Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
45 - 145
اقول : وباﷲ التوفیق تفصیل المقام ان الروایات فی ھٰذہ المسئلۃ توجد علٰی ثلثۃ انحاء، الاول البطلان وھو واضح البرھان غنی عن البیان فان الارث لاثبوت لہ فی حیاتہ فکان اعتیاضا عن معدوم وھو باطل وبھذا ھو نص محرر المذھب رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال فی جامع الفصولین ذکر ''م " رحمہ اﷲ تعالٰی فی سک (ای محمد رحمہ اﷲ تعالٰی فی السیر الکبیرالذی ھومن کتب الاصول الستۃ) ان المریض لواعطی من اعیان مالہ بعض ورثتہ لیکون لہ بحقہ من المیراث بطل ۱؎۱ھ۔
اقول :(میں کہتاہوں۔ت) اورتوفیق اﷲ تعالٰی کی طرف سے ہے۔ اس مقام کی تفصیل یہ ہے کہ اس مسئلہ میں تین قسم کی روایات پائی جاتی ہیں، پہلی قسم یہ کہ یہ صلح باطل ہے۔ اس کی دلیل واضح ہے جوبیان سے بے نیاز ہے کیونکہ میراث کاثبوت مورِث کی زندگی میں نہیں ہوتا تویہ معدوم کابدل طلب کرنا ہوااوروہ باطل ہے۔ اوراسی پرمحرر مذہب حضرت امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے نص فرمائی۔ جامع الفصولین میں ہے کہ "م"  رحمہ اﷲ تعالٰی نے  سک میں ذکرفرمایا(یعنی امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ  نے سیرکبیر میں ذکر فرمایا جوکہ چھ کتب اصول میں سے ہے) کہ کسی مریض نے اگراپنے عین مال میں سے کسی وارث کو اس لئے کچھ دیا کہ وہ میراث میں سے اس کاحق بن جائے تویہ باطل ہے الخ۔
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل الرابع والثلاثون     کتاب الوصیۃ     اسلامی کتب خانہ کراچی     ۲ /۲۶۰)
الثانی الجواز ولایظھر لہ وجہ قال فیہ عقیبہ برمرٰجف لجامع الفتاوٰی جعل لاحد ابنیہ دارابنصیبہ علی ان لایکون لہ بعد موت الاب میراث قیل جاز وبہ افتی بعضھم وقیل لا۱؎۱ھ، وقال فی فرائض الاشباہ والنظائر قال الشیخ عبدالقادر فی الطبقات فی باب الھمز فی احمد قال الجرجانی فی الخزانۃ قال ابوالعباس الناطفی رأیت بخط بعض مشائخنا رحمھم اﷲ تعالٰی فی رجل جعل لاحد ابنیہ دارابنصیبہ علی ان لایکون بعد موت الاب میراث جازوافتی بہ الفقیہ ابوجعفر محمد بن الیمانی احد اصحاب محمد بن الشجاع البلخی وحکی ذلک اصحاب احمد بن ابی الحارث وابوعمر والطبری ۲؎ انتھی ۱ھ۔  قال  فی غمز العیون یتامل فی وجہ صحۃ ذٰلک فانہ خفی ۳؎۱ھ
دوسری قسم صلح کے جواز کی ہے، اور اس کی کوئی وجہ ظاہرنہیں۔ جامع الفصولین میں مذکورہ عبارت کے بعد جامع الفتاوٰی کی رمز یعنی جف کے ساتھ کہا کسی شخص نے اپنے دوبیٹوں میں سے ایک کو اس کے حصے کاگھر اس شرط پردیاکہ باپ کی موت کے بعد اس کے لئے میراث نہیں ہوگی۔ ایک قول میں کہاگیاہے کہ یہ جائزہے اور اسی پربعض مشائخ نے فتوٰی دیاہے۔ اورایک قول میں ہے کہ جائزنہیں ہے۔الخ۔ الاشباہ والنظائر کی کتاب الفرائض میں کہا کہ شیخ عبدالقادر نے طبقات کے باب الہمز فی احمد میں فرمایا، جرجانی نے خزانہ میں کہا کہ ابوالعباس ناطفی نے فرمایا میں نے اپنے بعض مشائخ رحمہم اﷲ تعالٰی کی وہ تحریر دیکھی جو اس شخص کے بارے میں ہے جس نے دو بیٹوں میں سے ایک کو اس کے حصے کامکان اس شرط پر دیاکہ باپ کی موت کے بعد اس کے لئے میراث نہیں ہوگی تویہ جائزہے۔ اسی پرفقیہ ابوجعفر محمدبن الیمانی نے فتوٰی دیا جوکہ محمدبن شجاع بلخی کے شاگردوں میں سے ایک ہیں۔ احمد بن ابوحارث اورابوعمروطبری کے شاگردوں نے اس کونقل کیاہے۔ انتہٰی۔ غمزالعیون میں کہا اس کی صحت کی وجہ میں غورکرنا چاہئے کیونکہ یہ پوشیدہ ہے الخ۔
