فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم، الحمد ﷲ الذی ادخلنا فی السلم، وعاملنا بالمن والعفو والحلم، وعلمنا من العلم ومن نصف العلم، والصلٰوۃ والسلام علی الجواد الکریم الفائض علی عبیدہ من علم الفرائض، وعلٰی اٰلہ وصحبہ واحبابہ وارثی علمہ واٰدابہ۔ اٰمین!
اﷲ کے نام سے شروع جوبہت مہربان رحمت والا ہے، تمام تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں جس نے اسلام میں داخل فرمایا اورہمارے ساتھ احسان، درگزراورنرمی کامعاملہ فرمایا۔ اورہمیں علم اورنصف علم (علم فرائض) سکھایا۔ اوردرود وسلام ہو اس ذات پرجوسخی، کرم فرمانے والا، اپنے غلاموں پرعلم میراث کافیضان فرمانے والا ہے اورآپ کی آل واصحاب اوردوستوں پرجوآپ کے علم اور آداب کے وارث ہیں۔ الٰہی ! قبول فرما۔(ت) امّابعد، یہ بعض مسائل فرائض ہیں جو فقیر کے سامنے پیش ہوئے اورابنائے زمان نے ان کی فہم میں اغلاط کئے۔ مقصودازالہ اوہام واغلاط واراءت سواء الصراط ہے، وباﷲ التوفیق۔
فصل اوّل
مسئلہ ۹۳ : ۱۴محرم الحرام ۱۳۲۱ھ اعلٰیحضرت مجدّدمائۃ الحاضرہ دام ظلکم العالی، وقت قدم بوسی خادم نے مسئلہ پوچھاتھا کہ قمرعلی نے زوجہ لطیفن بیگم اورحقیقی بہن فاطمہ بیگم اور حقیقی بھتیجا اسدعلی اورمکان وزیور واثاث البیت مجموع تین ہزارروپے کا اوراکیس ہزار ے نوٹ چھوڑکرانتقال کیا، زوجہ نے مہرمعاف کردیاتھا اور وہ برضائے فاطمہ بیگم واسدعلی اپنے حصہ ترکہ کے عوض مکان وزیورواثاث البیت پرقابض رہیں اورباہم وارثان میں اقرارنامہ لکھاگیا کہ فاطمہ بیگم واسدعلی کا ان اشیاء میں اور لطیفن بیگم کازرنقد مذکور میں کوئی حصہ باقی نہ رہا، اب وہ نوٹ فاطمہ بیگم واسدعلی میں کس حساب سے تقسیم ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ چودہ ہزار کے نوٹ فاطمہ بیگم اورسات ہزار کے نوٹ اسدعلی کوملیں۔ چنانچہ خادم نے اسی کے مطابق تقسیم کرادئیے، دوسرے روز اسدعلی آئے اور کہامیراحق زیادہ چاہئے مجھے اس میں ساڑھے تین ہزار روپے کانقصان ہے، اورفتاوٰی مولوی عبدالحی صاحب جلداول مطبع علوی ص۱۰، ۱۱ کی عبارت پیش کی کہ اس کی رو سے روپیہ مجھ میں اورفاطمہ بیگم میں نصفا نصف تقسیم ہوناچاہئے،
اس کاخلاصہ عبارت ملاحظہ اقدس کے لئے حاضرکرتاہوں :
چہ می فرمایند علمائے دین اندریں صورت کہ زید انتقال کردورثہ گزاشت یکے ہمشیرہ عینیہ مسمی بہ رابعہ وسہ برادرزادیاں مسمّی فاطمہ وزینت وکلثوم ویک برادرزادیان مسمی فاطمہ وزینب وکلثوم ویک برادرزادہ حقیقی مسمے بکر ویک زوجہ مسماۃ خدیجہ کہ جملہ ورثہ مذکورہ صلبی او راحصہ ہشتم داد وراضی کردہ اند پس بقیہ متروکہ زید کہ چگونہ تقسیم باید ھوالمصوب بعد تقدیم ماتقدم علی الارث ورفع موانع بقیہ ترکہ زیدتقسیم بدوسہم شدہ یک سہم ازاں بہمشیرہ حقیقی ویک سہم بہ برادر زادہ خواہد شد باقی ورثہ محجوب خواہند شد۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ کتبہ ابوالحنات محمدعبدالحی عفاعنہ القوی۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ زید نے یہ ورثاء چھوڑکرانتقال کیا، ایک حقیقی بہن جس کانام رابعہ ہے، تین بھتیجیاں جن کے نام فاطمہ، زینب اورام کلثوم ہیں، ایک حقیقی بھائی جس کانام بکرہے اورایک بیوی جس کانام خدیجہ ہے۔ تمام مذکورہ بالانسبی وارثوں نے بیوی کوآٹھواں حصہ دے کرراضی کردیاہے۔ زیدکابقیہ ترکہ کیسے تقسیم ہوناچاہئے؟ ھوالمصوب۔ جوچیزیں میراث پرمقدم ہیں ان کی تقدیم اور رکاوٹوں کے رفع کے بعد زیدکابقیہ ترکہ دوحصوں پرمنقسم ہوگا۔ اس میں سے ایک حقیقی بہن اورایک بھتیجے کودیاجائے گا باقی ورثاء محروم ہوں گے۔ اوراﷲ تعالٰی درستگی کوخوب جانتاہے۔ اس کو محمدعبدالحی نے لکھاہے قوت والارب اس سے درگرفرمائے(ت)
