فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
وانما اعبرنا فیھما بالولد لیعم الذکر والانثٰی فان الحکم لایختلف، المسئلۃ من اثنین لان ابنا کبنتین فنصیب الابن لفرع الاخیر ونصیب طائفۃ البنات یقسم فی البطن الثانی اثلاثا فتضرب المسئلۃ فی ثلٰثۃ وتصح من ستّۃ ثلٰثۃ منھا لفرع الابن واثنان لابن الکائن فی البطن الثانی من طائفۃ البنات و واحد للبنت التی فیہ ثم ینتقلان الٰی فرعیہما فیکون مالفرعی البنتین مساویا لماکان لفرع الابن وبعد تمہید ھٰذا نقول اذا اجتمعوا اعنی صاحبی الجھتین وجامعھما من جانب البنات وفرع کذائی من جھۃ الابناء بحکم المقدمتین المذکورتین ان یکون المال بینھم اثلاثا ثلٰثہ للصاحبین واٰخرللجامع واٰخر للابنی لتساویھم جمیعاً کما عرفت وھٰذا انما یتأتی اذا اعتبر اصل الفرع الجامع اصلین ھٰکذا :
ہم نے ان دونوں بطنوں میں اولاد کے ساتھ اس لئے تعبیرکی تاکید یہ مذکر ومؤنث دونوں کو عام ہوجائے اس لئے کہ دونوں صورتوں میں حکم مختلف نہیں ہوتا۔ مسئلہ ۲ سے بنے گاکیونکہ ایک بیٹا دوبیٹیوں کی مثل ہے چنانچہ بیٹے کاحصہ اس کی آخری فرع کوملے گا جبکہ بیٹیوں کے فریق کاحصہ تین حصے بناتے ہوئے دوسرے بطن میں تقسیم ہوگا۔ اصل مسئلہ یعنی دوکوتین میں ضرب دی جائے گی تو اس طرح چھ سے مسئلہ کی تصحیح ہوگی جس میں سے تین بیٹے کی فرع کوملیں گے اوردو اس بیٹے کو ملیں گے جوبیٹیوں کے فریق سے دوسرے بطن میں ہے جبکہ ایک بیٹی کوملے گا جو اس بطن میں ہے پھر ان دونوں کے حصے ان کی فرعوں کی طرف منتقل ہوں گے۔ چنانچہ جو کچھ دونوں بیٹیوں کی فرعوں کوملا وہ بیٹے کی فرع کو ملنے والے حصوں کے برابر ہے۔ اس تمہید کے بعد ہم کہتے ہیں کہ یہ اس وقت ہے جب دو الگ الگ جہتوں والے اوران دونوں جہتوں کاجامع بیٹیوں کی جانب سے جمع ہوئے ہیں اوراگریہی صورت بیٹوں کی جانب سے متحقق ہو توبھی مذکورہ بالا دومقدموں کی بنیاد پرحکم یہی ہوگا کہ مال ان کے درمیان تین حصوں کے طورپرمنقسم ہوگا، ایک تہائی دو الگ الگ جہتوں والوں کے لئے اورایک تہائی دونوں کے جامع کے لئے اورایک تہائی بیٹے کی فرع کے لئے، کیونکہ وہ سب آپس میں مساوی ہیں۔ جیسا کہ توپہچان چکاہے۔ اور یہ اسی وقت ہوگا جب دونوں جہتوں کی جامع فرع کی اص کودواصلیں فرض کیاجائے۔ صورت مسئلہ یوں ہوگی :
26_18.jpg
اعتبرنا البنت الاولٰی بنتین فکان فی البطن الاول ابن واربع بنات کابنین وعلی الاختصار ثلثۃ ابناء فالمسئلۃ من ثلٰثۃ واحد منھا لفرع الابن واثنان لطائفۃ البنات وتحتھن فی البطن الثانی ابنان وبنتان ای کثلثۃ ابناء ولایستقیم اثنان علیھم فتضرب المسئلۃ فی ثلثۃ تکن من تسعۃ وبھا تصح لفرع الابن منھا ثلٰثۃ ولطائفۃ البنات ستّۃ تنقسم فی البطن الثانی اثلاثا للبنتین اثنان منتقلان الٰی فرعیھما لعدم الاختلاف وللابنین اربعۃ منتقلۃ کذلک الٰی فرعیھما فیصیب الابن الجامع ثلٰثۃ اثنان من ابیہ و واحد من امہ ولصاحبی القرابتین اثنان و واحد مجموعھما ثلٰثۃ وللفرع الابن ایضا ثلٰثۃ کما کان حکم المقدمتین المذکورتین بخلاف ما اذا لم یعتبر الاصل اصلین فانہ یزید حینئذٍ سھم الابنی علی السھمین الباقیین ھٰکذا :
