Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
48 - 145
فصل پنجم
مسئلہ ۹۷ : ازکلکتہ مولوی امداد علی لین نمبر۱  مرسلہ مولوی عبدالعزیز صاحب بنگالی منتہی طالب علم  مدرسہ عالیہ کلکتہ ۹جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ 

ماقولکم رحمکم اﷲ تعالٰی اندریں کہ شخصے بحضوریک زوجہ وسہ بنت وسہ بنت الابن ودو ابن ابن الاخ اموال گزاشتہ پیک اجل رالبیک گت پس ترکہ اش درمیان ورثہ مذکورین چگونہ منقسم خواہد شدبینواتوجروا۔
اے علماء کرام اﷲ تعالٰی آپ پررحم فرمائے اس شخص کے بارے میں ضآپ کا کی اارشاد ہے جس نے ایک بیوی، تین بییٹیوں، تین پوتیوں اوربھائی کے دوپوتوں کی موجودگی میں مال چھوڑ کرموت کے پیغام کو لبیک کہا۔ پس اس کاترکہ مذکورہ وارثوں کے درمیان کس طرح تقسیم ہوگا؟ بیان کرواجرپاؤگے۔(ت)
26_26.jpg
جناب من! حد ادب ، پس ازسلام سنت خیرالانام عرض بخدام برتر مقام میگزارم کہ برصورت مرقوم بالا دریں صوبہ بنگلہ اختلافات شتٰی رددادہ کہ بنت الابن یا ابن ابن الاخ عصبہ تواند شد یاچہ؟ ازدلائل ردالمحتار وشریفیہ معلوم شد کہ بنات الابن چنانچہ بابرادر عینی خودعصبہ شوند ہمبران نسق بابن عم خود ہم عصبہ شوند وایشاں ھم بنی عم ایں زمان اند پس مستحق باقی مال زید تواندشد یانہ برہردو تقدیر از کتب معتبرہ استدلال نمودہ وجواب شافیش عنایت فرمودہ رہین منت فرمایند بفحوائے آیہ کریمہ وتعاونوا علی البر والتقوی، ولاتکتموالحق زیادہ والسلام مع التعظیم والاکرام۔ عرض پردازفدوی محمد عبدالعزیز عفی ساکن حال کلکتہ۔ ۹ جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ۔
میری سرکار! بے حد ادب، اور تمام مخلوق سے بہترشخصیت کی سنت کے مطابق بارگاہ عالی میں سلام عرض کرنے کے بعد گزارش کرتاہون کہ مزکورہ بالا صورت میں صوبہ بنگال میں متعدد اختلاف رونماہوکچے کہں کہ میت کی پوتی یامیت کے بھائی کاپوتا عصبہ ہوسکتے ہیں یاکیاصورت ہے؟ رِدّالمحتار اور شریفیہ کے دلائل سے معلوم ہوا کہ پوتیاں اپنے عینی بھائی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہیں، اسی طرح اپنے چچا کے یٹے کے ساتھ بھی عصبہ ہوجاتی ہیں۔ وہ بھی اس وقت چچا کے بیٹے ہیں، پس وہ زید کے باقی مال کے مستحق ہوسکتے ہیں یانہیں؟ دونوں صورتوں میں معتبر کتابوں سے دلیل لاتے ہوئے تسلی بخش جواب عنایت فرماکر احسان مندفرمائیں اس آیت کریمہ کے تقاضے کی وجہ سے ''اورنیکی کے کاموں اورتقوٰی پر ایک دوسرے سے تعاون کرو'' اور ''حق کو مت چھپاؤ'' تعظیم وتکریم کے ساتھ مزیدسلام۔ درخواست گزار فدوی محمدعبدالعزیز اس سے درگزرفرمایاجائے۔ ساکن حال کلکتہ۔ ۹ جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ (ت)
الجواب

مکرما السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ در صورت مستفسرہ تصحیح از یک صد وچہل وچارست وبنات الابن محجوبات بہ بنات وتقسیم چناں۔
مکرما السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ پوچھی گئی صورت میں مسئلہ کی تصحیح ایک سوچوالیس (۱۱۴) سے ہوگی۔ پوتیاں بیٹیوں کی موجودگی میں محروم ہوں گی۔ اور تقسیم اس طرح ہوگی :
26_27.jpg
اگردلائل بکارست فاقول وباﷲ التوفیق :