جواب کی پوری عبارت عرض کی ہے یہ صورت بعینہٖ وہی صورت واقعہ ہے، حضرت نے اگرچہ حکم زبانی فوراً ارشاد فرمایاتھا مگرکتاب کاحوالہ مولوی عبدالحی صاحب نے بھی نہیں دیاہے لہٰذا امیدوارہوں کہ اس مسئلہ کی مفصل حقیقت نہایت عام فہم ارشاد ہو۔ ظلکم ممدودبادبندہ محمداحسان الحق عفی عنہ۔ ۱۴محرم شریف ۱۳۲۱ھ
الجواب : مکرمی اکرمکم اﷲ تعالٰی السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ،
حق وہی ہے جوفقیرنے عرض کیاتھا، مولوی صاحب سے سخت لغزش واقع ہوئی ہے اس صورت کو فقہ میں تخارج کہتے ہیں کہ ورثہ باہم بتراضی صلح کرلیں کہ فلاں وارث اپنے حصہ کے عوض فلاں شَے لے کرجدا ہوجائے، اس کاحاصل یہ نہیں ہوسکتا کہ گویا وہ وارث کہ جداہوگیا سرے سے معدوم تھا کہ بقیہ ترکہ کی تقسیم اس طرح ہو جو اس کے عدم کی حالت میں ہوتی اس نے ترکہ سے حصہ پایا ہے تو معدوم کیونکر قرارپاسکتاہے کہیں معدوم وقت موت المورث کوبھی ترکہ پہنچاہے، بلکہ اس کاحاصل یہ ہے کہ ترکہ میں جتنے سہام کل ورثہ کے لئے تھے ان میں سے اس وارث نے اپنے سہام پالئے اب باقی میں باقی وارثوں کے سہام رہ گئے تو واجب ہے کہ وہ باقی ان بقیہ کے (اتنے اتنے،عہ) سہام ہی پرتقسیم ہو۔
عہ : اصل میں ایساہی ہے شاید یہاں کچھ چھوٹ گیاہے اورغالباً عبارت یوں ہے : اس قدرسہام ہی پریا اتنے ہی سہام ہی ہے، لہٰذاقوسین میں بنادیاہے۔ازہری غفرلہ،
جس جس قدر انہیں اصل مسئلہ سے پہنچتے تھے یہاں کے مورث نے ایک زوجہ ایک بہن ایک بھتیجا چھوڑا مسئلہ چار سے ہوا ایک زوجہ دوبہن ایک بھتیجے کا، زوجہ ترکہ سے اتنامال لے کرجداہوگئی توچار میں سے اس کاایک اداہولیا باقی تین رہے جن میں دوبہن کے ہیں اورایک بھتیجے کا، تولازم ہے کہ باقی مال یونہی تقسیم ہو، بہن کودو، بھتیجے کوایک، نہ کہ دونوں کونصفا نصف کہ اس تقدیر پربہن کاحصہ نصف، باقی بعد فرض الزوجہ ہوجائے گا یعنی زوجہ کاحصہ نکال کر جوبچا اس کاآدھا حالانکہ نص قطعی قرآن عظیم سے بہن کاسہم نصف کل متروکہ تھا۔
قال اﷲ تعالٰی ان امرؤ ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ماترک ۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا : اگرکسی مرد کاانتقال ہوجو بے اولادہے اوراس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کاآدھا ہے۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴ /۱۷۶)
لاجرم یہ سراسرغلط اورحسب تصریح علمائے کرام خلاف اجماع ہے، زیادہ ایضاح چاہئے باآنکہ مسئلہ خود آفتاب کی طرح واضح ہے۔ تویوں سمجھئے کہ یہاں تین صورتیں ہیں : اول یہ کہ وہ مال ترکہ جوایک وارث لے کرجدا ہوا اس کے اصل استحقاق سے کم ہو جیسا یہاں واقع ہوا کہ زوجہ کاحصہ چہارم تھا اوروہ آٹھویں پرراضی ہوگئی۔ دوم اس کے حق سے زیادہ ہو، مثلاً صورت مذکورہ میں مکان وزیورواثاث البیت ۱۲ہزار کے ہوتے اوربارہ ہزار کے نوٹ توزوجہ کوبجائے ربع نصف مال پہنچتا۔