 (۱؎ جامع الفصولین     کتاب الوصیۃ     الفصل الرابع والثلاثون     اسلامی کتب خانہ کراچی     ۲ /۲۶۰)

 (۲؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی         کتاب الفرائض     ادارۃ القرآن کراچی    ۲ /۱۳۲)

(۳؎ غمزعیون البصائرمع الاشباہ   کتاب الفرائض     ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۱۳۲)
والثالث الجواز اذا رضی بہ الوارث بعد ماورث قال فی جامع الرموز اعلم ان الناطقی ذکر عن بعض اشیاخہ ان المریض اذاعین الواحد من الورثۃ شیئا کالدار علی ان لایکون لہ فی سائر الترکۃ حق یجوز وقیل ھذا اذرضی ذلک الوارث بہ بعد موتہ فحینئذٍ یکون تعیین المیت کتعیین باقی الورثۃ معہ کما فی الجواھر۱؎۱ھ ونقلہ فی اوائل وصایا ردالمحتار وزاد ان حکی القولین فی جامع الفصولین فقال قیل جازوبہٖ افتی بعضھم وقیل لاانتھی۲؎۱ھ۔ ولم یجنح لحکایۃ ماقدمہ فی جامع الفصولین عن السیر الکبیرمع انہ کان ھو العمدۃ فی الباب فان ماذکر من الجواز افتاء البعض لولم یکن مستندہ کما علمت الٰی خط بعض المشائخ مع مافی الخط من شبھۃ تنزلہ عن مرتبۃ الاشارۃ فضلا من العبارۃ فعندی فیما ذکر الحموی فی الغمز من احکام الکتابۃ یجوز الاعتماد علٰی خط المفتی اخذا من قولھم یجوز الاعتماد علٰی اشارتہ فالکتابۃ اولٰی ۱؎۱ھ نظر فی الاخذ وان قلنا بجواز الاخذ بہ عند حصول الامن و  رکون القلب ولذا اجمعوا علٰی جواز النقل من الکتب المعتمدۃ المعروفۃ المتداولۃ کما افادہ فی الفتح فمع قطع النظر من کل ذلک لم یکن لہ بجنب نص محمد فی ظاھر الروایۃ قیام علٰی ساق مع مافیہ من عدم التئامہ بقواعد المذھب علی الاطلاق نعم ماذکر فی الجواھر محمل حسن وبہ یدنو من التحقیق ویزول القلق ویحصل التوفیق بیدان الواجب عندی رضی الورثۃ جمیعا بعد موت المورث  لا رضی المصالح وحدہ فان التخارج مبادلۃ بینھم فلابد من رضاھم جمیعا لاسیما اذا کان الذی عُیِّن لہ ازید من حقہ وکانہ لحظ الٰی ان التعیین لواحد علٰی ان لایکون لہ فی سائر الترکۃ شیئ انما یکون غالباً باقل من حقہ اومایساویہ ولیس فیہ مایقتضی عدم رضی سائر الورثۃ فاقتصر علٰی ذکر اشتراط رضاہ وحدہ واﷲ تعالٰی اعلم، فان قلت لم لایجوز ان یحمل کلام محمد محرر المذھب رحمہ اﷲ تعالٰی علٰی بطلان الحق قلت کلا فان الارث جبری لایسقط باسقاط وکیف یسوغ ابطال مااثبتہ اﷲ تعالٰی فی کتابہ والتخارج مبادلۃ لااسقاط والمبادلۃ تقرر الحق وتثبتہ لاتبطلہ فلو صح مافعل المریض لقیل صح مافعل و الحق حصل لا ان بطل ھذا عندی والعلم بالحق عند ربی۔
اورتیسری قسم یہ ہے کہ صلح اس صورت میں جائزہوگی جب وارث بننے کے بعد مذکورہ بالا وارث اس صلح پررضامندی ظاہرکردے، جامع الرموز میں کہاتوجان لے امام ناطفی نے اپنے بعض مشائخ سے ذکرکیاکہ مریض جب کسی ایک وارث کے لئے کوئی شے معین کردے مثلاً گھر ا س شرط پرکہ باقی ترکہ میں اس کاکوئی حق نہیں ہوگا توجائزہے۔ اور کہاگیا ہے کہ یہ اس وقت جائزہوگا جب مریض کے مرنے کے بعد وہ وارث اس پررضامندی ظاہرکرے تواس صورت میں میت کامعین کرنا ایسے ہی ہے جیسے اس کے ساتھ باقی وارثوں نے تعیین کی ہو۔ جیسا کہ جواہرمیں ہے الخ۔ اس کورِدالمحتار کے وصایا کے شروع میں نقل کیااوریہ زائد کیاکہ ان دونوں قولوں کوجامع الفصولین میں نقل کیاہے، اورکہا ہے کہ ایک قول میں کہاگیاہے کہ یہ جائزہے اوراسی پربعض مشائخ نے فتوٰی دیاہے۔ اورایک قول یہ ہے کہ جائز نہیں ہے الخ اورماقبل جامع الفصولین میں بحوالہ سیرکبیر ذکرکردہ حکایات کی طرف میلان نہیں کیا حالانکہ اس باب میں وہ عمدہ ہے کیونکہ جواز اوربعض مشائخ کے فتوٰی کاذکر اگربعض مشائخ کے خط کی طرف منسوب نہ ہو جیسا کہ تونے جان لیا باوجودیکہ خط میں شبہہ ہوتاہے تویہ اشارہ کے مرتبہ سے بھی گرجائے گا چہ جائیکہ عبارت (کے برابرہو) چنانچہ میرے نزدیک اس میں جس کوامام حموی نے احکام کتابت سے غمز میں ذکرکیاہے کہ مفتی کے خط پراعتماد جائزہے۔ مشائخ کے اس قول سے اخذ کرتے ہوئے کہ مفتی کے اشارے پراعتماد جائزہے توکتابت پربدرجہ اولٰی جائزہوگاالخ اس اخذمیں نظرہے، اگرچہ ہم حصول امن اورمیلان قلبی کے وقت اس کے ساتھ اخذ کے جواز کے قائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ مشہور ومروج اورقابل اعتماد کتابوں سے نقل کے جوازپر مشائخ نے اجماع کیاہے جیسا کہ فتح میں اس کا افادہ فرمایاہے، اس تمام سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ قول ظاہرالروایہ میںمذکور امام محمدعلیہ الرحمۃ کی نص کے مقابل اپنی پنڈلی پرقائم نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود اس میں علی الاطلاق مذہب کے قواعد کے ساتھ مطا بقت بھی نہیں ہے۔ ہاں جو جواہرمیں ہے وہ ایک اچھامحمل ہے، اوراسی کے ساتھ یہ تحقیق کے قریب ہوجاتاہے اوراضطراب زائل ہوجاتاہے اورمطابقت وموافقت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ میرے نزدیک مورث کے مرنے کے بعد تمام وارثوں کی رضامندی ضروری ہے نہ کہ تنہا صلح کرنے والے کی رضامندی۔ کیونکہ تخارج وارثوں کے درمیان باہمی تبادلہ ہے لہٰذا ان سب کی رضامندی ضروری ہے خصوصاً اس صورت میں جب مذکورہ بالا وارث کے لئے اس کے حق سے زائد کی تعیین کردی گئی ہو۔ گویا اس بات کوملحوظ رکھاگیاہے کہ کسی ایک وارث کے لئے تعیین اس شرط پرہوگی کہ ترکہ میں سے اس کے لئے کچھ نہیں ہوگا۔ غالباً یہ تعیین اس کے حق سے کم ترمیں یا اس کے حق کے مساوی میں ہی ہوتی ہے، حالانکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جوباقی ورثاء کی عدم رضا کاتقاضا کرتی ہو۔ چنانچہ اکیلے اس وارث کی رضامندی کے شرط ہونے کے ذکرپر اکتفاء کیاگیاہے۔ اوراﷲ تعالٰی خوب جانتاہے اگرتوکہے کہ محرر مذہب امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کے کلام کوبطلان حق پرمحمول کرنا کیوں جائزنہیں؟ تومیں کہوں گا ہرگزنہیں کیونکہ وارث بنناجبری امرہے جوساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا۔ توجس چیز کواﷲ تعالٰی نے اپنی کتاب میں ثابت فرمایا اس کوباطل کرناکیسے جائزہوگا، اورتخارج باہمی تبادلہ ہے نہ کہ کسی حق کوساقط کرنا۔ اورباہمی تبادلہ حق کوثابت کرتاہے نہ کہ اس کو باطل کرتاہے۔اگروہ صحیح ہوتا جومریض نے کیاہے توالبتہ کہاجاتاکہ جوکچھ مریض نے کیاہے وہ صحیح ہے۔ اورحق حاصل ہوگیا ہے نہ یہ کہ وہ باطل ہوگیاہے، یہ وہ ہے جومیرے پاس ہے او رحق کاعلم میرے ر ب کے پاس ہے۔(ت)
 (۱؎ جامع الرمور    کتاب الوصایا    مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران     ۴ /۶۷۹)

(۲؎ ردالمحتار   کتاب الوصایا     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۴۲۰) 

(۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث     احکام الکتابۃ         ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۱۹۸)
Flag Counter