Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
51 - 145
فصل ششم
مسئلہ ۹۸ : ازکلکتہ تال کمیدن باغ نمبر۴۱ مسجدمانک دفتری مرسلہ محمدعبدالکریم صاحب ۳رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ

پس پیشکشی قدمبوسی وناصیہ فرسائی دست بستہ معروض میدارد کہ ازروئے کرم فرمائی ومرحمت گستری دریں مسئلہ مرسلہ بہ تحقیق خود حکم فرمایند اگرحکم موافق مسطور دست دہد ازروئے فیض رسانی برجملہ جہان بر قرطاس مرقوم دستخط نمودہ فیض المرام بخشند۔ مسئلہ اینست کہ چہ مے فرمایند علماء دین رحمکم اﷲ تعالٰی اندریں مسئلہ کہ حق ارث بتقادم زمان ساقط شود یانہ؟ بینواتوجروا۔
قدموں کوچومنے اوران پرپیشانی رکھنے کی پیشکش کے بعد دست بستہ گزارش ہے کہ کرم اورمہربانی فرماتے ہوئے اس ارسال کردہ مسئلہ میں اپنی تحقیقی کے مطابق فیصلہ صادرفرمائیں، اگرجناب والا کافیصلہ اس تحریر کے موافق ہو توتمام جہان پرفیض رسانی کی رو سے تحریر کردہ کاغذ پردستخط کرکے حاجت برآری فرمائیں، مسئلہ یہ ہے، کیافرماتے ہیں اے علماء دین اﷲ تعالٰی آپ پررحم فرمائے اس مسئلہ میں کہ زیادہ عرصہ گزرجانے سے میراث کاحق ساقط ہوجاتاہے یانہیں؟ بیان کرواجردئیے جاؤگے۔(ت)
الجواب : حق ارث بتقادم زمان ساقط نمی شود کما فی ردالمختار، لوامر السلطان بعدم سماع الدعوی بعد خمس عشرۃ سنۃ فسمعھالم ینفذ قلت فلاتسمع الاٰن بعدھا الابامر الا فی الوقف والارث و وجود عذر شرعی وبہ افتی المفتی ابوالسعود فلیحفظ۱؎۔
الجواب: میراث کاحق زیادہ عرصہ گزرجانے سے ساقط نہیں ہوتا، جیسا کہ درمختارمیں ہے، اگربادشاہ پندرہ سال کاعرصہ گزرجانے کے بعد قاضی کو دعوٰی کی سماعت نہ کرنے کاحکم دے۔ پھرقاضی اس کی سماعت کرے تووہ نافذ نہ ہوگا۔ میں کہتاہوں اب بادشاہ کی طرف سے ممانعت کے بعد اس کے حکم کے بغیر سماعت نہ کی جائے گی سوائے وقف، میراث اور کسی عذرشرعی کے پانے کی۔ مفتی ابوالسعود نے یہی فتوٰی دیاہے، اس کویادرکھنا چاہئے ۔
 (۱؎ الدرالمختار        کتاب القضاء    فصل فی الحبس    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۸۱)
وفی ردالمحتار قال السید الحموی فی حاشیۃ الاشباہ ان السلاطین الآن یامرون قضاتھم فی جمیع الایاتھم ان الایسمعوادعوی بعد مضی خمس عشرۃ سنۃ سوی الوقف والارث۲؎ اھ  وکما فی ردالمحتار عن الحامدیۃ انہ کتب علٰی ثلثۃ اسئلۃ انہ تسمع دعوی الارث ولایمنعھا طول المدۃ۳؎ وفی ردالمحتار عن الاشباہ وغیرھا ان الحق لایسقط بتقادم الزمان  اھ  ولذا قال فی الاشباہ ایضا ویجب علیہ سماعھا  اھ  ای یجب علی السلطان الذی نھٰی قضاتہ عن سماع الدعوی بعد ھذہ المدۃ ان یسمعھا بنفسہ او یامر بسماعھا کی لایضیع حق المدعی والظاھر ان ھذا حیث لم یظھر عن المدعی امارۃ التزویر۱؎۔مخفی مبادہ روایات فقہیہ کہ درباب عدم سماع دعوٰی ب عد ازمرورپانزدہ سال یاسی سال یاسی وسہ سال یاسی و شش سال وارد مخصوص بصورتے ست کہ دعوی متضضمن برعلامت تزویر یاحیلہ باشد چنانچہ ازعبارات ردالمحتار وغیرہ مفہوم می شود وھذا حکم الکتاب واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب۔
