Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
5 - 145
مسئلہ ۹ :ماہ صفر۱۳۰۸ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید مذہب اہل تسنن پرفوت ہوا اور اس نے ایک دختر سنی زوجہ اولٰی متوفیہ کے بطن سے اور ایک زوجہ مدخولہ نومسلم شیعہ اور ایک برادر خالہ زاد کہ زید کا بہنوئی ہے اور دوبھانجی حقیقی مذہب سنی اورایک بھائی چچا زاد شیعہ اور ایک نواسہ شیعہ اورداماد شیعہ یعنی باپ اس نواسہ کاکہ جس کی ماں حیات میں زید متوفی کی مرگئی تھی وارث چھوڑے جائداد مقبوضہ مملوکہ زیدمتوفی جمیع ورثہ پر ازروئے فرائض کس طرح تقسیم ہوناچاہئے اور کون کون ذی حق جائداد مذکور میں ہوسکتا ہے؟ بیّنواتوجروا
الجواب :  تحریرات مجتہد لکھنؤ وتجربہ خواص وعوام شیعہ سے ثابت کہ اس زمانے کے شیعہ ضروریات دین کے منکرہیں توہرگز نہ ان سے مناکحت جائز، نہ وہ نکاح شرعاً نکاح، نہ وہ اہلسنت کا ترکہ پاسکیں، نہ اہل سنت کو ان کامورث کہہ سکیں۔
عالمگیری میں ہے :
یجب اکفار الروافض فی قولھم برجعۃ الاموات الی الدنیا وبقولھم فی خروج امام باطن (الٰی من قال) وھٰؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الاسلام واحکامھم احکام المرتدین کذا فی الظھیریۃ۱؎۔
رافضیوں کوکافر قرار دیناواجب ہے ان کے اس قول کی وجہ سے کہ مردے دنیا کی طرف لوٹ آتے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ امام باطن کاظہورہوناہے (یہاں تک کہ کہا) اور یہ قوم ملت اسلام سے خارج ہے اور ان کے احکام مرتدوں جیسے ہیں۔یونہی ظہیریہ میں ہے(ت)
 (۱؎ الفتاوی الھندیۃ کتاب السیر  الباب التاسع  نورانی کتب خانہ پشاور  ۲ /۲۶۴)
اسی میں ہے :
اختلاف الدین ایضا یمنع الارث۲؎۔
دین کا اختلاف بھی میراث سے مانع ہے(ت)
 (۲؎الفتاوی الھندیۃ    کتاب الفرائض     الباب الخامس       نورانی کتب خانہ پشاور  ۶ /۴۵۴)
پس کل ترکہ زید برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وعدم وارث اُخروتقدیم یایقدم کالدین والوصیۃ، صرف اس کی دختر سنیہ کو ملے گا۔ اور یہ مدخولہ اورچچازاد بھائی کہ شیعہ ہیں کچھ نہ پائیں گے نہ خالہ زاد بھائی بھانجوں نواسے داماد کاکوئی حق ہے ہاں اگر یہ مدخولہ یاچچازاد بھائی دونوں کسی ضروری دین کا انکار نہ کرتے ہوں تو بشرائط مذکورہ ترکہ آٹھ سہم پرمنقسم ہوگا ایک زوجہ اورچاردختر اورتین ابن العم کو ملیں گے اور صرف ابن العم منکرنہ ہو تو دوحصہ ہوکر دختر وابن العم کو نصفانصف پہنچے گا زوجہ کچھ نہ پائے گی، اور صرف زوجہ منکرنہ ہوتو آٹھ پرتقسیم ہوکرایک سہم زوجہ اورسات دختر کو پہنچیں گے ابن العم محروم رہے گا۔
واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۰ :ازاوجین    علاقہ گوالیار    مکان میرخادم علی صاحب اسسٹنٹ     مرسلہ محمدیعقوب علی خاں ۲۰صفر۱۳۰۸ھ

چہ فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ کہ زید بابرادر خرد حقیقی شریک حال بودہ مکان وزیور ونقدوظروف واشیائے خانہ داری تعدادی تخمینا پانزدہ صد روپیہ ہردوبشرکت بزوربازوئے خودفراہم کردند ودر خوردونوش  معیشت ہیچ امتیازے نداشتند وعلاوہ اموال مذکورہ صدبیگھہ زمین ازسرکار خاص بنام زیدمعاف شد الادرستی  وآبادی زمین مزبورہ وتیاری چاہ بزر مشترک شد  وآمدنی سالیانہ بشرکت صرف می نورحالا زید زوجہ ثانیہ لاولد  و زوجہ ثالثہ ویک پسروسہ دخترازبطن زوجہ اولٰی کہ پیش از زید مردہ بود وشادی اینہا  زیدبحیات خودش کرد وسہ پسراز بطن زوجہ ثالثہ کہ ہرسہ بحیات زید ناکتخدا  ماندند وہمیں یک برادر  وارث گزاشتہ وفات یافت پس ترکہ زیدچسان انقسام یابد وزمینے کہ تنہا بنام زید معاف ست دراں برادر دیگر را ہم حصہ است یاخیرودر اولاد زوجہ اولٰی وثالثہ بوجہ کتخدا زدن بحیات زیدازرف زیدوناکتخذا ماندن فرقے در ارث خواہد بود یانے۔ بیّنواتوجروا۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اپنے چھوٹے حقیقی بھائی کے ساتھ تھا اور دونوں نے شراکت میں اپنے زوربازو سے مکان، زیور، نقدی، برتن اورخانہ داری کی دیگراشیاء جن کی مالیت تقریباً پندرہ سو روپے ہے جمع کیں اورکھانے پینے میں وہ دونوں آپس میں کوئی فرق نہیں رکھتے، احوال مذکورہ کے علاوہ سوبیگھہ زمین حکومت نے خاص زید کے نام الاٹ کی مگرمذکورہ زمین کی آبادی اورکنویں کی تیاری مشترکہ طور پرصَرف ہوتی رہی، اب زید مرگیا اور اس نے اپنی دوسری بیوی بے اولاد چھوڑی اورپہلی بیوی جو زید سے پہلے مرگئی سے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں چھوڑیں جن کی شادی زید نے اپنی زندگی میں کردی، اور تیسری بیوی چھوڑی جس سے زید کے تین بیٹے ہیں جو زید کی زندگی میں کنوارے رہے اور ایک یہ بھائی چھوڑاہے، توا ب زید کاترکہ کیسے تقسیم ہوگا اور جو زمین تنہا زید کے نام پرالاٹ ہوئی اس میں دوسرے بھائی کابھی حصہ ہے یانہیں؟ اور اس کی پہلی اور تیسری بیویوں کی اولاد میں اس وجہ سے کوئی فرق ہوگا یانہیں کہ پہلی بیوی کی اولاد زید کی زندگی میں زید کے خرچ سے شادی شدہ ہوئی جبکہ تیسری بیوی کی اولاد کنواری رہی۔ بیان کرواجردئیے جاؤگے(ت)
الجواب :  زمینے کہ تنہا بنام زیدمعاف شدخاص ملک اوست برادر دیگر را دران استحقاقے نیست فان الاقطاع انما یکون لمن اقطع لہ کما ان الموھوب لایملکہ الا من وھب لہ ودرآبادی وتیاری چاہ صرف زرمشترک مستلزم ملک برادر درعین زمین نیست کما لا یخفٰی اما آنچہ بحالت اتحاد ویکجائی بزور بازوئے خود پیدا کردند اگرہردوبکسب واحد بروجہ شرکت اشتغال میداشتند گویکے عمل بیش می کرد  ودیگرے کم یا آنچہ بہ مکاسب جداگانہ خود ہا می اند وختند خلط می کردند ویک جا صرف می نمودند کہ درملک ہردو تفاوت معلوم نیست پس ہمہ آنچہ بہم حاصل کردہ اند نصفاً نصف علی السویہ ملک ہردوبرادرباشد فی الفتاوی الخیریۃ سئل فی اخوین سعیھما واحد  وعائلتھما واحدۃ حصلا بسعیھما اموالا من مواش وغیرھا فھل جمیع ماحصلاہ بسعیھما وکسبھما مشترک بینھما تجب قسمتہ بینھما مناصفۃ ام لااجاب نعم ۱؎  اھ ملخصا،
جو زمین اورزید کے نام الاٹ ہوئی وہ خاص اسی کی ملکیت ہے۔ دوسرے بھائی کا اس میں کوئی حق نہیں، اس لئے کہ زمین کے قطعات اس کے لئے ہوتے ہیں جس کے لئے الاٹ کئے جائیں۔ جیسا کہ موہوب کامالک سوائے اس کے کوئی نہیں ہوتا جس کے لئے ہبہ کیاگیا اورزمین کی آبادی اورکنویں کی تیاری میں مشترکہ مال کاخرچ ہوناعین  زمین میں بھائی کی ملکیت کامقتضی نہیں جیسا کہ پوشیدہ نہیں، لیکن جو کچھ انہوں نے اتحاد واتفاق کی حالت میں اپنے زوربازو کے ساتھ کمایا اگردونوں ایک ہی کسب میں بطور شرکت مشغولیت رکھتے تھے اگرچہ ایک کام زیادہ کرتاہو اوردوسراکم یاوہ الگ الگ کسب کرکے جوکچھ  جمع کرتے اس کو اکٹھا کرلیتے اور اکٹھا خرچ کرلیتے اس طور پر کہ دونوں کی ملکیت میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا پس جو کچھ انہوں نے حاصل کیاہے وہ ان دونوں بھائیوں میں مساوی طورپرنصف نصف ہوگا۔ فتاوٰی خیریہ میں ہے دوبھائیوں کے بارے میں سوال کیاگیاجن کا کاروبار ایک ہے اور ان دونوں کاکنبہ بھی ایک ہے ان دونوں نے اپنی محنت سے مویشی وغیرہ کی صورت میں کچھ مال جمع کیا، تو کیا جو کچھ انہوں نے اپنی محنت اور کسب سے حاصل کیا وہ ان دونوں کے درمیان مشترک ہے اس کی تقسیم ان دونوں کے درمیان نصف نصف واجب ہوگی یانہیں؟ جواب دیا کہ ہاں  اھ تلخیص۔
 (۱؎ الفتاوی الخیریۃ   کتاب الشرکۃ     دارالمعرفۃ بیروت     ۱ /۱۱۲)
فی ردالمحتار یؤخذ من ھذا ماافتی بہ فی الخیریۃ، فی زوج امرأۃ وابنھا اجتمعا فی دار واحدۃ واخذ کل منھما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبھما ولایعلم التفاوت ولاالتساوی و لاالتمییز فاجاب بانہ بینھما سویۃ وکذٰلک لواجتمع اخوۃ یعملون فی ترکۃ ابیھم ونما المال فہو بینھم سویۃ ولواختلفوا فی العمل والرای۲؎ اھ وناکتخدا ماندن بعض اولاد بحیات مورث موجب زیادت حصہ ایشاں برکتخدایان نیست فان الارث انما یکون بعدالموت اوعندہ علٰی اختلاف العلماء لاقبلہ بالاجماع فما وصل الٰی بعضھم من قبل علٰی جھۃ تبرع من المورث لایمکن ان یحسب من الارث وسببہ ھی الوصلۃ المعلومۃ وھم فیھا سواء پس دریں صورت کل زمین معافی ونیمہ ایں اموال کہ درآنہا شرکت ہردوبرادر ست برتقدیر عدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امورمقدمہ علی المیراث مثل اداء مہر ہرسہ زوجہ و دیگر دیون وانفاذ وصایا بریک صد وہفتاد وشش سہام انقسام یافتہ یازدہ سہم بہر زن موجودہ وبست وہشت بہرپسر و چاردہ بہردختر رسد وبرادررادرترکہ زید حظے نیست واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم بالصواب۔
ردالمحتار میں ہے اس سے اخذ کیاجائے گا وہ جوخیریہ میں ایک عورت کے شوہر اور ان کے بیٹے کے بارے میں فتوٰی دیاہے جودونوں ایک گھرمیں اکٹھے رہتے ہیں ہرایک ان میں سے الگ کمائی کرتاہے پھر وہ دونوں اپنی کمائی یکجا کرلیتے ہیں اور اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں برابری اور کمی بیشی کا پتہ چلتاہے توجواب دیاکہ وہ ان دونوں کے درمیان برابر ہوگا۔ اسی طرح کچھ بھائی اکٹھے ہوکر اپنے باپ کے ترکہ میں کام کرتے ہیں اور مال بڑھ جاتاہے تو وہ ان کے درمیان برابربرابر ہوگا اگرچہ وہ عمل اور رائے میں مختلف ہوں، اور بعض اولاد کاباپ کی زندگی میں کنوارہ رہ جانا اس بات کا سبب نہیں بنتا کہ ان کاحصہ شادی شدگان پر زیادہ ہوجائے کیونکہ میراث موت کے بعد یاموت کے وقت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ علماء کے مختلف قول ہیں۔ موت سے پہلے میراث بالاجماع ثابت نہیں ہوتی۔ اور جوکچھ بعض اولاد کو مورث کی طرف سے موت سے قبل بطور تبرع موصول ہوا اس کو میراث میں سے شمار کرناممکن نہیں اور اس کا سبب وہی ملاپ اورتعلق ہے جو معلوم ہے اور وہ سارے اس میں برابر ہیں، چنانچہ اس صورت میں الاٹ شدہ  تمام زمین اور دونوں بھائیوں کے درمیان مشترکہ اموال میں سے نصف اس تقدیر  پرکہ میراث کے موانع میں سے کوئی موجود نہ ہو اور زید کے ورثاء صرف یہی مذکورہ افراد ہوں اور جن امور کومیراث سے مقدم کرنا لازم ہے مثلاً تینوں بیویوں کامہر، دیگرقرضوں کی ادائیگی اور وصیتوں کے نفاذکے بعد جومال بچے اس کے ایک سو چھہتر حصے کرکے گیارہ گیارہ حصے ہرموجودہ بیوی کواٹھائیس۲۸ حصے ہربیٹے کو اور چودہ حصے ہربیٹی کو پہنچیں گے بھائی کے لئے زید کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں۔ اﷲ سبحانہ، وتعالٰی درستگی کوخوب جانتاہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار  فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت  ۳ /۳۴۹)
Flag Counter