Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
44 - 145
منظومہ علامہ ابن عبدالرزاق میں ہے:
وسبعۃ مخارج الاصول اربعۃ لیست بذات عول، اثنان والثلثۃ التالیۃ واربع ضعفھا الثمانیۃ۔۵؎۔
اصول کے مخارج سات ہیں جن میں سے چارعول والے نہیں ہیں یعنی دو اور اس کے ساتھ تین اورچار اوراس کادوگنا آٹھ۔(ت)
 (۵؂)
توواجب ہواکہ صورت مذکورہ میں حالت چہارم ہی مانی جائے اورسفلیات کے ساتھ ہی بہن کو عصوبت دی جائے، شرح بسیط میں ایسی تصریحات جلیلہ سے ذہول اوراس نامفید بلکہ مخالف بات سے تمسک موجب تعجب ہے۔
ولکن لکل جواد کبوۃ ولکل صارم نبوۃ ولکل عالم ھفوۃ نسأل اﷲ العفو والعافیۃ۔
لیکن ہرتیزرفتار گھوڑے کے لئے ٹھوکرہے اورہرتلوار کبھی اُچٹ جاتی ہے اورہرعالم سے کبھی لغزش ہوجاتی ہے۔ ہم اﷲ تعالٰی سے درگزراورسلامتی کاسوال کرتے ہیں۔(ت)

فقیرنے بہ طریق استدلال اس غرض سے لیاکہ کلمات علمائے کرام سے اخذ مسائل کااندازمعلوم ہو ورنہ بحمداﷲ تعالٰی خاص اس جزئیہ شمول کی تصریحات فقیرکے پاس موجود ہیں۔
الرحیق المختوم شرح قلائدالمنظوم میں ہے:
 (والاخت) ولومتعددۃ (مع بنت) الصلب واحدۃ ایضا فاکثر (و) کذا مع (بنت الابن) وان سفلت کذلک وکذا مع بنت وبنت ابن (ذات اعتصاب مع غیر)۱؎۔
اوربہن اگرچہ متعدد ہوں صلبی بیٹی کے ساتھ چاہے ایک ہو یاایک سے زائد۔ یونہی پوتی کے ساتھ اگرچہ نیچے تک چلی جائیں۔ چاہے ایک ہویااس سے زائد عصبہ مع غیرہ بن جاتی ہے۔(ت)
 (۱؎ الرحیق المختوم شرح قلائد المنظوم رسالہ من رسائل ابن عابدین باب العصبات    سہیل اکیڈمی لاہور ۲ /۲۱۵)
مختصرالفرائض میں اخوات لاب کے احوال میں ہے :
یصرن عصبۃ مع البنات اوبنات(عہ) الابن وان سفلن ان لم توجد الاخوات لاب وام۲؎۔
علاتی بہنیں بیٹیوں یاپوتیوں اگرنیچے تک ہوںکی موجودگی میں عصبہ بن جاتی ہیں بشرطیکہ بہنیں موجود نہ ہوں۔(ت)
عہ :  لعل الصواب اوبنات الابن صح۱۲ ازہری غفرلہ بل ہوالمتعین کمایظہرفیما معنی ومایاتی ۔
 (۲؎ مختصرالفرائض)
زبدۃ الفرائض میں ہے :
عصبہ مع غیرھا دوزنان اندیکے اخت اعیانی میت کہ بابنت یابنت ابن اوہرچند پایان رود عصبہ میگردد۔ دوم اخت علاتی میت کہ باہمیں بنتین مسطورتین عصبہ می شود۱؎۔
عصبہ مع غیرہ دوعورتیں ہوتی ہیں ایک میت کی عینی بہن جبکہ میت کی بیٹی یاپوتی کے ساتھ ہواگرچہ پوتیاں نیچے تک ہوں۔ دوسری میت کی علاتی بہن ہیں جومیت کی بیٹی اورپوتی کے ساتھ ہو اگرچہ وہ پوتیاں نیچے تک چلی جائیں۔(ت)
(۱؎زبدۃ الفرائض)
اسی میں اخت عینیہ کے احوال میں ہے :
چہارم عصبہ مع البنات الصلبیات ومع بنات الابن ہرچندپایاں روند۲؎۔
عینی بہنوں کاچوتھا حال یہ ہے کہ وہ صلبی بیٹیوں اورپوتیوں اگرچہ نیچے تک ہوں کی موجودگی میں عصبہ ہوتی ہیں(ت)
(۲؎زبدۃ الفرائض)
اسی میں اخت علاتیہ کے حالات میں ہے :
پنجم عصبہ مع البنات الصلبیات ومع بنات الابن ہرچند پایاں روندوقتے کہ عینی نباشد۳؎۔
علاتی بہنوں کاپانچواں حال یہ ہے کہ وہ صلبی بیٹیوں اورپوتیوں اگرچہ نیچے تک ہوں کی موجودگی میں عصبہ ہوتی ہیں بشرطیکہ عینی بہن موجود نہ ہو(ت)
