Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
39 - 145
مسئلہ ۹۰ :ازصوبہ نمچ     علاقہ گوالیار     مرسلہ مولوی مبارک حسین صاحب ۲۵/رجب ۱۳۱۸ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک بیوہ عورت نے وفات پائی اور اس نے جوترکہ چھوڑا اس میں کچھ تو اس کاذاتی ہی مال ہے اورکچھ ایساہے جواس کے شوہر نے اپنی حیات میں اسے دے دیاتھا متوفیہ کاکوئی رشتہ دار قریب وبعید نہیں ہے نہ ذوی الفروض میں نہ عصبات میں نہ ذوی الارحام میں، غرضیکہ کسی قسم کاکوئی رشتہ دار نہیں ہے، متوفیہ کے شوہر کا ایک لڑکا پہلی عورت سے ہے اور وہ متوفیہ کے ترکہ کادعوٰی کرتاہے آیاترکہ ذاتی متوفیہ اورا س کے شوہر کا دیاہوا اس لڑکے کوملناچاہئے یانہیں؟ اوراگرملناچاہئے تومتوفیہ کاذاتی وشوہری دونوں یاایک، اوراگرنہ ملناچاہئے تووہ ترکہ کس کوملناچاہئے؟ عملداری ہنود ہونے کی وجہ سے بیت المال بھی نہیں ہے جو اس میں جائے بصیغہ لاوارثی سرکار میں جاناچاہئے یامتوفیہ کے شوہر کالڑکا وارث ہوناچاہئے؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجردئیے جاؤگے۔ت)
الجواب : صورت مستفسرہ میں متوفیہ کاکل متروکہ خواہ اس کاذاتی مال ہو خواہ شوہرکادیاہوابعد ادائے دیون وانفاذ وصایا تمام وکمال فقرائے مسلمین کاحق ہے جوکسب سے عاجز ہوں اور ان کاکوئی کفالت کرنے والانہ ہو۔
فی ردالمحتار ترکۃ لاوارث لھا مصرفہ اللقیط الفقیر والفقراء الذین لااولیاء لھم فیعطی منہ نفقتھم و ادویتھم وکفنھم وعقل جنایتھم کما فی الزیلعی وغیرہ وحاصلہ ان مصرفہ العاجزون الفقراء۱؎ اھ ملتقطا۔
ردالمحتار میں ہے کہ ایساترکہ جس کاکوئی وارث نہ ہو اس کامصرف وہ لقیط ہے جومحتاج ہو اور وہ فقراء ہیں جن کے لئے کوئی ولی نہ ہوں۔ اس میں سے ان کوخرچہ، دوائیں، کفن کے اخراجات اورجنایات کی دِیتیں دی جائیں گی جیسا کہ زیلعی وغیرہ میں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کامصرف عاجز فقراء ہیں اھ التقاط(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الزکوٰۃ    باب العشر    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۵۸)
شوہرکا بیٹا اگرفقیر عاجزہے تووہ بھی اورفقرائے عاجزین کے مثل مستحق ہے ورنہ اس کا اصلاً استحقاق نہیں، نہ متوفیہ کے ذاتی مال میں نہ شوہر کے دئیے ہوئے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۹۱ :     ۳/شعبان المعظم ۱۳۱۸ھ

کیافرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ مسمی حسین بخش کی دختر کانکاح ہوا اور اس نے اپنے شوہر کے یہاں کل ایک گھنٹہ قیام کیا اوربعدہ اپنے والد کے یہاں چلی آئی اور دوماہ بارہ یوم تک بعد نکاح کے زندہ رہی اور اس درمیان میں اپنے شوہر کے یہاں نہ گئی اوراپنے والدین کے یہاں مرگئی اس کے پاس زیور والدین کاتھا اورکچھ زیوراس کے شوہر نے چڑھایاتھا اب اس کاشوہر کل زیورکادعوٰی کرتاہے اوراس کی تجہیزوتکفین اس کے والدین نے کی، اس صورت میں ازروئے شرع شریف اس کاشوہر زیورپانے کامستحق ہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب :  زیور، برتن، کپڑے وغیرہ جوکچھ ماں باپ نے دختر کودیاتھا وہ سب ملک دخترہے اس میں سے بعدادائے دَین اگرذمہ دختر ہونیزاجزائے وصیت اگردخترنے کی ہو ہرچیز کانصف شوہر کاحصہ ہے اورنصف ماں باپ کا، اورجو زیور شوہرنے چڑھایاتھا اس میں ان لوگوں کے رسم رواج کودیکھنا لازم ہے اگروہ چڑھاوا صرف اس نیت سے دیتے ہیں کہ دلہن پہنے مگردلہن کی مِلک نہیں کردیتے بلکہ اپنی ہی ملک رکھتے ہیں جب توچڑھاوا شوہر یاشوہر کے ماں باپ کاہے جس نے چڑھایاہو، اوراگردلہن ہی کو اس کامالک کردیتے ہیں تو وہ بھی مثل جہیزترکہ دختر ہے اسی حساب نصفانصف پرتقسیم ہوگا۔ اور جس طرح شوہر آدھے ترکہ کامستحق ہے یونہی دختر کے والدین شوہر سے آدھا مہرلینے کے مستحق ہیں۔ سائل نے جوبیان کیاکہ عورت صرف گھنٹہ بھرکیلئے دن میں مکان شوہر پرگئی تھی اسی دن اس کے بھائی کی شادی تھی جس میں بلالی گئی اور مکان تنہا میں زن وشوہر نہ رہنے پائے تو اس صورت میں بھی آدھا مہر کامل ہی والدین کوشوہرسے ملے گا کہ قبل خلوت طلاق ہوناسقوط نصف مہرہوتاہے۔ موت اگرچہ قبل خلوت ہوکل مہرکو لازم کردیتی ہے۔
فی الدر یتأکد عند وطیئ اوخلوۃ صحت من الزوج او موت احدھما۱؎ الخ۔
دُرمیں ہے کہ مہروطی کے وقت یاشوہر کی طرف سے خلوت صحیحہ کے وقت یازوجین میں سے کسی ایک کی موت کے وقت لازم ہوجاتاہے الخ۔(ت)توبعد موت کل مہرلازم شدہ سے نصف حصہ زوج ہوا اورنصف والدین کوپہنچے گا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎الدرالمختار        کتاب النکاح    باب المہر    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۹۷)
مسئلہ ۹۲ :ازکانپوربانس منڈی مرسلہ محمدعلیم الدین صاحب     محرم الحرام ۱۳۱۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ محمدیٰسین نے انتقال کیا اپنے وارثوں سے ایک ابن کریم بخش وبنت مریم وزوجہ عمرہ ووالدہ اخیافی وپانچ بھائی اور ایک بہن اخیافی چھوڑی ہنوز ورثہ تقسیم نہیں ہواتھا کہ اس میں سے زوجہ عمرہ نے انتقال کیا اس نے ایک بھائی اخیافی اورایک بہن حقیقی اورایک بیٹا اورایک بیٹی حقیقی چھوڑی، ہنوز ورثہ تقسیم نہیں ہواتھا کہ ان میں سے ایک لڑکے کریم بخش نے انتقال کیا اس نے اپنے وارثوں میں سے ایک زوجہ مسماۃ آمنہ اوربہن حقیقی اورایک دادی اورپانچ چچے اخیافی اورایک پھوپھی اخیافی چھوڑے۔ ازروئے شرع شریف کے کیاحکم ہے؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : عبارت سائل سے ظاہریہ ہے کہ اس کے نزدیک اخیافی سوتیلی کوکہتے ہیں یعنی جسے باپ کی طرف  سے علاقہ ہو اورماں کی طرف سے جدا، ولہٰذا اس نے اخیافی، والدہ کولکھا یعنی سوتیلی ماں۔ اگربہن بھائی اخیافی میں بھی یہی مراد ہے یعنی وہ یٰسین کے سوتیلے بہن بھائی ہیں کہ باپ ایک اورماں جدا، تو اس صورت میں محمدیٰسین کاترکہ برتقدیر عدم موانع ارث ووارث آخروتقدیم دین ووصیت تیس سہام پر منقسم ہوکربیس سہام مریم اورپانچ آمنہ اور ایک یٰسین کے ہرسوتیلے بھائی کوملے گا۔ صورت مناسخہ یہ ہے مگر اخیافی حقیقۃً ان بھائی بہن کوکہتے ہیں جوماں میں شریک ہوں اورباپ جدا۔ اگریہ چھ شخص محمدیٰسین کے ایسے ہی بہن بھائی تھے تو ترکہ بشرائط مذکور صرف چھ سہام پرمنقسم ہوکرپانچ سہم مریم اورایک آمنہ کوملے گا۔ محمدیٰسین کے ان بہن بھائیوں کاکچھ استحقاق نہیں
لانھم من ذوی الارحام والرد مقدم علیھم
 (اس لئے کہ وہ ذوی الارحام ہیں اوررَد ان پرمقدم ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter