع مع اطلاع الخصم ولوکان اجنبیا بنحوالبناء والغرس والذرع یمنعہ من سماع الدعوی قال صاحب المنظومۃ اتفق اساتیذنا علی انہ لاتسمع دعواہ ویجعل سکوتہ رضا للبیع قطعا للتزویر والاطماع والحیل و التلبیس وجعل الحضوروترک المنازعۃ اقرارا بانہ ملک البائع۱؎۔
علامہ ا بوعبداﷲ محمد بن عبیداﷲ غزی تمرتاشی مصنف تنویرالابصار کے فتاوٰی میں ہے کہ ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاگیاجس کے پاس کسی گھرکاایک کمرہ ہے جس میں رہتے ہوئے اس کوتین سال سے زائد عرصہ ہوچکاہے۔ اس گھر کی ایک جانب شخص مذکور کا ایک پڑوسی رہتاہے اور شخص مذکوراس کمرے میں جس کاذکرگزرچکاہے عمارت و تعمیر وغیرہ کاتصرف تین سالہ مدت میں کرتارہا جس پراس کاپڑوسی آگاہ تھا۔ کیا مدت مذکورہ کے بعد اگروہ پڑوسی اس کمرے پردعوٰی کرے تو اس کادعوٰی سناجائے گا یانہیں؟ آپ نے جواب دیامفتٰی بہ قول کے مطابق اس کادعوٰی نہیں سناجائے گا۔ صاحب درمختار کے استاد علامہ خیرالدین رملی کے فتاوٰی میں ہے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاگیا جس نے بائع کے زیرقبضہ زمین میں سے چھ ہاتھ زمین خرید کر اس کو تعمیرکیا اور اس میں تصرف کیا، پھربعدازاں ایک شخص نے تعمیر کرنے والے شخص مذکورپردعوٰی کردیا کہ اس فروخت شدہ زمین میں ساڑھے تین قیراط میرے ہیں جومجھے ماں کی میراث سے ملے ہیں، حالانکہ اس کی ماں عمارت بنانے اورانتفاع مذکورکے تصرف کودیکھتی رہی۔ کیا اس کو ایساکرنے کاحق ہے یانہیں؟ توآپ نے جواب دیا اس کادعوٰی نہیں سناجائے گا کیونکہ ہمارے علماء نے اپنے متون، شروح اورفتاوٰی میں نص فرمائی ہے کہ خصم کے مطلع ہوتے ہوئے مبیع میں مشتری کاتصرف اگرچہ وہ اجنبی ہو جیسے عمارت بنانا، درخت لگانا اور کھیتی باڑی کرنا اس کے دعوٰی کی سماعت سے مانع ہوتاہے۔ صاحب منظومہ نے کہاہمارے اساتذہ اس پرمتفق ہیں کہ اس کادعوٰی نہیں سناجائے گا اوردھوکہ دہی، لالچ، حیلے اورفریب کے خاتمہ کے لئے اس کی خاموشی کو بیع کے ساتھ رضامندی قراردیاجائے گا۔ اس کی بوقت بیع وہاں موجودگی اورمنازعت کے ترک کرنے کو اس بات کااقرار قراردیاجائے گا کہ وہ بائع کی ملک ہے۔
(۱؎ الفتاوٰی الخیریۃ کتاب الدعوٰی دارالمعرفۃ بیروت ۲ /۸۷ و ۸۸)
ہمدران ست سئل فیما اذا ادعی زید علی عمرو محدود انہ ملکہ ورثہ عن والدہ فاجابہ المدعی علیہ انی اشتریتہ من والدک وعمّک وانی ذوید علیہ من مدۃ تزید علٰی اربعین سنۃ وانت مقیم معی فی بلدۃ ساکت من غیر عذر یمنعک عن الدعوٰی ھل یکون ذٰلک من باب الاقرار بالتلقی من مورثیہ اجاب نعم دعوی تلقی الملک من المورث اقرار بالملک لہ ودعوی الانتقال منہ الیہ فیحتاج المدعی علی الی بیّنۃ وصار المدعی علیہ مداعیاً وکل مدعٍ یحتاج الی بیّنۃ ینوّربھا دعواہ ولاینفعہ وضع الید المدۃ المذکورۃ مع الاقرار المذکورولیس من باب ترک الدعوی بل من باب المواخذۃ بالاقرار ومن اقربشیئ لغیرہ اخذ باقرارہ ولو کان فی یدہ احقابا کثیرۃ لاتعدوھذامالا یتوقف فیہ۱؎۔
اسی میں ہے اس صورت کے بارے میں سوال کیاگیا جب زید نے عمرو پر ایک احاطہ سے متعلق دعوٰی کیاکہ یہ اس کاہے جو اسے اپنے والد سے بطورمیراث ملاہے۔ مدعی علیہ(عمرو) نے جواب دیا کہ میں نے یہ احاطہ تمہارے والد اور چچا سے خریداتھا اورچالیس سال سے زائد عرصہ ہوا کہ میں اس پرقابض ہوں جبکہ تم میرے ساتھ اسی شہر میں رہائش پذیرہونے کے باوجود اب تک دعوٰی سے خاموش رہے ہو حالانکہ کوئی عذرموجود نہ تھا جوتجھے دعوٰی سے روکتا۔ کیایہ عمرو کی طرف سے اس احاطہ کو زید کے مورثوں (باپ اورچچے) سے حاصل کرنے کا اقرارہوگا؟ توآپ نے جواب دیا کہ ہاں مورث سے مِلک حاصل کرنے کادعوٰی، مورث کی ملکیت کااقرار اور اس سے مقر کی طرف ملکیت کے منتقل ہونے کادعوٰی ہے۔ چنانچہ مدعی علیہ گوہ پیش کرنے کامحتاج ہوگا اس صورت میں مدعی علیہ مدعی بن جائے گا۔ اورہرمدعی ایسے گواہ پیش کرنے کامحتاج ہوتاہے جس سے اس کا دعوٰی ثابت ہو۔ مذکورہ بالااقرار کے ہوتے ہوئے مدت مذکورہ تک عمرو کاقابض رہنا اس کوکچھ نفع نہ دے گا۔ یہ ترک دعوٰی کے باب سے نہیں بلکہ اقرار کی وجہ سے مواخذہ کے باب سے ہے۔ جوشخص دوسرے کے لئے کسی شیئ کے بارے میں اقرار کرلے تو وہ اپنے اقرار کے سبب سے پکڑاجائے گا اگرچہ وہ شیئ سالہاسال سے اس کے قبضہ میں ہو۔ اس مسئلہ میں توقف نہیں کیاجائے گا۔(ت)
(۱؎ فتاوی الخیریۃ کتاب الدعوٰی دارالمعرفۃ بیروت ۲ /۸۰ و ۸۱)
درعقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ ست رجل تصرف زماناً فی ارض ورجل اٰخر راٰی الار والتصرف ولم یدّع ومات علی ذٰلک لم تسمع بعد ذٰلک دعوی ولدہٖ۱؎ اھ ولم یقیدوہ بمدۃ کما تری لان مایمنع صحۃ دعوی المورث یمنع صحۃ دعوی الوارث ثم البیع غیرقید بل مجرد الاطلاع علی التصرف مانع من الدعوی ولیس مبنیا علی المنع السلطانی بل ھو حکم اجتھادی نص علی الفقہاء۲؎ کما رأیت ملقطاً ۔
عقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے کہ ایک شخص نے کچھ عرصہ تک ایک زمین میں تصرف کی اور ایک دوسرا شخص اس کو زمین میں تصرف کرتے ہوئے دیکھتارہا اوردعوٰی نہیں کیا اوراسی حالت میں وہ فوت ہوگیا تو اب اس کی اولاد کادعوٰی نہیں سناجائے گا اھ مشائخ نے اس حکم کو کسی مدت کے ساتھ مقیدنہیں کیاجیسا کہ تودیکھ رہاہے۔ اورجو شیئ مورث کے دعوٰی کی صحت سے مانع ہو وہ وارث کے دعوٰی کی صحت سے بھی مانع ہوتی ہے۔ پھربیع کی کوئی قید نہیں بلکہ محض تصرف پرمطلع ہونا دعوی سے مانع ہے اور یہ حکم بادشاہ کی طرف سے ممانعت پرمبنی نہیں ہے بلکہ یہ اجتہادی حکم ہے جس پرفقہأنے نص فرمائی ہے جیسا کہ میں نے دیکھاہے ملتقطا۔
(۱؎ العقود الدریۃ کتاب الدعوٰی ارگ بازار قندھارافغانستان ۲ /۳) (۲؎العقود الدریۃ کتاب الدعوٰی ارگ بازار قندھارافغانستان ۲ /۴)