 (۳؎ زبدۃ الفرائض)
علامہ ابن نوراﷲ انقروی نے حل المشکلات میں خوب طریقہ اختیارفرمایا کہ کہیں
وان سفلت وان نزلن
 (اگرچہ نیچے تک چلی جائیں۔ت) نہ کہیں اورہرجگہ بے کہے مذکور ہویعنی ابتداء میں اپنی کتاب سے مسئلہ نکالنے کا طریق ارشاد فرمایا کہ جس مسئلہ میںفلاں وارث ہو اسے فلاں باب میں دیکھو مسائل بنات الابن کے لئے فرمایا:
ان کان فیھا بنت ابن المیت وان سفلت مع غیرھا من اصحاب الفرائض فھی فی الباب الثانی عشر۴؎۔
اگرکسی مسئلہ میں میت کی پوتی اگرچہ نیچے تک ہودیگرذوی الفروض کے ساتھ جمع ہو تووہ مسئلہ بارہویں باب میں مذکورہوگا۔(ت)
(۴؎ حل المشکلات )
پھرختم مقدمہ کے بعد فہرس ابواب دی اس میں بھی فرمایا :
الباب الثانی عشر منھا فی بنت الابن وان سفلت مع غیرھا من اصحاب الفرائض۱؎۔
بارہواں باب میت کی پوتی کے بارے میں ہے اگرچہ نیچے تک چلی جائے جبکہ وہ دیگرذوی الفروض کے ساتھ جمع ہو۔(ت)
 (۱؎حل المشکلات)
اسی طرح اورابواب کی نسبت بھی فرمادیا اب ان بابوں میں جہاں مثلاً بنت الابن ہو خواہی نخواہی بحکم تعلیمات سابقہ بنت الابن وان سفلت مرادہے۔ اسی باب دوازدہم میں ہے :
من مات وترک بنت ابن واختا لابوین فالمسئلۃ من اثنین لان فیھا نصفا ومابقی فالنصف لبنت الابن والباقی للاخت بالعصوبۃ۲؎۔ غرض حکم مسئلہ واضح ہے وﷲ الحمد واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
کوئی شخص ایک پوتی او رایک عینی بہن چھوڑکرفوت ہوگیا تومسئلہ دوسے بنے گا کیونکہ اس مسئلہ میں نصف اوربقیہ ہے۔ چنانچہ نصف پوتی کواوربقیہ بہن کوبطور عصبہ ملے گا۔ اوراﷲ ہی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اوراﷲ سبحانہ، وتعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
 (۲؎ حل المشکلات)
فصل سوم
مسئلہ ۹۵ : ازاحمدآباد گجرات محلہ چکلہ کالوپور متصل پل گلیان مدرسہ طیبہ

مرسلہ مولوی عبدالرحیم صاحب    ۵/رمضان المبارکہ ۱۳۱۸ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے ایک چچا زادبھائی کے سواکوئی وارث شرعی نہیں اوردوبھتیجے چچازادبھائی کے بیٹے ہیں زید نے اپنے مرض الموت میں بھائی کوایک سوچالیس روپیہ دے کر اپنے متروکہ سے اس کاحق میراث معاف کرالیا بھائی نے معاف کردیا زید نے اس صلح کے بعد چھ سوباسٹھ روپے کے پانچ مکان خریدکربنام مدرسہ عربیہ دینیہ وقف کئے اورجومال باقی رہا اس میں یہ وصیت کی کہ اس سے اولاً حج کرایاجائے اورحج سے جوبچے اس کامکان خریدکر وقف کردیاجائے بعدہ، زید نے انتقال کیا، اس صورت میں یہ وقف ووصیت نافذ ہوئے یانہیں؟ اورصلح جووارث سے مورث اپنی حیات میں کرلے شرعاً معتبرہے یانہیں؟ اگرصلح مذکور معتبرٹھہرے تو میراث میں بدیں جہت کہ بھائی کاحق بوجہ صلح ساقط ہوگیا اب بھتیجوں کاحق ثابت ہوگایانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : وارث سے اس کے حصہ میراث کے بابت جوصلح حیات مورث میں کی جائے تحقیق یہ ہے کہ باطل وبے اثرہے اس سے وارث کاحق ارث اصلاً زائل نہیں ہوتا۔ ہاں اگربعد موت مورث اس صلح پررضامندی رہے تو اب صحیح ہوجائے گی۔
Flag Counter