فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
سوم اس کے حق کے برابرہو، مثلاً مکان وغیرہ چھ ہزار کے ہوتے اوراٹھارہ ہزار کے نوٹ۔ صورت ثالثہ میں واجب ہے کہ بقیہ ورثہ کومال اسی حساب سے پہنچے گا جوعدم تخارج کی حالت میں پہنچتا۔ تخارج کا اثرصرف اس قدرہوگا جواعیان کے تقسیم کاہوتاہے کہ ہرایک اپناکامل حصہ بے کم وبیش پاتاہے حصے کہ ہرشیئ میں مشاع تھے فقط جداہوجاتے ہیں۔
صورت اولٰی میں جبکہ باقی میع ورثہ کے ساتھ اس وارث نے مصالحہ کیا اور وہ مال جس میں ہرایک کاحق تھا تنہاخود لیا اوراپنے حصہ سے کم پرراضی ہوا توجوکچھ اس کے حصے کاباقی رہاواجب ہے کہ ان سب وارثوں کوپہنچے نہ کہ صرف ایک اس زیادت کامالک ہوجائے دوسرامحروم کیاجائے کہ یہ محض ظلم ونا انصافی ہوگا اورپہنچنا بھی ضرورہے کہ حصہ رسد ہویعنی ہرایک کواس حساب سے بڑھے جواصل ترکہ میں اس کاحق تھا کہ وہ شیئ جو وارث مذکورلے کرجداہوگیاہے اس میں ہرایک کاحصہ اسی حساب سے تھا۔ صورت ثانیہ میں سب بقیہ ورثاء اس وارث کوزیادہ دینے پرراضی ہوئے ہیں تو واجب ہے کہ وہ زیادت ہرایک کے حق سے حصہ رسد لی جائے نہ یہ کہ سارا بارایک وارث پرڈال دیں حالانکہ ان میں سب کے حصے تھے اورسب راضی ہوئے تھے۔ یہ باتیں سب ایسی ہی بدیہی ہیں
جنہیں ہرعاقل ادنٰی نظرسے سمجھ سکتاہے۔ فقیرنے جوحکم گزارش کیا اس میں ہرصورت پریہ میزان عدل اپنی پوری استقامت پررہے گی، صورت اولٰی میں جبکہ زوجہ کاحق چھ ہزارتھے اوروہ تین ہزار پرراضی ہوگئی توباقی تین ہزار فاطمہ بیگم واسدعلی کوان کے حصص کے قدرپہنچنے واجب ہیں فاطمہ بیگم کاحصہ بارہ ہزاراوراسدعلی کاچھ ہزار تھا یعنی فاطمہ بیگم کا اس سے دوگنا، اور اسی حساب سے زیورومکان واثاث البیت میں ان دونوں نے اپناحصہ زوجہ کے لئے چھوڑاہے۔ فاطمہ بیگم کے دوحصے اسے ملے اوراسدعلی کاایک توضرور ہے کہ معاوضہ کے تین ہزار سے بھی فاطمہ بیگم کو دوہزارملیں اوراسدعلی کوہزار کہ ان کے اصل حصوں سے مل کر فاطمہ بیگم کے چودہ ہزار اور اسدعلی کے سات ہزار ہوجائیں۔ صورت ثانیہ میں زوجہ نے چھ ہزار اپنے حق سے زائدپائے۔ بہن بھتیجا دونوں اس زیادت پرراضی ہیں توہرایک کے حصہ سے حصہ رسد یہ زیادت نکالنی لازم۔ بہن کے بارہ ہزار سے چارہزار نکالیں، اوربھتیجے کے چھ ہزار سے دوہزار۔ اب بقیہ بارہ ہزار میں بہن کے آٹھ ہزار، بھتیجے کے چارہزار رہے۔ اوروہی نسبت دواورایک کی آگئی۔ صورت ثالثہ توخود ایسی ظاہرہے کہ حاجت اظہارنہیں، عورت کوچھ ہی ہزارپہنچتے ہیں جواس کاحق تھے، توبہن بھتیجے کسی کے حق میں ایک حبّہ کم نہ ہوناچاہئے نہ زائد، لیکن وہ طریقہ کہ مولوی صاحب نے اختیارکیااس پرکسی صورت میں ہرگز عدل کانام ونشان نہ رہے گا۔ پہلی صورت میں عورت کے تین ہزارنکل کراکیس ہزارفاطمہ بیگم واسدعلی پرنصفاً نصف سے دونوں کوساڑھے دس دس ہزارپہنچے اورچارسخت شناعتیں لازم آئیں:
(۱) تین ہزار کہ حق زوجہ سے چھوٹے تھے دونوں کوملنے چاہئے تھے بہن کو ان سے ایک حبّہ نہ پہنچا۔ (۲) اگرنہ پہنچا تھا تو اس کا اپنا اصل حصہ کہ بارہ ہزار تھے وہ توملتاڈیڑھ ہزار اس میں سے بھی کترگئے، یہ کس قصور کاجرمانہ تھا۔ (۳) بھتیجا تنہا اس زیادت کامستحق نہ تھا حالانکہ صرف اس نے پائی۔ (۴) بالفرض اسی کوملتی توعورت نے صرف تین ہی ہزار توچھوڑے تھے بھتیجے کے اصل حصے چھ ہزار میں مل کرنوہزار ہوتے یہ پندرہ سو اورکس کے گھرآئے۔
دوسری صورت میں عورت کو اس کے حق سے چھ ہزار زیادہ پہنچ کربقیہ بارہ ہزار بالمناصفہ بنے اور ویسی ہی شناعتیں پیش آئیں۔ بہن بھتیجا دونوں اپنے نقص حصص پرراضی ہوئے تھے مگر پورانزلہ بہن پرگرا۔ کامل چھ ہزاراسی کے سہم سے اڑگئے اوربھتیجے نے اپناپوراحصہ چھ ہزار پالیا۔ زیورمکان وغیرہا متاع میں بہن کے بھی دوحصے تھے اورنوٹوں میں عورت کاحق تھا بہن نے متاع میں اپناحصہ چھوڑا اورنوٹوں میں معاوضہ ایک حبہ بنایا اس کاحصہ مفت کاتھا
الٰی غیرذٰلک مما یخاف ولایخاف الانصاف(وغیرہ ذالک
جس کاڈرہے اور ڈرنہیں مگرانصاف کا ۔ ت)
تیسری صورت سب سے روشن ترہے کسی وارث نے اپنے حصہ سے کچھ نہ چھوڑا، عورت کوجوچھ ہزارچاہئیں تھے بے کم وبیش اتنے ہی ملے اب وہ کون سا جرم ہے جس کے سبب فاطمہ بیگم کاحق ایک چہارم کااڑگیا اوروہ کون سی خدمت ہے جس کے صلہ میں اسدعلی نے اپنے حق سے دیوڑھاپالیا۔ اگرنوٹ ومتاع کی تبدیلی نہ کرتے توفاطمہ بیگم بارہ ہزار پاتی اوراسدعلی ولطیفن چھ چھ ہزار، صرف اس تبدیلی نے وہ کایاپلٹ کی کہ لطیفن کے چھ ہزار نکل کرفاطمہ کے بارہ ہزار سے نوہزاررہ گئے اوراسدعلی کے چھ ہزار سے نوہزار ہوگئے۔ اس واضح روشن بدیہی بیان کے بعد کسی عبارت کی بھی حاجت نہ تھی مگرزیادت اطمینان عوام کے لئے ایسی کتاب کی صریح تصریح حاضرجو علم فرائض کی سب سے پہلی تعلیم کافی و وافی ومکمل اورہرمدرسے کے مبتدی طلبہ میں بھی مشہور ومعروف ومتداول ہے یعنی متن اما م سراج الدین وشرح علامہ سید شریف قدس سرہما اللطیف فرماتے ہیں :
(من صالح من الورثۃ علی شیئ معلوم من الترکۃ فاطرح سھامہ من التصحیح) ای صحح المسئلۃ مع وجود المصالح بین الورثۃ ثم اطرح سھامہ من التصحیح (ثم اقسم باقی الترکۃ) ای مابقی منھا بعدما اخذہ المصالح (علی سھام الباقین) من التصحیح (کزوج وام وعم) فالمسئلۃ مع وجود الزوج من ستۃ وھی مستقیمۃ علی الورثۃ للزوج(عہ ۱) ثلٰثۃ وللام السھمان(عہ۲) وللعم سھم(عہ۳) (فصالح الزوج) من نصیبہ الذی ھوالنصف (علٰی مافی ذمتہ للزوجۃ من المہر وخرج من البین فیقسم باقی الترکۃ) وھو ماعدالمھر (بین الام والعم اثلاثا بقدر سھامھما من التصحیح (وحینئذ یکون سھمان) من الباقی للام و سھم واحد للعم کما کان کذٰلک (عہ۴) فی سھامھما من التصحیح فانقلت ھلّا جعلت الزوج بعد المصالحۃ و اخذہ المھر وخروجہ من البین بمنزلۃ المعدوم وایّ فائدۃ فی جعلہ داخلا فی تصحیح المسئلۃ مع انہ لایاخذ شیئا وراء ما اخذہ قلت فائدتہ انالوجعلناہ کان لم یکن وجعلنا الترکۃ ماوراء المھر لانقلب فرض الام من ثلث اصل المال الٰی ثلث مابقی اذحینئذ یقسم الباقی بینھما اثلاثا فیکون للام سھم وللعم سھمان وھو خلاف الاجماع اذ حقہا ثلث الاصل واذا ادخلنا الزوج فی اصل المسئلۃ کان للام سھمان من الستۃ وللعم سھم واحد فیقسم الباقی بینھما علی ھٰذا الطریق فتکون مستوفیۃ حقہا من المیراث۱؎۱ھ واﷲ تعالٰی اعلم ۔
جس وارث نے ترکہ سے کوئی معین شیئ لے کر دیگرورثاء سے مصالحت کرلی تواس کاحصہ تصحیح میں سے نکال دو یعنی اس کووارثوں کے درمیان موجود تصورکرکے مسئلہ کی تصحیح کردو اورپھرتصحیح میں سے اس کے حصے نکال دو۔ پھرصلح کرنے والے نے جب معین شیئ لے لی توتصحیح میں سے جوباقی بچا اس کودیگرورثاء کے حصوں پرتقسیم کردو جیسے کوئی خاتون اپناشوہر، ماں اور چچا چھوڑکرفوت ہوگئی تومسئلہ خاوند کی موجودگی میں چھ سے بنے گا جوکہ ورثاء پربرابرتقسیم ہوجائے گا، خاوند کوتین، ماں کودو اورچچا کوایک حصہ ملے گا۔ چونکہ شوہر اپنے ذمہ مہر کے بدلے میں ترکہ میں سے اپناحصہ جوکہ نصف ہے چھوڑنے پرصلح کرکے وارثوں کے درمیان سے خارج ہوگیا لہٰذاباقی ترکہ جوکہ مہر کے علاوہ ہے ماں اورچچا کے درمیان تصحیح میں سے ان کے حصوں کے مطابق تین پرتقسیم ہوگا۔ اوراس صورت میں مہر کونکال کرباقی ترکہ میں سے دو حصے ماں کواورایک حصہ چچاکوملے گا۔ جیسا کہ یہی حال تصحیح سے حاصل شدہ ان دونوں کے حصوں میں تھا اگرتوکہے کہ صلح کے بعد اورشوہر کے مہر کو لے لینے اور وارثوں کے درمیان سے نکل جانے کے بعد تم نے شوہر کوبمنزلہ معدوم کے کیوں قرارنہیں دیااس کومسئلہ کی تصحیح میں داخل کرنے کاکیافائدہ ہے باوجودیکہ وہ اس کے ماسوا کچھ نہیں لیتا جوکچھ وہ لے چکاہے؟ میں کہوں گا اس کافائدہ یہ ہے اگر ہم اس کوکالعدم قراردیتے اورمہر کے ماسوا کو ترکہ بناتے توماں کافرضی حصہ مال کی تہائی سے باقی مال (مہرنکالنے کے بعد) کی تہائی کی طرف منتقل ہوجاتا، کیونکہ اس صورت میں باقی مال ان دونوں(ماں اورچچا) کے درمیان تین حصوں میں تقسیم ہوتا جس میں سے ماں کوایک حصہ اورچچا کودوحصے ملتے اور وہ اجماع کے خلاف ہے اس لئے کہ ماں کاحق اصل ترکہ کا ایک تہائی ہے۔ اورجب ہم نے شوہر کواس مسئلہ میں داخل رکھا توماں کے لئے چھ میں سے دوجبکہ چچا کے لئے ایک حصہ ہوا۔ چنانچہ مہرنکالنے کے بعد باقی بچ جانے والا مال ان دونوں کے درمیان اسی طریقے پرمنقسم ہوگا، تو اس طرح ماں میراث میں سے اپنا پوراحق وصول کرے گی۱ھ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے،
(عہ۱: فی النسخۃ التی بایدینا وللزوج منہا سہام ثلٰثۃ۔) (عہ۲: السھمان کذا فی نسختنا۔) (عہ۳: وللعم الیک قوموسہم کذا عندنا۔) (عہ۴: کماکان الحال کذٰلک کذا بنسختنا۔)
(۱؎ الشریفیۃ شرح السراجیۃ فصل فی التخارج مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور۷۳و۷۴)
واعلم ان ھٰھنا طریقہ اخرٰی اخذبھا بعض المشائخ رحمھم اﷲ تعالٰی لاتعلق لھا عندی بما نحن فیہ وان فرض فانما یکون علیھا فی الصورۃ المسئول عنہا لفاطمۃ ثلثۃ عشر الفا ومائۃ وخمسۃ وعشرون ولاسد علی سبعۃ اٰلاف وثمان مائۃ وخمسۃ وسبعون لم نخترھا لان العمل والفتیا بالراجح لاسیما المذھب وانت تعلم ان ھذہ ایضا لاتوافق ماسلکہ المجیب اللکنوی فہو خلاف الاجماع قطعاً وباﷲ العظمۃ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
تو جان لے کہ یہاں ایک اورطریقہ جس کو بعض مشائخ رحمہم اﷲ تعالٰی نے اختیارکیامیرے نزدیک زیربحث مسئلہ سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ اگرہم اس کو فرض کرلیں تو اس تقدیر پر صورت مسئولہ میں فاطمہ کے لئے تیرہ ہزار ایک سوپچیس اوراسد علی کے لئے سات ہزارآٹھ سوپچھترحصے ہوں گے۔ ہم نے اس کواختیارنہیں کیا کیونکہ عمل اورفتوٰی قول راجح پرہوتاہے خصوصاً جبکہ وہ مذہب ہو۔ اورتوجانتاہے کہ یہ طریقہ بھی اس طریقے کے موافق نہیں جس پرمجیب لکھنوی چلے ہیں تو وہ قطعی طورپر خلاف اجماع ہوا۔ اوراﷲ تعالٰی ہی سے عظمت حاصل ہوتی ہے اور اﷲ سبحانہ، وتعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)