ردالمحتارمیں ہے سیدحموی نے الاشباہ کے حاشیہ میں کہاکہ اب بادشاہ اپنی تمام ولایتوں میں پندرہ سال گزرجانے کے بعد وقف اورمیراث کے علاوہ دعوٰی کی سماعت کرنے سے قاضیوں کو روک دیتے ہیں  اھ  جیساکہ ردالمحتار میں حامدیہ سے منقول ہے، انہوں نے تین مسئلوں کے جواب میں لکھا کہ میراث کے دعوی کی سماعت کی جائے گی اور مدت کادرازہونا اس سے مانع نہیں ہوگا۔ ردالمحتار میں اشباہ وغیرہ سے منقول ہے کہ زیادہ عرصہ گزرجانے کی وجہ سے حق ساقط نہیں ہوا  اھ ۔ اسی لئے اشباہ میں بھی کہاہے کہ اس پردعوٰی کی سماعت واجب ہے۱ ھ یعنی جس بادشاہ نے  پندرہ سال کاعرصہ گزرنے کے بعد اپنے قاضیوں کودعوی کی سماعت سے منع کیا ہے خود اس پرواجب ہے کہ وہ بذات کود دعوی کی سماعت کرے یا اس کی سماعت کا حکم دے تاکہ مدعی کاحق ضائع نہ ہو۔ ظاہریہی ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب مدعی کی طرف سے دھوکہ بازی کی کوئی علامت ظاہرنہ ہو۔ پوشیدہ نہ رہے کہ پندرہ سال، تیس سال، تینتیس سال یاچھتیس سال گزرنے کے بعد دعوی کی سماعت نہ کرنے سے متعلق فقہی روایات اس صورت کے ساتھ مخصوص ہیں کہ دعوی دھوکہ دہی اورحیلہ سازی کی علامات کومتضمن ہوجیساکہ ردالمحتار وغیرہ کی عبارتوں سے معلوم ہوتاہے۔ یہ کتاب کاحکم ہے، اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے اور اسی کی طرف کرآناہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار       کتاب القضاء    فصل فی الحبس   داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۴۲)

(۳؎ردالمحتار       کتاب القضاء    فصل فی الحبس   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۴۳)

(۱؎ ردالمحتار        کتاب القضائ    فصل فی الحبس    داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۴۳)
الجواب

اللھم ھدایۃ الحق والصواب ایں جادومقام ست یکے نفس الامر وابانت حکمش ہمان ست کہ ہیچ حق ثابت نامقید بوقتے خاص ارث باشد خواہ غیر اومطلقاً اجماعاً بتقادم زمان زنہار ساقط نشود چنانکہ درجوھرہ واشباہ وغیرہما منصوص شد وخود در ثبوت او آیات و احادیث وعقیدہ اجماعیہ مجازات یوم الدین برمظالم وتبعات بسندہ است اگرعنداﷲ بمروردہورحق ساقط شدے روزجزاجریان مجازات ومطالبہ تبعات مبادلہ حسنات ووضع سیئات بمیان نیامدے کہ بندہ رابربندہ حقے نماندہ گوازروئے تعدی حدودالٰہیہ ظالم مطالب بحقوق الٰہیہ باشد باطل اجماعاً بلکہ عنداﷲ ہرچند ظالم برظلم متمادی رودظالم ترشود نہ آنکہ تمادی ایام ظلم برخیزدوحق بناحق آمیزد۔
