Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
46 - 145
یہ نفس مسئلہ صلح وارث بحیات مورث کی تحقیق تھی جس سے سائل نے علٰی وجہ الاطلاق سوال کیا۔ رہی یہ صورت خاصہ کہ یہاں واقع ہوئی اسے مسئلہ صلح وتخارج سے علاقہ ہی نہیں یہاں صلح ایک سوچالیس روپے پرواقع ہوئی اور ترکہ میں روپے زائد تھے اورروپے کے حق سے کم روپوں پرتخارج قطعاً باطل ہے اگرچہ بعد موت مورث ہو۔
فی الدرالمختار فی اخراجہ عن نقدین وغیرھما باحد النقدین لایصلح الا ان یکون مااعطی لہ اکثر من حصتہ من ذٰلک الجنس تحرزاعن الربا۱؎۔
درمختارمیں ہے نقدین (سونے چاندی) میں سے کسی ایک کے بدلے میں کسی وارث کونقدین وغیرہ سے خارج کرناصحیح نہیں مگر اس وقت کہ جوکچھ اس وارث کودیاگیاہے وہ اسی جنس میں سے اس کے استحقاقی حصے سے زائد ہو تاکہ سود سے بچاؤ ہوجائے۔(ت)
 (۱؎ الدرالمختار    کتاب الصلح     فصل فی التخارج     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۴۵)
تو یہ تخارج ہوتاتویقینا باطل ہوتا مگریہاں دوسرا وارث کوئی ہے ہی نہیں، نہ کوئی موصٰی لہ تھا جس سے مبادلہ ٹھہرے تویہاں صلح وتخارج ومبادلہ کودخل ہی نہیں اس کاحاصل صرف اتناہے کہ ''میراث سے میں نے اتنے روپے لے لئے باقی ترکہ سے مجھے تعلق نہیں''۔ یہ نہ کوئی عقدشرعی ہے نہ ایک مہمل وعدہ سے زائد کچھ معنی رکھتاہے تمام ترکہ میں بدستور اس کاحق باقی ہے تصرفات مذکورہ زیدبے اس کی اجازت کے ثلث سے زائد میں نافذ نہیں ہوسکتے بلکہ ان میں جووصایا تھیں ان کی اجازت تو بحال حیات موصی مفیدہی نہیں اگرچہ وارث نے صراحۃً اس وقت کہہ دیاہوکہ میں نے ان وصیتوں کونافذ کیاجائز رکھانہ اسے ان تصرفات زید کی اجازت معتبرہ ٹھہراسکتے ہیں جو اس گفتگو کے بعد زید سے واقع ہوئے کہ ان میں جووصایا تھیں ان کی اجازت کاتوحیات موصی میں کوئی محل ہی نہیں۔
فی الدرالمختار لاتعتبر اجازتھم حال حیاتہ اصلا بل بعد وفاتہ۱؎۱ھ فی ردالمحتارای لانھا قبل ثبوت الحق لھم لان ثبوتہ عندالموت فکان لھم ان یردوہ بعد وفاتہ بخلاف الاجازۃ بعد الموت لانہ بعد ثبوت الحق وتمامہ فی المنح۲؎۔
درمختارمیں ہے کہ وارثوں کی اجازت موصی کی زندگی میں بالکل معتبرنہیں بلکہ اس کی وفات کے بعد معتبرہوتی ہے الخ۔ ردالمحتار میں ہے اس لئے کہ وہ اجازت وارثوں کے حق کے ثبوت سے قبل ہے کیونکہ ان کے حق کاثبوت موصی کی موت کے وقت ہوتاہے لہٰذا وہ موصی کی وفات کے بعد اس اجازت کو رَد کرسکتے ہیں بخلاف اس اجازت کے جوموصی کی موت کے بعد ہوئی کیونکہ وہ ثبوت حق کے بعد ہے۔ اس کی پوری بحث منح کے اندرہے۔(ت)
 (۱؎ الدرالمختار        کتاب الوصایا    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۱۷)

(۲؎ ردالمحتار         کتاب الوصایا    داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۴۱۷)
البتہ وہ وقف کہ اس نے اپنے مرض میں فی الحال کردیا اگروارث سے حیات مورث ہی میں اس کی اجازت پائی گئی جب بھی نافذوتام ہوگیا کہ بعد موتِ مورث اب وارث اسے رد نہیں کرسکتا۔
فی ردالمحتار من البزازیۃ تعتبر الاجازۃ بعد الموت لاقبلہ ھذا فی الوصیۃ اما فی التصرفات المفیدۃ لاحکامھا کالاعتاق وغیرہ اذا صدرفی مرض الموت و اجازہ الوارث قبل الموت لاروایۃ  فیہ عن اصحابنا قال الامام علاء الدین السمرقندی اعتق المریض عبدہ ورضی بہ الورثۃ قبل الموت لایسعی العبد فی شیئ وقد نصوا علی ان وارث المجروح اذا عفا عن الجارح یصح ولایملک المطالبۃ بعد موت المجروح۱؎۱ھ۔
رِدّالمحتارمیں بزازیہ سے منقول ہے کہ موت کے بعد کی اجازت معتبرہے نہ کہ پہلے کی۔ یہ وصیت کے بارے میں ہے۔ رہے وہ تصرفات جواپنے حکم کافائدہ دیتے ہیں جیسے آزادکرنا وغیرہ جب یہ مرض الموت میں صادرہوں اورموت سے پہلے وارث اجازت دے دے توہمارے اصحاب سے اس بارے میں کوئی روایت موجودنہیں۔ امام علاء الدین سمرقندی نے کہا کہ کسی مریض نے اپناغلام آزادکردیا اورموت سے پہلے وارثوں نے اس پررضامندی ظاہر کردی تووہ غلام کسی شیئ میں سعی نہیں کرے گا۔اورمشائخ نے اس بات پرنص فرمائی کہ زخمی کاوارث جب زخمی کرنے والے کومعاف کردے تومعافی صحیح ہوگی اوروارث زخمی کی موت کے بعد مطالبے کامالک نہیں ہوگا۱ھ(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الوصایا    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۴۱۷)
اوریہیں سے واضح ہواکہ صورت کچھ واقع ہوئی ہوبھتیجوں کواصلاً کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اگروارث یعنی بھائی نے اس وقف کوبحال حیات مورِث خواہ بعد وفات مورث اوروصایا کوخاص بعد وفات جائزکیا ، جب تو ایک سو چا لیس ۱۴۰  روپے کے سوا باقی مال حسب تصرفات مورث وقف و وصیت میں آ گیااوراگرناجائزکیاتوثلث وقف ووصیت کے لئے رہادوثلث بھائی کاحق ہوابھتیجے کسی مال میں حصہ نہیں پاسکتے،
وھذا ظاھرجِدّا، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
(اور یہ خوب ظاہر ہے، اور اﷲ سبحانہ، وتعالٰی خوب جانتاہے۔ت)
فصل چہارم
مسئلہ ۹۶ : ازلشکر گوالیار ڈاکخانہ دربار مرسلہ مولوی نورالدین احمدصاحب ۲۶شوال ۱۳۱۴ھ