اگردلائل درکارہیں تو میں کہتاہوں اوراﷲ تعالٰی کی طرف سے ہی توفیق حاصل ہوتی ہے :
اولا : بنات الابن راعصبہ نتواں کرد مگرابن الابن وان سفل پس چوں بادویابیش صلبیات باشند چیزے نیابند مطلقا مگر صورت واحدہ کہ باایشاں فافروتر ازیں شان مردے از اولاد پسرمیت باشد۔ علامہ ابوعبداﷲ محمد بن عبیداﷲ غزی تمرتاشی درتنویرالابصار متن الادرالمختار فرمود اذا استکمل البنات فرضھن سقط بنات الابن الا بتعصیب ابن  ابن مواز اونازل ۱؎ علامہ ابراھیم حلبی درملتقی الابحر کہ ازمتون معتمدہ فی المذہب ست فرماید اذا استکمل بنات الصلب الثلثین سقط بنات الابن الا ان یکون بحذائھن اواسفل منھن ابن ابن فیعصب من بحذائہ ومن فوقہ من لیست بذات سھم وتسقط من دونہ۲؎۔ علامہ محمد بن حسین بن علی طوری درتکملہ بحرائق فرماید ان کان للمیت ابنتان فلا شیئ لبنت الابن الا ان یکون فی درجتھا اواسفل منھا ابن ابن فتصیر عصبۃ لہ۱؎ پیداست کہ ابن ابن الاخ ابن الابن نیست پس ازصورت استثناء خارج باشد۔
پہلی دلیل:  پوتیوں کوسوائے پوتے کے کوئی عصبہ نہیں بناسکتا اگرچہ وہ پوتا ان سے نچلے درجے میں ہو۔ پس جب دو یادو سے زائد میت کی صلبی بیٹیاں موجود ہوں تو پوتیاں بالکل کچھ نہیں پاتیں سوائے ایک صورت کے کہ ان کے ساتھ یا ان کے نیچے کے درجے میں میت کے بیٹے کی اولاد سے کوئی مرد موجود ہو۔ علامہ ابوعبداﷲ محمد بن عبیداﷲ غزی تمرتاشی نے درمختار کے متن تنویرالابصار میں فرمایا جب بیٹیاں اپنا فرضی حصہ مکمل طورپرلے لیں تو پوتیاں ساقط ہوجاتی ہیں سوائے اس کے کہ ان کے برابر یا ان سے نیچے کے درجے کاکوئی پوتا انہیں عصبہ بنادے۔ علامہ ابراہیم حلبی ملتقی الابحر جو کہ مذہب کے قابل اعتماد متون میں سے ہے فرماتے ہیں جب صلبی بیٹیاں دوتہائی مال مکمل طورپرلے لیں تو پوتیاں ساقط ہوجاتی ہیں سوائے اس کے کہ ان کے برابر یا ان کے نیچے کے درجے میں کوئی پوتا موجود ہو تو وہ پوتا اپنے برابر والیوں کو اوراپنے سے اوپروالیوں کو جو کہ ذی فرض نہ ہوں عصبہ بنادیتاہے، اور اس پوتے سے نیچے کے درجے والیاں ساقط ہوجاتی ہیں۔ علامہ محمدبن حسین بن علی طوری بحرالرائق کے تکملہ میں فرماتے ہیں اگرمیت کی دوبیٹیاں ہوں تو پوتیوں کے لئے کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ ان پوتیوں کے درجے میں یا ان سے نیچے کے درمیں یان ان سے نیچے کے درجے میں کوئی پوتاہو تووہ پوتیاں اس پوتے کی وجہ سے عصبہ بن جائیں گی ۔ ظاہرہے کہ میت کے کے بھائی کاپوتا میت کاپوتانہیں ہے لہٰذا وہ استثناء والی صورت سے خارج ہوگا۔
 (۱؎ الدرالمختار شرح تنویرالابصار    کتاب الفرائض     فصل فی العصبات    مطب مجتبائی دہلی     ۲ /۳۵۹)

(۲؎ ملتقی الابحر       کتاب الفرائض      فصل فی الحجب    مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۲ /۳۴۸)

(۱؎ تکملہ بحرالرائق     کتاب الفرائض     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۸ /۴۹۴)
ثانیاً : نص ہمیں درتعصب بنات بہ ابناء واخوات بہ اخوۃ آمدہ است وبس بنات وابنائے ابن دربنات وابنائے میت داخل اند بالاجماع پس تعصیب بنات ابن بہ ابنائے اخ بے دلیل شرعی ست۔ علامہ شیخی زادہ رومی در مجمع الانہر فرماید ان النص الوارد فی صیرورۃ الاناث بالمذکور عصبۃ انما ھو فی موضعین البنات بالبنین والاخوات بالاخوۃ۔۲؎
دوسری دلیل : نص تو فقط بیٹوں کے سبب سے بیٹیوں کے اوربھائیوں کے سبب سے بہنوں کے عصبہ بننے کے بارے میں آئی ہے میت کے پوتے اورپوتیاں اس کے بیٹوں اور بیٹیوں میں بالاجماع داخل ہیں۔ چنانچہ میت کی بھتیجیوں کا اس کے بھتیجوں کے سبب سے عصبہ بننا دلیل شرعی کے بغیرہے۔ علامہ شیخی زادہ رومی مجمع الانہر میں فرماتے ہیں مزکر کے سبب سے مؤنث کے عصبہ ہوجانے کے بارے میں نص دوجگہوں میں وارد ہے (۱) بیٹیاں بیٹوں کے ساتھ(۲)بہنیں بھائیوں کے ساتھ۔
 (۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر  کتاب الفرائض   داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۷۵۴)
Flag Counter