اسے اﷲ حق اوردرستگی کی ہدایت عطافرما، اس جگہ دومقام ہیں، مقام اول نفس الامر، اس کے حکم کی وضاحت یہ ہے کہ کوئی ثابت حق جو کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہ ہوچاہے میراث ہو یاکوئی اور مطلقاً بالاتفاق زیادہ عرصہ کے گزرنے سے ہرگز ساقط نہیں ہوتا، جیسا کہ جوہرہ اوراشباہ وغیرہ میں منصوص ہے۔ اس کے ثبوت کے لئے کود قرآنی آیات، احادیث اوریہ اجماعی عقیدہ کافی ہے کہ قیامت کے دن حقوق العباد سے متعلق ظلم اورزیادتیوں کابدلہ دلوایاجائے گا، اگرمدتوں کے گزرنے سے اﷲتعالٰی کے نزدیک حق ساقط ہوجاتا تو قیامت کے دن بدلہ دلوانے اورحقوق العباد کے مطالبے نیکیوں کے بدلے اورگناہوں کے مٹانے کاقانون جاری نہ ہوتاکیونکہ کسی بندے کادوسرے پرکوئی حق نہ رہتا اگرچہ حدودالٰہیہ تعدی کرنے سے حقوق اﷲ کے بارے میں ظالم سے مواخذہ ہوتا، اوریہ بھی بالاتفاق باطل ہے، بلکہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک ظالم جتناعرصہ ظلم  پر قائم رہتاہے زیادہ ظالم ہوتا جاتاہے، ایسانہیں ہے کہ زیادہ دنوں کاگزرنا ظلم کواٹھادے اورحق کوناحق کے ساتھ ملادے،
دوم سماع دعوی بدارالقضاء۔ اینجا نیزنفس مرورزمان فی حدودذاتہ اصلاً جمع باثبات منع نیرزد نہ درارث ونہ درغیرآں کائنا ماکان بلکہ منع از دوجہت خیزدیکے سدباب تزویر وقع اطماع فاسدہ ایں حکم حکم اجتہادی فقہائے کرام وائمہ اعلام ست ومتون وشروح وفتاوائے بدمذہب باوناطق وارث وغیرارث ہمہ در ویکساں ومتوافق وعندالتحقیق متقید نیست بہیچ مدتے ممدودوعدتے معدود صورتش آنست کہ مثلاً زیدرادارے ست کہ شراءً یاارثاً یابہیچ وجہ ازوجوہ تملک نزد اوست واو زمانے دروتصرفات مالکانہ مے کرد وعمروعاقل وبالغ ہمدراں شہرساکن وبرآں تصرفات آگاہ بودوموانع ارجاع دعوے یکسرمفقودحالاخود اویاوارث او برمی خیزد ونزاع مے انگیزد وگردن دعوٰی رمی فرازدکہ ای خانہ (خانہ) ازاں منست زینہار نشنوند گودعوی ازجہت ارث گاش زیراکہ سکوت تامدتے صالحہ باوصف انعدام موانع ووجود مقتضی اعنی اطلاع برتصرفات مالکانہ زید قرینہ واضحہ است برانکہ دار دارزیدست ودع۴وی عمروازراہ کیدلاجرم آں سکوت رادررنگ اقراراوبملک زید فراگرفتہ مانع دعوٰی دانند آنچنانکہ اگرصراحۃً مقرشدے کہ دارازاں زیدست وبازبے توفیق معقول وقابل قبول بدعوی برخاستے تناقض گریبانش گرفتے ودعوی پیش نہ رفتے کذا ھذا وپیداست کہ درایں باب ادعائے ارث وغیرارث ہمہ یکساں ست اللّٰھمّ مگرآنجا کہ زید مقرباشد بآنکہ دراملک مورث عمرو بودہ است ومن ازوشراءً یاہبۃً گرفتہ ام آنگاہ امردعوٰی بازگونہ گرد و زید مدعی شود وعمرو مدعاعلی وتصرفات زیدتا زمانے مدید سودش نکند کہ دعوٰی رابینہ بایدنہ مجرد تصرفات۔ کمالایخفی علی اھل التصرف۔
