فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
43 - 145
ملتقٰی میں ہے :
اقربھم جزء المیت وھوالابن وابنہ وان سفل۲؎۔
ان میں سے قریب ترین میت کی جزء ہے، اور وہ میت کابیٹا یا اس کاپوتاہے اگرچہ نیچے تک ہو۔(ت)
(۲؎ ملتقی الابحر کتاب الفرائض فصل فی العصبات مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲ /۳۴۶)
اسی میں ہے :
وتحجب الاخوۃ بالابن وابنہ وان سفل۳؎۔
میت کے بھائی محروم ہوتے ہیں جبکہ اس کابیٹا یاپوتا موجود ہواگرچہ نیچے تک ہوں۔(ت)
(۳؎ملتقی الابحر کتاب الفرائض فصل فی الحجب مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲ /۳۴۸)
تنویرمیں ہے :
یقدم الاقرب فالاقرب منھم کالابن ثم ابنہ وان سفل۴؎۔
ان میں سے جومیت کاسب سے زیادہ قریبی ہے اس کومقدم کیاجائے گا پھر اس کے بعد والا، جیسا کہ میت کابیٹا پھربیٹے کابیٹا اگرچہ نیچے تک چلے جائیں۔(ت)
(۴؎ الدرالمختار شرح تنویرالابصار فصل فی العصبات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۵۶)
توظاہرہواکہ علماء کے نزدیک سفول کاذکر وعدم ذکریکساں ہے تو اگر کہیں سفلیات کاحکم عالیہ کے خلاف ہوتا فقط عدم ذکر سفول پرقناعت نہ فرماتے بلکہ واجب تھا کہ نفی سفلیات بالتصریح بتاتے تاکہ عرف عام شائع سے خلاف مرادپرمحمول نہ ہو توشرح بسیط کاتمسک صراحۃ بالمخالف ہے اور خود شرع مطہر میں اس کی کہاں نظیرہے کہ یہاں سفلیات قوی کاحکم عالیات کے خلاف رکھاہو بلکہ ہمیشہ جس طرح بنات نہ ہوں توبنات الابن ان کی جگہ ہیں اوربنات ابن الابن کی جگہ۔ یوں ہی بنات الابن نہ ہوں توبنات الابن کی جگہ ہیں اوربنات ابن ابن الابن بنات ابن الابن کی جگہ۔ وھلمَّ جرا ایسا واضح مسئلہ اسی قابل تھا کہ علماء اسے اعتماد فہم سامع پر چھوڑ جاتے مگرجزاہم اﷲ احسن جزاء انہوں نے اسے بھی مہمل نہ چھوڑا اور
میں صاف صاف بلاخلاف حکم مذکور عصوبت اخوات مع بنات الابن کاسفلیات کوشمول بھی بتادیا، اب ناظر متعجب ہوگا کہ یہ کیونکر۔ ہاں یہ فقیر سے سنئے۔ زید نے دوبنت ابن الابن اور دواخت چھوڑکر انتقال کیا بنتین ابن الابن کے لئے تو یہاں یقینا ثلثین ہے جس میں کسی ادنٰی طالب علم کوبھی محل ریب نہیں، اوراخوت کے پانچ حال ہیں، ایک کونصف، زائد کوثلثان، بھائی) کے ساتھ
للذکر مثل حظ الانثیین ۱؎
(مذکر کے لئے دومؤنثوں کے حصہ کی مثل ہوتا ہے۔ت) بنات کے ساتھ عصوبت ابن واب وان سفل وعلا کے ساتھ سقوط پہلی اورتیسری اورپانچویں حالت توصورت مذکورہ میں بداہۃً نہیں اب اگر چوتھی نہ مانو تو دوسری متعین ہوگی اوراختین بھی ثلـثین کی مستحق ہوں گی۔ یہ اولاً خود باطل ہے، علماء تصریح فرماتے ہیں کہ کسی مسئلے میں دوبار ثلثین جمع نہیں ہوسکتے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۴ /۱۱)
مجمع الانہر میں ہے :
لایتصور فی مسئلۃ فقط اجتماع ثلثین وثلثین اوثلث وثلث وثلثین۲؎۔
کسی مسئلہ میں یہ بالکل متصورنہیں کہ اس میں دوتہائی اوردوتہائی (دوبار) یا ایک تہائی اورایک تہائی اوردوتہائی جمع ہوجائیں۔(ت)
(۲؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب الفرائض فصل فی العول داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۷۶۱)
ثانیاً اس تقدیر پراصل مسئلہ تین سے ہوکر بوجہ اجتماع دوثلثین چارکی طرف عول کرنا واجب ہوگا حالانکہ کتب مذہب میں قاطبۃً تصریح ہےکہ تین ان اصول میں ہے جن میں کبھی عول نہیں ہوتا۔
سراجیہ میں ہے :
اعلم ان مجموع المخارج سبعۃ اربعۃ منھا لاتعول وھی الاثنان والثلثۃ والاربعۃ والثمانیۃ۱؎۔
توجان لے کہ کل مخارج سات ہیں، ان میں سے چارہیں جن میں عول نہیں کرتا اوروہ یہ ہیں دو، تین،چار اورآٹھ۔(ت)
(۱؎ السراجی فی المیراث باب العول مکتبہ ضیائیہ راولپنڈی ص۳۱)
شریفیہ ومنح الغفار وردالمحتار وغیرہ میں ہے :
اتعول اصلا لان الفروض المتعلقۃ بھذہ المخارج الاربعۃ اما ان یفی المال بھاء ویبقٰی منہ شیئ زائد علیھا۔۲؎
ان میں عول بالکل نہیں ہوتا کیونکہ ان چار مخرجوں سے جوفرضی حصے تعلق رکھتے ہیں یاتو ترکہ کامال ان پرپورا ہوجاتاہے یاان حصوں سے کچھ مال زائد بچ جاتاہے۔(ت)
(۲؎ الشریفیۃ شرح السراجیۃ باب العول مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۵۶)
یہ بھی تصریح ہے کہ دوثلثین جمع نہیں ہوسکتے،
نیزشریفیہ وغیرہا میں ہے
لاعول فی الثلثۃ لان الخارج منھا اماثلث ومابقی کام واخ لاب و ام واما ثلثان ومابقی کبنتین واخ لاب وام واما ثلث وثلثان کاختین لام واختین لاب وام۳؎۔
تین میں عول نہیں ہوتاکیونکہ اس سے جوحصے نکلتے ہیں وہ یاتوایک تہائی اورباقی بچ رہنے والاہے، جیسے میت کی ماں اورحقیقی بھائی کی صورت میں ہوتا ہے یا دوتہائی اورباقی بچ جانے والا ہے، جیسے میت کی دوبیٹیوں اورحقیقی بھائی کی صورت میںہوتا ہے یاایک تہائی اوردوتہائی ہیں جیسا کہ میت کی دواخیافی بہنوں اوردوحقیقی بہنوں کی صورت میں ہوتاہے۔(ت)
اس حصر میں اوربھی واضح کردیا کہ اختین کوبنتین ابن الابن کے ثلثین کے ساتھ ثلثین دینامحض باطل ہے۔