Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
49 - 145
ثالثا :علماء جائیکہ عصبات بغیرہن راشمارند بنت الابن رابقید تعصیب ابن الابن آرند درہندیہ ازحاوی القدسی آورد عصبۃ بغیرہ وھی کل انثی تصیر عصبۃ بذکریوازیھا وھی اربعۃ البنت بالابن وبنت الابن بابن الابن والاخت لاب وام باخیھا والاخت لاب باخیھا۱؎ در متن تنویر وشرح اودرمختار ست تصیر عصبۃ بغیرہ البنات بالابن وبنات الابن بابن الابن وان سفلوا۲؎۔ امام حسین بن محمدسمعانی درخزانۃ المفتین فرماید الثانی وھو العصبۃ بغیرہٖ ووھواربع من النساء یصرن عصبۃ باخوھن فالبنات یصرن عصبۃ بالابن وبنات الابن بابن الابن والاخوات لاب وام باخیھن والاخوات لاب باخیھن۔۳؎۔
تیسری دلیل: علماء کرام نے جس جگہ عصبہ بغیرہٖ کوشمارکیاہے پوتی کے ساتھ یہ قید لائے ہیں کہ پوتا اس کو عصبہ بنائے۔ ہندیہ میں حاوی القدسی سے نقل کیاہے عصبہ بغیرہٖ ہروہ مؤنث ہے جو اپنے برابر کے مذکر کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہے ۔ اور وہ چار عورتیں ہیں (۱) بیٹی بیٹے کے ساتھ (۲) پوتی پوتے کے ساتھ (۳) حقیقی بہن اپنے بھائی کے ساتھ (۴) علاتی بہن اپنے بھائی کے ساتھ ۔ متن تنویر  اور اس کی شرح درمختار میں ہے : بیٹیاں بیٹے کے ساتھ اور پوتیاں پوتے کے ساتھ اگرچہ وہ نیچے تک ہوں عصبہ بغیرہ بن جاتی ہیں ۔ امام حسین بن محمد سمعانی خزانۃ المفتین میں فرماتے ہیں : عصبہ کی دوسری قسم عصبہ بغیرہ ہے ، وہ چار عورتیں ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں ،چنانچہ  بیٹیاں  بیٹے کے ساتھ، پوتیاں پوتے کے ساتھ ، حقیقی بہنیں اپنے بھائی کے، اور علاتی بہنیںاپنے بھائی کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں
 (۱؎ الفتاوی الہندیہ     کتاب الفرائض     الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور    ۶ /۴۵۱)

(۲؎ الدرالمختار شرح تنویرالابصار   کتاب الفرائض    فصل فی العصبات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۵۷)

(۳؎ خزانۃ المفتین          کتاب الفرائض     قلمی نسخہ         ۲ /۲۵۲)
رابعاً : غیرابن وابن الابن وان سفل واخ عینی یاعلاتی ہیچ ذکرراقوت تعصیب نیست تاآنکہ ابن الاخ یاعم وابن الاعم ہم خواھر عینیہ خودش راعصبہ نتواں نمود۔ علامہ محمد بن علی دمشقی درہمیں درمختار فرمود قال فی السراجیۃ؎

ولیس ابن الاخ بالمعصب 		من مثلہ اوفوقہ فی النسب

بخلاف ابن الابن وان سفل فانہ یعصب من مثلہ اوفوقہ ممن لم تکن ذات سھم ویسقط من دونہ۱؎۔امام سمعانی درخزانۃ المفتین متصل بہ عبارت مذکورہ بالا فرماید والباقی العصبات ینفرد بالمیراث ذکورھم دون اخواتہم وھم اربعۃ ایضا العم وابن العم وابن الاخ وابن المعتق۔۲؎