مقام دوم  قاضی کی کچہری میں دعوٰی کی سماعت۔ اس میں بھی محض زیادہ زمانے کا گزرنا اپنی ذات کے اعتبارسے بالکل اس لائق نہیں کہ سماع دعوٰی کی ممانعت کاباعث بنے، چاہے میراث کادعوٰی ہویااس کے علاوہ کسی بھی شیئ کا۔ بلکہ ممانعت دووجہوں سے پیداہوتی ہے، وجہ اول دھوکہ دہی کادروازہ بندکرنا اورفاسد لالچوں کاختمہ کرنا۔ یہ حکم فقہاء کرام اورمشہورائمہ عظام کااجتہادی حکم ہے۔ جیسا کہ مذہب کے متون، شروح اورفتاوے اس پرشاہد ہیں۔ میراث اورغیرمیراث اس حکم میں برابرہیں۔ تحقیق کی رو سے یہ حکم کسی لمبی مدت اورخاص عرصے کے ساتھ مقیدومشروط نہیں ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ زید کاایک گھرہے جو اس نے خریدایامیراث میں پایایاملکیت کی وجوہ میں سے کسی اوروجہ سے اس کے پاس ہے، وہ اس میں ایک عرصے تک مالکانہ تصرفات کرتارہا۔ عمروجوکہ عاقل وبالغ اوراسی شہرمیں رہائش پذیرتھا زید کے تصرفات پرآگاہ تھا۔ دعوی کرنے میں کوئی رکاوٹ بالکل موجودنہ تھی(اس کے باوجود وہ چپ رہا) اب عمرو خود یا اس کاکوئی وارث اٹھ کر جھگڑا پیداکرتاہے اورگردن دعوٰی بلند کرتے ہوئے کہتاہے اورگردن دعوٰی بلند کرتے ہوئے کہتاہے کہ یہ گھرمیراہے تویہ دعوٰی ہرگز قابل سماعت نہیں اگرچہ میراث کی جہت سے دعوٰی ہو اس لئے کہ دعوی کی صلاحیت رکھنے والی مدت میں چپ رہناجبکہ دعوٰی میں کوئی رکاوٹ موجودنہ تھی اوردعوی کامقتضٰی بھی موجودتھا یعنی زیدکے مالکانہ تصرفات سے آگاہی، یہ واضح قرینہ ہے کہ گھر زیدکاہے اورعمروکادعوی بطور مکرہے۔ یقینا اس کی خاموشی کوزید کی ملکیت کااقراراقراردیتے ہوئے مشائخ کرام دعوٰی سے مانع سمجھتے ہیں، جس طرح کہ اگروہ صراحۃً اقرارکرتاکہ یہ گھرزیدکاہے پھرکسی معقول اورقابل قبول توجیہ کے بغیراس گھرپردعوٰی کے لئے اٹھ کھڑاہوتا تو ٹکراؤ اس کاگریبان پکڑلیتا اور اس کے دعوی میں پیشرفت نہ ہوتی اور یہ بھی ایسے ہی ہے۔ ظاہرہے کہ اس باب میں میراث اورغیرمیراث کادعوی سب برابرہیں۔ اے اﷲ! مگراس صورت میں کہ زید اس بات کااقرار کرتاہو کہ یہ گھر عمروکے مورث کی ملکیت میں تھا میں نے اس سے خریدلیایابطورہبہ حاصل کیاہے تو اس وقت دعوی کامعاملہ الٹ ہوجائے گا کہ زید مدعی اورعمرو مدعاعلیہ بن جائے گا، اور عرصہ درازتک زیدکااس میں تصرفات کرنا اس کوفائدہ نہیں دے گا۔ کیونکہ دعوی کے لئے گواہ درکارہیں نہ کہ محض تصرفات۔ جیساکہ اہل تصرف پرپوشیدہ نہیں ہے۔
Flag Counter