مخدوم ومطاع نیازمندان دام مجدکم  پس ازاظہار نیازگزارش کہ ان دنوں بوجہ ضرورت ملازمان ریاست وامداد وکلا ایک رسالہ ترتیب دیاگیاہے جس میں فرائض وصیت ہبہ، وقف، نکاح، مہراور طلاق وغیرہاکابیان ہے اور وہ رسالہ چھپ رہاہے۔ ایک شبہہ یہ پیداہواہے کہ آیا سوائے مادرحقیقی دیگرزوجاتِ اَب اورسوائے جدہ حقیقی دیگر زوجات جد میراث پاتی ہیں یانہیں؟ اگرنہیں پاتیں تو درمختاراورفرائض شریفی وغیرہا میں جدہ کے آگے فصاعدًا اور اواکثرسے کیامرادہے؟  اور تصحیح کی مثالوں میں دو تین ام اور۳  ،۴ ،۶  بالتفصیل اس کاجواب مطلوب ہے بمجرد ملاحظہ نیازنامہ مرحمت ہو۔ نورالدین احمدعفی عنہ
الجواب

مولاناالمکرم السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ،
آدمی کی ام وجدہ وہی ہیں جن کے بطن کی طرف یہ منتسب ہو وہ اس کی اصل یہ ان کی فرع ہوئی باقی زوجات اب وجد ام و جدہ نہیں، نہ ان کے لئے میراث سے کوئی حصہ، تصحیح کی مثالوں میں دوتین ام عامہ کتب میں ایک دوسرے کی طرف مضاف مرادہیں کہ دوسرے تیسرے درجہ کی جدہ امیہ ہوئیں یعنی ام الام نانی یاام الام نانی کی ماں، نہ یہ کہ میت کی اپنی دوتین ماں۔ ہاں علمائے کرام نے تعدد ام واب کی صورت بحالت تنازع قائم فرمائی ہے مثلا چندعورتیں ایک بچہ کی نسبت مدعی ہوں ہرایک کہے یہ میرا بیٹاہے میرے بطن سے پیداہواہے، اور اس کاحال معلوم نہ ہو، اور وہ سب مدعیات اپنے اپنے دعوے پرشہادت شرعیہ قائم کردیں اورکسی کودوسری پرکوئی ترجیح نہ ہو تو قاضی مجبوراً ان سب کی طرف اسے منتسب کردے گا، اور جب وہ مرے اوریہ عورتیں باقی رہیں توبحکم تنازع وعدم ترجیح سب ایک سدس یاثلث میں کہ سہم مادرہے شریک ہوجائیں گی۔ اسی طرح ایک شخص کے چندپدر اوران کے تعدد کی ایک صورت ولد جاریہ مشترکہ کی ہے جبکہ سب شرکاء دعوٰی کریں۔
غمزالعیون کتاب الاقرارمیں ہے:
لایستحیل شرعا ان یکون للواحد ابوان اوثلثۃ الٰی خمسۃ کما فی الجاریۃ المشترکۃ اذا ادعاہ الشرکاء بل قدیثبت نسب الواحد الحر الاصیل من الطرفین کما فی اللقیط اذا ادعاہ رجلان حران کل واحد منھما من امرأۃ حرۃ کما فی التتارخانیۃ۱؎۔
شرعی طورپر یہ محال نہیں کہ ایک شخص کے دویاتین بلکہ پانچ باپ ہوں جیسا کہ مشترکہ لونڈی میں جبکہ شرکاء اس کادعوٰی کریں بلکہ کبھی ایک اصلی حرکانسب دونوں طرفوں سے ثابت ہوتاہے جیسا کہ گرے پڑے بچے کے بارے میں جب دوآزاد مرد دعوٰی کریں اور ان دونوں میں سے ہرایک کسی آزاد عورت سے اس کی ولادت کامدعی ہو، جیسا کہ تتارخانیہ میں ہے۔(ت)
 (۱؎ غمزالعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر    الفن الثانی     کتاب الاقرار     ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۲۵)
Flag Counter