ہم نے پہلی بیٹی کودوبیٹیاں فرض کیا تو اس طرح پہلے بطن میں ایک بیٹا اورچاربیٹیاں ہوگئیں جوکہ دوبیٹیوں کے برابر ہے۔ بطور اختصار یہ کہ تین بیٹے ہوگئے۔ چنانچہ مسئلہ تین سے بنے گا جن میں سے ایک بیٹے کی فرع کے لئے اوردوبیٹیوں کے فریق کے لئے ہوں گے اور ان بیٹیوں کے نیچے دوسرے بطن میں دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہیں یعنی تین بیٹے ہوگئے۔ اور دو ان تین پرتقسیم نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا مسئلہ کوتین میں ضرب دی جائے گی توحاصل ضرب نو(۹) ہوگا، اور اسی سے مسئلہ کی تصحیح ہوگی بیٹے کی فرع کے لئے نو میں سے تین جبکہ بیٹیوں کے فریق کے لئے چھ حصے ہوں گے جودوسرے بطن میں تین پرتقسیم ہوجائیں گی، جن میں سے دوحصے دونوں بیٹیوں کے لئے ہوں گے جو عدم اختلاف کے سبب سے ان دونوں کی فرعوں کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔ اور چارحصے دونوں بیٹیوں کے لئے ہوں گے جوکہ اسی طرح ان کی فرعوں کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔ لہٰذا دونوں جہتوں کے جامع بیٹے کوتین حصے ملیں گے دوباپ کی طرف سے اورایک ماں کی طرف سے۔ اوردوالگ الگ قرابتوں والوں کے لئے۔دواورایک یعنی مجموعی طورپرتین حصے بنے۔ اوربیٹے کی فرع کے لئے بھی تین حصے ہوں گے جیسا کہ دونوں مذکورہ مقدموں کاحکم ہے بخلاف اس کے کہ جب اصل کو دواصلیں فرض نہ کیاجائے کیونکہ اس صورت میں بیٹے کی فرع کاحصہ باقی دوبیٹوں کے حصوں سے زائد ہوجائے گا۔ صورت مسئلہ یوں ہوگی:
26_19.jpg
والبیان ظاھرھف فظھران اعتبار تعدد الجھات فی الاصول انما یکون بحصول التعدد فی الذوات فان کان حقیقۃ ذاک کما فی الامثلۃ التی ذکروھا فی الکتب والاوجب اعتبارہ حکما وعد اصل اصلین فی القسمۃ ویظھر ھذا لمن تأمل فیما صوروہ ایضا من کون الجھۃ من اصلین کما اذا ترک بنتی بنت ابن بنت ھما ایضا بنتا ابن ابن بنت اخری وابن بنت بنت ابن بھٰذہ الصورۃ :
اوربیان ظاہرہے، یہ خلاف مفروض ہے۔ پس ظاہرہوگیا کہ اصول میں تعدد جہات کا اعتبار ذوات میں تعدد کے اصول سے ہی ہوتاہے۔ اگروہ تعدد حقیقتا ہوتوفبہا جیسا کہ ان مثالوں میں ہے جن کو مشائخ نے کتابوں میں ذکرفرمایا ورنہ حکمی طورپر تعدد کا اعتبارکرنا اورتقسیم میں ایک اصل کو دو اصلیں شمارکرنا ضروری ہوگا اور یہ اس شخص کے لئے بھی ظاہرہوجاتاہے جومشائخ کی بیان کردہ اس صورت میں غورکرنے جو انہوں نے دواصلوں سے حاصل ہونے والی جہت کے بارے میں بیان کی ہے۔ جیسے کسی شخص نے ایک بیٹی کی پوتی کی دوبیٹیاں چھوڑی ہیں اور وہی دونوں میت کی دوسری بیٹی کے پوتے کی بھی بیٹیاں ہیں۔ اور ان کے علاوہ ایک بیٹے کی نواسی کابیٹا چھوڑاہے۔ صورت مسئلہ یوں ہوگی :
26_20.jpg