چوتھی دلیل: بیٹے، پوتے اگرچہ نیچے تک ہوں، حقیقی بھائی یاعلاتی بھائی کے سوا کوئی مذکر کسی کو عصبہ بنانے کی طاقت نہیں رکھتا یہاں تک کہ بھتیجا یاچچا یاچچا کابیٹا بھی خود اپنی حقیقی بہنوں کو عصبہ نہیں بناسکتے۔ علامہ محمد بن علی دمشقی نے اسی درمختارمیں فرمایا کہ سراجیہ میں کہاہے : بھتیجا عصبہ بنانے والانہیں ہے۔ نہ اپنی مثل کونہ اس کوجونسب میں اس سے اوپرہے۔ بخلاف پوتے کے اگرچہ وہ نیچے تک ہو وہ اپنی مثل اوراپنے سے اوپروالیوں کوعصبہ بنادیتاہے جبکہ وہ ذی فرض نہ ہوں اور اس سے نیچے والیاں ساقط ہوجاتی ہیں۔ امام سمعانی خزانۃ المفتین میں عبارت مذکورہ کے متصل فرماتے ہیں: باقی عصبات وہ ہیں جن کے مذکر تنہا میراث پاتے ہیں ان کی بہنیں میراث نہیں پاتیں، وہ بھی چار ہیں: (۱)چچا(۲) چچا کابیٹا(۳)بھتیجا(۴)آزاد کرنے والے کابیٹا۔
 (۱؎ الدرالمختار        کتاب الفرائض     فصل فی العصبات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۵۹)

(۲؎ خزانۃ المفتین     کتاب الفرائض             قلمی نسخہ         ۲ /۲۵۲)
خامساً : اگرمراد بوقوع غلام بمحاذات بنات یا بالا یافرودوقوع اودرہمیں سلسلہ نسب ست کہ نوعیت انتساب متبدل نگرد وکما ھو الحق المبین بجزم و یقین پس آنگاہ ابناء اخ راخود مساعی نیست کہ ایں جاسخن درجئز میت ست واوجزء پدرمیت واگرمراد اعم گیرند تاابن ابن الاخ کہ بمحاذات درجہ بنت الابن ست او را عصبہ کند واجب شد کہ ابن الاخ کہ بالاترازوست بنت الابن رااز میراث افگند اگرچہ درانجا صلبیہ ہیچ نبود کہ سقوط سفلیات بغلام عالی عام ومطلق ست از درمختار شنیدی ویسقط من دونہٖ وخوددرمسئلہ تشبیب کہ لاشیئ للسفلیات گفتہ اند فرض مسئلہ بے صلبیات ست و خودپیداست کہ چوں کارتعصیب کشد اقرب حاجب ابعد بود حالانکہ ایں معنی مخالف اجماع است حجب بنات الابن ہمیں بہ ابن ودوصلبیہ نوشتہ اند نہ بابن الاخ وعلامہ انقروی درحل المشکلات کہ خود اوتاریخ تالیفش قد حل  المشکلات (۹۶۴) فرمودہ است م ی نگارد اذا مات رجل وترک ابن اخ وزوجۃوبنت ابن فالمسئلۃ من ثمانیۃ لان فیھا ثمنا ونصفا ومابقی فالثمن للزوجۃ والنصف لبنت الابن ومابقی لابن الاخ۱؎الخ وفیہ مسائل اخرٰی من ھٰذا النوع۔
پانچویں دلیل: اگربیٹیوں کے برابر یااوپر کے درجے میں یانیچے کے درمے میں لڑکے کے واقع ہونے سے مراد اسی سلسلہ نسب میں اس کاواقع ہوناہے کہ انتساب کی نوعیت میں تبدیلی نہ آئے جیسا کہ یہی حق ہے، اورجزم ویقین کے ساتھ ظاہرہے، تو اس صورت میں بھتیجوں کی یہاں کوئی گنجائش نہیں کیونکہ گفتگو یہاں میت کی جزء میں ہے جبکہ بھتیجا میت کے باپ کی جزہے۔ اوراگراس سے مرادعام لی جائے تاکہ بھائی کاپوتا جومیت کی پوتی کے محاذی (برابر درجے میں) ہے اس کو عصبہ بنادے توضروری ہوگا کہ بھائی کابیٹا جو پوتے سے اوپردرجے میں ہے پوتی کومیراث سے خارج کردے اگرچہ وہاں کوئی صلبی بیٹی موجود نہ ہو کیونکہ نچلے درجے والیوں کا اوپر کے درجے والے لڑکے کی وجہ سے ساقط ہوجانا عام اورمطلق ہے۔ درمختارسے توسن چکاہے کہ لڑکا اپنے سے نچلے درجے والی کوساقط کردیتاہے۔ خودمسئلہ تشبیب جس کوفرض ہی صلبی بیٹیوں سے خالی کیاگیا ہے میں کہاگیا ہے کہ نچلے درجے والیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ خودظاہرہے کہ جہاں عصبہ بنانے کی کاروائی ہوتی ہے وہاں قریب والا دور والے کے لئے حاجب ہوتاہے حالانکہ یہ معنیئ اجماع کے خلاف ہے۔ پوتیوں کامیراث سے محروم ہونا بیٹے اور دوصلبی بیٹیوں کی وجہ سے ہی مشائخ نے تحریر فرمایا ہے نہ کہ بھتیجے کی وجہ سے۔ علامہ انقروی حل  المشکلات میں لکھتے ہیں جس کی تاریخ تالیف خود انہوں نے قدحل المشکلات (تحقیق مشکلیں حل ہوگئیں) فرمائی ہے۔جب کوئی مرد فوت ہو اور اس نے ایک بھتیجا، ایک بیوی اورایک پوتی چھوڑی ہوتومسئلہ آٹھ سے بنے گا کیونکہ اس مسئلہ میں آٹھواں حصہ، نصف اوربقیہ ہے، چنانچہ آٹھواں حصہ بیوی کو، نصف پوتی کو اوربقیہ بھتیجے کوملے گا الخ حل المشکلات میں اس نوعیت کے دیگرمسائل بھی ہیں۔
 (۱؎ حل المشکلات )
سادساً:  اگرابن الاخ حاجب بود اخ کہ اقرب ازدست اولٰی باوست وایں ہم باطل ست باجماع وفی حل المشکلات اذا مات رجل وترک اخاوبنت ابن فالمسئلۃ من اثنین لان فیھا نصفا ومابقی فالنصف لبنت الابن ومابقی للاخ۔۲؎
چھٹی دلیل : اگربھتیجا حاجب ہوتاہے اولٰی حاجب بنے گا۔ اوریہ بھی بالاجماع باطل ہے۔ حل المشکلات میں ہے جب کوئی مرد ایک بھائی اورایک پوتی چھوڑ کرفوت ہوجائے تومسئلہ دو۲ سے بنے گا کیونکہ اس مسئلہ میں نصف اوربقیہ ہے، چنانچہ نصف پوتی کو اوربقیہ بھائی کوملے گا۔ (۲؎ حل المشکلات )
سابعاً : ایں تعصیب اگربودے نبودے وشیئ چوں وجود اومستلزم عدم او باشد محال بودبیان ملازمت آنکہ درعصبات اصل مطرد آنست کہ جزء میت مقدم برجزء پدراوست پس ابن ابن الاخ اگربنت الابن راعصبہ نمودی بنت الابن  او رامحجوب فرمودے وچوں محجوب میشد تعصیب کہ میکرد، فھٰذا شیئ لوکان لم یکن وای محال اب عد منہ۔
ساتویں دلیل :  یہ عصبہ بنانا اگرچہ موجود ہوتا تومعدوم ہوتا۔ اورجس شیئ کاوجود اس کے عدم کوچاہے وہ شیئ محال ہوتی ہے۔ ملازمہ کابیان یہ ہے عصبوں کے اندریہ قاعدہ کلیہ جاری ہے کہ میت کی جزئ اس کے باپ کی جزئ پرمقدم ہوتی ہے۔ لہٰذابھائی کاپوتا اگرمیت کی پوتی کوعصبہ بناتاتو وہ پوتی اس کو میراث سے محروم کردیتی۔ اورجب وہ خود محروم ہوجاتا توعصبہ کیونکر بناتا؟ یہ ایک ایسی شیئ ہے کہ اگرموجود ہوتومعدوم ہوگی اور اس سے بڑھ کرکون سا محال ہوگا؟
ثامناً : تعصیب محاذ یہ مختص بوجود دو صلبہ نیست بلکہ بایک صلبیہ وبے صلبیہ نیزحکم ہمیں ست فی ردالمحتار للبنات ستۃ حوال ثلٰثۃ تتحقق فی بنات الصلب وبنات الابن وھی النصف للواحدۃ والثلثان لاکثر واذا کان معھن ذکر عصبھن ۱؎۔ درسراجیہ وشریفیہ فرماید العصبۃ بغیرہٖ اربع من النسوۃ البنت وبنت الابن  والاخت لاب و ام والاخت لاب یصرن عصبۃ باخوتھن۲؎۱ھ مختصرا۔
آٹھویں دلیل : کسی پوتے کااپنی برابروالی  پوتیوں کوعصبہ بنانا دوصلبی بیٹیوں کے موجودہونے کے ساتھ مختص نہیں بلکہ ایک صلبی بیتی ہویاکوئی صلبی بیٹی نہ ہوتب بھی حکم یہی ہے۔ ردالمحتارمیں ہے : بیٹیوں کے چھ حال ہیں جن میں سے تین صلبی بیٹیوں اورپوتیوں میں متحقق ہوتے ہیں، اور وہ یہ ہیں اکیلی ہو تونصف، ایک سے زائد ہوں تودوتہائی، اوراگران کے ساتھ کوئی مذکرہوتو وہ ان کوعصبہ بنائے گا۔ سراجیہ اورشریفیہ میں فرماتے ہیں: عصبہ بغیرہٖ چارعوتیں ہیں : بیٹی، پوتی، عینی بہن اورعلاتی بہن۔ یہ اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ  بن جاتی ہیں اھ اختصارا۔
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الفرائض     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۴۹۲)

(۲؎ الشریفۃ شرح السراجیۃ        باب العصبات    مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۴۰)
پس برتقدیر تعصیب لازم آید کہ درمسئلہ زوج و بنت وبنت الابن وابن ابن الاخ مسئلہ ازدوازدہ باشد سہ بشوہر  وشش بدختروسہ باقی درعصبتین للذکرمثل حظ الانثیین کما ھو مصرح بہ فی جمیع الکتب فی مسئلۃ تعصیب بنت  الابن بغلام معھا او اسفل منھا۔ پس بنت الابن را یک باشد و ابن ابن الاخ بلکہ ابن ابن ابن ابن الاخ ہرچہ فروتر  روندہ  را دولیکن دریں مسئلہ اگربجائے او اخ عینی گیرند امرمنعکس میشود بنت الابن رادوباشد وبرادر حقیقی را یک۔ فی حل المشکلات اذ ماتت امرأۃ وترکت اخا وزوجا وبنت صب وبنت ابن فالمسئلۃ من اثنی عشر لان فیھا سدسا وربعا ونصفا ومابقی فالسدس لبنت الابن والربع للزوج والنصف لبنت اللب ومابقی للاخ۱؎۔ پس استحقاق اخ کمتر از استحقاق ابن ابن ابن ابن خودش اگرچہ بصد درجہ پایان تر ازوست ایں خودشبیہہ بالمحال ست۔
پس عصبہ بنانے کی تقدیرپرلازم آتاہے کہ خاوند، بیٹی، پوتی اوربھائی کاپوتا چھوڑنے کی صورت میں مسئلہ بارہ سے ہو، جس میں سے تین خاوند کو، چھ بیٹی کو اورباقی تین دوعصبوں میں اس طرح تقسیم ہوں کہ مذکرکاحصہ دومؤنثوں کے حصے کے برابر ہو، جیسا کہ برابر والے لڑکے یانچلے درجے والے لڑکے کی وجہ سے پوتیوں کے عصبہ بن جانے والے مسئلہ میں تمام کتابوں میں اس کی تصریح کردی گئی ہے، چنانچہ پوتی کو ایک حصہ ملے گا اوربھائی کے پوتے کو بلکہ بھائی کے پوتے کے پوتے کوجہاں تک نیچے چلاجائے دوحصے ملیں گے۔ لیکن اس مسئلہ میں بھائی کے پوتے کے بجائے اگرحقیقی بھائی کو فرض کریں تو معاملہ الٹ جاتاہے۔ اس صورت میں پوتی کودواورحقیقی بھائی کوایک حصہ ملتاہے۔ حل المشکلات میں ہے جب کوئی عورت فوت ہوئی اور اس نے ایک بھائی، خاوند، ایک صلبی بیٹی اور ایک پوتی چھوڑی تومسئلہ بارہ سے بنے گا۔ کیونکہ اس مسئلہ میں ایک چھٹاحصہ، ایک چوتھا حصہ، نصف اور بقیہ ہے۔ چنانچہ چھٹاحصہ پوی کے لئے ، چوتھا حصہ خاوند کے لئے، نصف صلبی بیٹی کے لئے، اور بقیہ بھائی کے لئے ہوگا۔ تواس طرح بھائی کااستحقاق اپنے پوتے کے پوتے کے استحقاق سے کمترہوگا اگرچہ بھائی کے پوتے کاپوتا بھائی سے سَودرجے نیچے ہو۔ یہ خود محال کے مشابہ ہے۔
 (۱؎ حل المشکلات )
Flag Counter