فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
تاسعاً : بلکہ لازم آید کہ اخ عینی محروم باشد واینکہ بصد واسطہ دورترازوست ارث یابد مسئلہ زوج وام وبنت وبنت الابن و ابن ابن ابن ابن ابن الاخ از دوازدہ شدہ بسی وشش تصحیح پذیرد نہ بشوھر وشش بمادر ہیجدہ بدختر و ودوبابن پسر برادر ویک بدختر پسرواگرجائے اوخودبرادرآید مسئلہ بسیزدہ عول کند وبرادرعینی تہی دست رود، اذلاشیئ بعصبۃ مع العول، اگر زاعمے زعم فرماید کہ اخ نیز تعصیب بنت الابن نماید خود نصوص صریحہ اسقاط اعلی السفلی را خلاف کردہ باشد۔
نویں دلیل: بلکہ لازم آتاہے کہ حقیقی بھائی محروم ہوجائے اورجو اس سے سَو درجے دور ہے وہ میراث پائے۔ خاوند، ماں، بیٹی، پوتی اوربھائی کے پوتے کے پوتے کا مسئلہ بارہ سے بنے گا جس کی تصحیح چھتیس سے ہوگی۔ نوحصے خاوند کو، چھ ماں کو، اٹھارہ بیٹی کو اوردوبھائی کے پوتے کواور ایک پوتی کو ملے گا۔ اوراگربھائی کے پوتے کی جگہ خودبھائی آتاتو مسئلہ تیرہ کی طرف عول کرتا اورحقیقی بھائی خالی ہاتھ جاتا، اس لئے کہ عول کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں ملتا، اگرکوئی گمان کرنے والا یہ گمان کرے کہ بھائی بھی پوتی کوعصبہ بناتاہے تووہ خود ان صریح ان نصوص کی خلاف ورزی کرنے والاہوگا جن میں اوپر والے وارث کے نیچے والے کوساقط کرنے کابیان ہے۔
عاشراً : اگر ازیں ہمہ قطع نظر راکارفرمایم تابرتقدیر تعمیم غلام بایں ابنائے اعمام دلیلے کہ برمسئلہ آوردہ اندزینہار منطبق نباید وسخن بہ تناقض ونہافت گراید کلام سیدقدس سرہ شنیدن دارد کہ می فرماید ان بنات الابن اذاکان بحذائھن غلام سواء کان اخاھن اوابن عمھن فانہ یعصبھن کما ان الابن الصلبی یعصب البنات الصلبیۃ و ذلک لان الذکرمن اولاد الابن یعصب الاناث اللاتی فی درجتہ اذا لم یکن للمیت ولد صلبی بالاتفاق فی استحقاق جمیع المال فکذا یعصبھا فی استحقاق الباقی من الثلثین مع الصبتین والیہ ذھب عامۃ الصحابۃ وعلیہ جمہورالعلماء وقال ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ لایعصبھن بل الباقی کلہ لابن الابن ولاشیئ لبناتہ، اذ الانثی انما تصیر عصبۃ بالذکر اذاکانت ذات فرض عند الانفراد عنہ کالبنات والاخوات واما اذا لم تکن کذلک فلاتصیربہ عصبۃ کبنات الاخوۃ والاعمام مع بنیھم واجیب بان بنت الابن صاحبۃ فرض عند الانفراد عن ابن الابن لکنھا محجوبۃ بالصلبیتین ھٰھنا الاتری انھا تاخذ النصف عند عدم الصلبیات بخلاف بنات الاخ والعم اذ لافرض لھا عند انفرادھا عن ابنھما فلاتصیر عصبۃ بہ۱؎
دسویں دلیل: اگر اس تمام سے قطع نظر کاکروائی کریں توغلام (لڑکے) کوعام مان کر چچاکے بیٹوں کواس میں شامل کرنے کی صورت میں وہ دلیل جسے انہوں نے ذکرکیاہے وہ مسئلہ پرمنطبق نہیں ہوگی اورکلام ٹکراؤ اور کمزوری کی طرف مائل ہوجائے گا۔ سیدقدس سرہ، کاکلام سننے کے لائق ہے، فرماتے ہیں کہ پوتیوں کے برابر جب کوئی لڑکاہو چاہے وہ ان کابھائی ہو یا ان کے چچاکابیٹاہو تو وہ انہیں عصبہ بنادیتاہے جیسا کہ صلبی بیٹاصلبی بیٹیوں کوعصبہ بنادیتا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ میت کے بیٹے کی اولاد میں سے جومذکر ہووہ میت کی صلبی اولاد نہ ہونے کی صورت میں اپنے درجے کی لڑکیوں کوتمام مال کے استحقاق میں بالاتفاق عصبہ بنادیتاہے اوریونہی دوصلبی بیٹیوں کی موجودگی میں دوتہائی سے بچ جانے والے مال کے استحقاق میں انہیں عصبہ بنادیتاہے۔ عام صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین اسی طرف گئے ہیں، اورجمہورعلماء کابھی یہی موقف ہے۔ حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ وہ پوتیوں کوعصبہ نہیں بناتا بلکہ باقی تمام مال پوتے کے لئے ہوگا پوتیوں کوکچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ مذکر کے ساتھ مل کر مونث اسی صورت میں عصبی بنتی ہے جب وہ اس مذکر سے الگ ہوکر ذی فرض ہوتی ہو جیسے بیٹیاں اوربہنیں۔ اور اگروہ اس طرح نہ ہوتو مذکرکے ساتھ مل کرعصبہ نہیں بنتی جیسے بھائیوں اور چچوں کی بیٹیاں ان کے بیٹوں کے ساتھ۔ اور اس کاجواب یوں دیاگیاہے کہ پوتی پوتے سے الگ ہوکرذی فرض ہوتی ہے لیکن یہاں پروہ دوصلبی بیٹیوں کی وجہ سے محروم ہے۔ کیاتونہیں دیکھتا کہ صلبی بیٹیوں کی عدم موجودگی میں پوتی نصف مال لیتی ہے بخلاف بھائی اورچچا کی بیٹیوں کے کہ ان کے لئے ان دونوں کے بیٹوں سے الگ ہوکر کوئی فرضی حصہ نہیں ہوتالہٰذا بھائی اورچچا کی بیٹیاں ان کے بیٹے کے ساتھ مل کرعصبہ نہیں بنیں گی۔
(۱؎ الشریفیۃ شرح السراجیۃ فصل فی النسائ مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۲۲و۲۳)
ایں کلام از سرتاپاشاہد عدل است کہ مرادبغلام ہمان ذکرے ازاولاد ابن ست کلام درہمان ست ودلیل ہم بران وخلاف ابن مسعودھم دراں ورنہ ہیچکس قائل نیست کہ ابن ابن الاخ حاجب بنات ابن است و ھم درنفس سخن تصریح ست کہ ابن عم مربنت عم خودش راتعصیب نتواں کرد۔ لاجرم مرادبہ تعمیم سواء کان اخاھن اوابن عمھن ہمیں قدرست کہ خواہ آں پسرپسرہموں پسرباشد کہ ایں دختردختراوست یاپسرپسردیگر کہ عم ایں دختربودنہ ازبنی اعمام ایں زنان باشد معصب ایناں بود اگرچہ ازسلسلہ جزئیت میت بیرون بود ھذا مما لایقول بہ احد، بایں تقدیر بحمداﷲ حکم مسئلہ نیز نقش بکرسی نشست وھم بوضوح پیوست کہ کلام درمختاروشریفیہ صراحۃً راغم زعم زاعم ست نہ آنکہ بوفاقش حاکم ست بازاگر بایں ہمہ ہا متسلی نشوند تا تصریح ازعالم تنقیح بشنوند،
یہ کلام سرسے لے کرپاؤں تک عادل گواہ ہے کہ غلام (لڑکے) سے مراد وہی مذکرہے جومیت کے بیٹے کی اولادمیں سے ہو۔ گفتگو اسی میں ہے، دلیل بھی اسی پرہے اورابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ کااختلاف بھی اسی میں ہے، ورنہ کوئی شخص اس بات کاقائل نہیں کہ بھائی کاپوتامیت کی پوتیوں کے لئے حاجب ہوتاہے، نیز نفس کلام میں تصریح موجودہے کہ چچا کابیٹا اپنے چچا کی بیٹی کوعصبہ نہیں بناسکتا تویقینا اس تعمیم سے کہ چاہے وہ ان پوتیوں کابھائی ہو یا ان کے چچا کابیٹاہو جس کی یہ بیٹی ہے یاکسی دوسرے بیٹے کابیٹاہو جو اسی بیٹی کاچچاہو۔ یہ مرادنہیں کہ ان عورتوں کے چچاکے بیٹے ان کوعصبہ بنانے والے ہوتے ہیں اگرچہ وہ میت کی جزء کے سلسلہ سے باہرۃوں۔ یہ وہ بات ہے جس کاکوئی بھی قائل نہیں۔ اس تقدیرپراﷲ تعالٰی کی حمدوثناء کے ساتھ مسئلہ کاحکم بھی کرسی پرمنقش ہوگیا نیزخوب وضاحت کے ساتھ راسخ ہوگیا کہ درمختار اورشریفیہ کاکلام گمان کرنے والے کے گمان کے صراحۃً خلاف ہے نہ کہ اس کی موافقت کاحکم کرنے والاہے۔ پھر اگر اس تمام کے باوجود ان کی تسلی نہ ہو حتی کہ وہ کسی عالم کی واضح تصریح صاف طورپرسن لیں۔
علامہ شامی قدس سرہ السامی درعقود الدریہ فرماید سئل فی امرأۃ ماتت عن بنتین وابن اخ شقیق وعن بنتی ابن و خلفت ترکۃ کیف تقسم الجواب للبنتین الثلثان والباقی لابن الاخ الشقیق وابن الاخ لایعصبہ اختہ ولامن ھی اعلی منہ او اسفل فضلا عن کونہ یعصب بنتی الابن ؎ ولیس ابن الاخ بالمعصب من مثلہ اوفوقہ فی النسب نعم ابن الابن یعصب بنت الابن۱؎۱ھ ملخصا مسئلہ بکمال وضوحش ازایضاح بے نیاز بودایں مابہ اطناب چہ شالیست اماچہ تواں کرد کہ بعد عروض وہم ازالہ اش ناگزیرمے بایست ولما بلغنا الی الدلیل الخامس وقفنا علی زلۃ ھٰھنا صدرت من قلم العلامۃ حامد آفندی فاکدذلک عزمنا علی الاکثار۔ لینجلی الحق انجلاء الاھلۃ اذا امیط عنھا کل غیم وعلۃ وبربّنا نخص الحمد کلہ والصلوۃ والسلام علٰی صاحب الملۃ محمد واٰلہ وصحبہ والجلۃ آمین، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
علامہ شامی قدس سرہ السامی عقودالدریہ میں فرماتے ہیں۔ اس عورت کے بارے میں سوال کیاگیا جودوبیٹیاں، حقیقی بھائی کاایک بیٹا اوردوپوتیاں چھوڑکرفوت ہوئی اس نے کچھ ترکہ چھوڑا وہ کیسے تقسیم کیاجائے گا؟ جواب: بیٹیوں کو دوتہائی ملے گا اورباقی حقیقی بھائی کے بیٹے کوملے گا۔ بھائی کابیٹا اپنی بہن کوعصبہ نہیں بناتا اور نہ ہی اپنے سے اوپر کے درجے والی کویانچلے درجے والی کو چہ جائیکہ وہ میت کی پوتیوں کوعصبہ بنائے۔ اوربھتیجاعصبہ بنانے والانہیں ہے نسب میں اپنی مثل کو اورنہ اپنے سے اوپر والی کو۔ ہاں پوتاپوتی کو عصبہ بناتاہے الخ تلخیص۔ مسئلہ کامل طورپرواضح ہونے کی وجہ سے وضاحت کرنے سے مستغنی تھا۔ اس طویل بحث کی کیاضرورت تھی، مگرکیا کیاجاسکتاہے کہ وہم کے عارض ہونے کے بعد اس کاازالہ ضرورہوناچاہئے۔ جب ہم پانچویں دلیل تک پہنچے توہم اس لغزش پر آگاہ ہوئے جویہاں علامہ حامدآفندی کے قلم سے سرزدہوئی۔ تو اس نے ہمارے عزم کو مزیدوضاحت کرنے پر مضبوط کیا تاکہ حق اس طرح ہوجائے جس طرح بادل اورگردوغبار کے دورکئے جانے کے بعد چاند روشن ہوتے ہیں۔اورہم اپنے رب کے لئے ہی تمام تعریفوں کومختص کرتے ہیں، درودوسلام ہوصاحب ملت پرجن کانام نامی اسم گرامی محمدہے اور آپ کی آل پراورصحابہ پر اور سب پر،
آمین! واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ کتاب الفرائض ارگ بازار قندھار افغانستان ۲ /۳۴۷)