Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
38 - 145
توضیحش آنکہ اولاً حافظ جان مُردوہمیں ابناء وبنات ورثہ گزاشت بازنیاز علی گزشت وبقیہ اخوۃ واخوات وارث داشت پس ایں ہردوکان لم یکن شدند ومسئلہ بہ ۱۲ تقسیم یافت چارپسر را ہشت وہر چاردختر راچہار بازامیرعلی بعدہ، محمدعلی مُرد وباقی دوبرادر وخواہران گزاشت بازحبن بازبنی جان مردن وہمیں اخوین واخوات ورثہ گزاشتند پس چارسہم کہ باین سہ می رسید دردوبرادر اعنی کلن ومحمد حسین ودوخواھر اعنی احمدی وبی جان منحصر گردید وایں چارکسان رابجائے شش دہ رسید وحاصل مسئلہ بآں گرائید کہ ازترکہ یک سدس بہ محمد علی وبقیہ پنچ اسداس بریں چہار اشخاص للذکر مثل حظ الانثیین برشش سہم منقسم۔ اول عددیکہ سدس اوبرآوردہ باقی رابر ۶قسمت توانیم سی وشش ست ازہمیں مسئلہ کردیم ۶ بہ محمدعلی رسید وبہریک ازکلن ومحمدحسین دہ وبہریک ازاحمدی وبی جان پنج فامابعد اینہا بی جان مردہ وہمین کلن برادرش وارث گزاشتہ پس او را نیزبرآوردیم وسہم کلن پانزدہ کردیم  فائدہ ایں تصرفات عجیبہ تخفیف عظیمی ست کہ در تقسیم مسئلہ راہ یافت چنانکہ برسالک طریق معہودبموازنہ  ایں طرز محمودروشن شود۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے حافظ جان مرا اور یہی بیٹے اوربیٹیاں ورثاء چھوڑے، پھرنیازعلی فوت ہوااورباقی بہن بھائی وارث چھوڑے، پس یہ دونوں کالعدم ہوگئے۔ اورمسئلہ نے بارہ کے عدد سے تقسیم پائی، چاروں بیٹوں کو آٹھ حصے اور چاروں بیٹیوں کوچارحصے ملے، پھرامیرعلی اور اس کے بعد محمدعلی فوت ہواباقی دوبھائی اوربہنیں چھوڑیں۔ پھرحبن اورپھربنی جان مرگئے اور وہی دوبھائی اوربہنیں ورثاء میں چھوڑے۔ چنانچہ وہ چارحصے جوان تینوں کوپہنچتے ہیں وہ دو بھائیوں یعنی کلن اورمحمدحسین اوردوبہنوں یعنی احمدی اوربی جان میں منحصرہوگئے۔ اور ان چارشخصوں کوبجائے چھ کے دس حصے ملتے مسئلہ کانتیجہ یہ ہواکہ ترکہ میں سے ایک سدس یعنی چھٹا حصہ (۶ /۱) محمدعلی کوملا اورباقی پانچ چھٹے حصے (۶/ ۵) چارشخصوں پر اس طرح تقسیم ہونے ہیں کہ مذکر کاحصہ دومؤنثوں کے برابر ہوتو اس طرح یہ حصے چھ پرمنقسم ہوں گے اوروہ پہلاعدد جس کاچھٹا حصہ نکال کرباقی کو چھ پرتقسیم کریں وہ چھتیس ہے۔ لہٰذا ہم نے چھتیس سے مسئلہ بنادیا، اس میں سے چھ محمدعلی کو اورکلن اورمحمدحسین میں سے ہرایک کودس دس اوراحمدی اوربی جان میں سے ہرایک کوپانچ پانچ حصے دئیے۔ لیکن ان کے بعد بی جان فوت ہوئی اوروہی کلن اپنابھائی وارث چھوڑا چنانچہ ہم نے بی جان کوتقسیم سے نکال دیا اور کلن کے حصے پندرہ کردئیے۔ ان عجیب تصرفات کافائدہ اس مشقت میں کافی حد تک تخفیف کرناہے جومسئلہ کی تقسیم میں راہ پاتی ہے جیسا کہ معروف طریقہ پرچلنے والے شخص پر اس پسندیدہ طرز کے ساتھ موازنہ کرنے سے روشن ہوجاتاہے۔(ت)
26_24.jpg
آسودہ کہ بعدانتقال محمدحسین حسب بیان سائل محمدحسین کازرنقدواثاث البیت اپنے حصے سے زائد لے کرمع اپنے دوسالہ بچے علی حسین کے چلی گئی اوربارہ سال سے  مفقود الخبر ہے علی حسین کے سترسہام اس کی سترسال عمر تک امانت رہیں اگر وہ زندہ معلوم ہواسے دئیے جائیں یامرگیا ہوتواس کے ورثہ کوپہنچائے جائیں، اوراگر اس مدت تک پتانہ چلے تواس وقت جو اس کے وارث شرعی ہوں وہ پائیں آسودہ جوکچھ اپنے حصص سے زائدلے گئی اگر اس کامہرواجب الاداتھا اور وہ مال کہ لے گئی مقدار مہرواجب الاداء سے زائد نہ تھا تو اس کاحصہ بھی بدستور اس کی سترسال عمرہونے تک امانت رہے، اور اگرزائد تھا تواس کاالزام علی حسین نابالغ پرنہیں صرف آسودہ کے حصے سے بنی وبتولن اپنے حصے کانقصان وصول کرسکتی ہیں۔
وھو مسئلۃ الظفر بخلاف جنس الحق المفتی بہ الآن علٰی جواز الاخذ ۱؎۔ واﷲ سبحانہ، وتعالٰی اعلم۔
اور وہ مسئلہ ہے اپنے حق کی جنس کے غیر کووصول کرنے پر کامیابی حاصل کرنے کا۔ آج کے دور میں اس کولینے کے جواز پر فتوٰی ہے۔ واﷲ سبحانہ، وتعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب السرقۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۲۰۰)

(ردالمحتار   کتاب الحجر     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۹۵)
Flag Counter