فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
مسئلہ ۶ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدمرا اور وارثوں میں اپنی دوزوجہ اورزوجہ اولٰی کامہرسوالاکھ روپیہ کا اورایک دختربھی ہے اور زوجہ ثانی لاولد اورمہراس کا دس ہزارروپیہ تک ہے، اورایک بھائی، کتنے سہام پرجائداد تقسیم ہوگی؟ بیّنواتوجروا
الجواب : سائل مظہر کہ جائدادبقدر (عہ/ )کے ہے اور حکم شرع میں ادائے مہر ودیگردیون تقسیم ترکہ پرمقدم اس صورت میں کہ مقدار دونوں مہروں کی حیثیت جائداد سے زائدہے، کسی وارث کو جائداد میں استحقاق مالکانہ نہیں، لہٰذا کل جائداد متروکہ سے جو بعدتجہیزوتکفین کے باقی رہا دونوں زوجہ کے مہر اور ان کے سوا اگرکوئی اور دین ہو تو ان کے ساتھ وہ بھی سب بطورحصہ رسد اداکردئیے جائیں اور کسی وارث کو کچھ نہ ملے گا مگر یہ کہ مہرمعاف ہوجائے یاکوئی وارث جائداد کے خالص کرلینے کو اپنے پاس سے ادا کردے تو بعد ادائے دین و اجراء وصیت جوبچے گا سولہ۱۶ سہام پر منقسم ہوکر ایک سہم ہرزوجہ اور آٹھ سہم دختر اور چھ برادر کو ملیں گے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۷: ۸ ربیع الثانی ۱۳۰۷ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جائداد کے مالک زیدوعمرو وبکر سہ برادران حقیقی تھے، اول زید فوت ہوا، خالد وعمدہ والدین چھوڑے۔ پھر عمدہ نے عمروبکر پسر ہندہ سعیدہ دختر خالدشوہر چھوڑے پھرخالد نے وارثان مذکور سے انتقال کیا پھرعمرو نے زوجہ خدیجہ چھوڑ کر لاولد وفات پائی پھرہندہ شوہر عبداﷲ پسرحامد محموددختر فاطمہ چھوڑ کر مرگئی، ترکہ کیونکر منقسم ہوگا؟ بیّنواتوجروا۔ الجواب : برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وصحت ترتیب اموات وتقدیم مایقدم کالمہروالدین والوصیۃ ایک ثلث جائداد کہ حصہ زید ہے نوسوساٹھ ۹۶۰سہام پرمنقسم ہوکرورثہ احیاء پر جس حساب سے بٹ جائے۔
26_1.jpg
وذٰلک لان التصحیح یبلغ الفین وثمان مائۃ وثمانین ۲۸۸۰ وکأن ینقسم ھٰکذا۔
اور یہ اس لئے ہے کہ تصحیح دو ہزار آٹھ سو اسی ۲۸۸۰ تک پہنچتی ہے گویا اس طرح تقسیم ہوتی ہے۔(ت)
26_2.jpg
کما یظھر بالتخریج فوجدنا فی السھام کلھا موافقہ بالثلث فرددنا المسئلۃ للاختصار الٰی ماترٰی۔
جیسا کہ تخریج سے ظاہرہوتاہے، پس ہم نے تمام حصوں میں تہائی کاتوافق پایا تو ہم نے مسئلہ کواختصار کے لئے تہائی کی طرف لوٹادیا جیسا کہ تو دیکھ رہاہے۔(ت) اورثلث دوم کہ حصہ عمروہے تین سو برس سہام پر انقسام پاکریوں ہروارث کوملے۔
26_3.jpg
کما یظہر بالمناسخۃ (جیسا کہ سے ظاہرہوتاہے۔ت) اورثلث سوم خاص بکرکاہے اور اگرساری جائداد ملاکر دفعۃً تقسیم کرلینا چاہیں تو بہت اختصار ہوجائے گا کل جائداد کے ایک سو چوالیس حصے کرکے اس طرح تقسیم کریں ہرایک اپنے تمام حقوق کو پہنچ جائے گا:
26_4.jpg
یہ اختصار قابل امتحان طلبہ ہے کہ کیونکر ان سہام میں بکرکاثلث الگ ہوکر دونوں ترکے پورے پورے تقسیم ہوگئے
من دون ان یمکن فرض باطل کجعل المورث الاعلی واحدا اولیستعان بقاعدۃ فوق التقسیم المفرد علٰی ضوابطہا المقررۃ عند الحساب (بغیر اس کے کہ کسی باطل کو فرض کیاجائے مثلاً صورت اعلٰی کو ایک قراردیاجائے یاتقسیم مفرد کے اوپروالے قاعدے سے ان ضوابط کے مطابق مدد لی جائے جو حساب میں طے شدہ ہیں۔ت) مگریہ جبھی ممکن کہ وقت تقسیم تینوں بھائی جائداد میں بحصہ مساوی شریک ہوں عام ازیں کہ اول ہی سے برابرتھے اور زیدوعمرو کے ترکہ پر دین وصیت کچھ نہ تھا یاتھا اور اس جائداد کے غیر سے اداکردیاگیا یا اول سے مختلف تھے اوردیون ووصایائے زیدوعمرو اس ترکہ سے اداہوکر اب تینوں حصے برابرآگئے اوراگروقت تقسیم کمی بیشی ہے خواہ ابتداء سے تھی یا اب بوجہ ادائے دین ووصیت ہوگئی توتقسیم کی وہی پہلی صورت رہے گی کہ ہرایک کا جدا بٹے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸ : ۱۲ذی الحجہ ۱۳۰۷ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید لڑکا بعمر ڈھائی برس اور زوجہ اوروالدہ اپنی اوربرادرحقیقی چھوڑکرفوت ہوگیا بعدہ، بلااجازت زوجہ زید کے چچازیدمتوفی نے مال متروکہ زید ونیزمال جہیزی زوجہ زید کا پسرزید کے نام کرکے تابلوغ پسرمذکور سپردبرادرحقیقی زید کے کردیا وقت سپردگی مال مذکور کے نانا لڑکے اور نیز اہل برادری نے سپردگی مال میں رضامندی ظاہرکی پس اس صورت میں جو رضامندی اور اجازت زوجہ زید سے نہیں لی گئی مال لڑکے کے نام قائم کرنا اوربرادرحقیقی زید کے سپرد کرنا جائزہے یانہیں؟ اور مال زید کے سہام پر تقسیم ہوگا؟ بینواتوجروا(بیان کیجئے اجرپاؤگے۔ت)
الجواب : مال جہیزتو خاص ملک زوجہ زید ہے نہ وہ زید کا ترکہ نہ زید کے کسی وارث کا اس میں کوئی حق۔ ردالمحتار میں ہے :
کل احد یعلم ان الجہاز ملک المرأۃ لاحق لاحدفیہ۱؎۔
ہرایک جانتاہے کہ جہیز عورت کی ملک ہوتاہے اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار باب النفقہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۶۵۳)
اورمتروکہ زید برتقدیر عدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امور مقدمہ علی المیراث مثل ادائے مہر ودیگر دیون وتنفیذوصایا، چوبیس سہام پر منقسم ہوکرتین سہم زوجہ اورچار والدہ اور سترہ پسر کو ملیں گے تو متروکہ زید میں بھی چوبیس سہام سے سترہ کا استحقاق پسر کو تھا کل ترکہ زید بنام پسر زید کردینا ظلم وجہالت ہے اور اس کے ساتھ زوجہ زید کا جہیزبھی ملادینا اور ظلم برظلم اورنانا یا اہل برادری کی رضامندی کوئی چیزنہیں کہ وہ غیرمالک ہیں۔
قال اﷲ تعالٰی یٰایھا الذین اٰمنوا لاتأکلوا اموالکم بینکم بالباطل۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا : اے ایمان والوآپس میں ایک دوسرے کامال ناحق نہ کھاؤ(ت) پس کل مال لرکے کے نام قائم کرنا اور برادرزید کی سپردگی میں دیناسب بیہودہ و باطل ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۲؎ القرآن الکریم ۴ /۲۹)