Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
34 - 145
 رسالہ

طیب الامعان فی تعدد الجھات والابدان

(جہتوں اوربدنوں کے تعدّد کے بارے میں انتہائی گہرائی میں بہترین نظرکرنا)
مسئلہ ۸۸ :  ۲۶ذی الحجہ ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے دوبھائی تھے عمرو وبکر اوردوبہنیں ہندہ وعمرہ، عمرو کے دختر لیلٰی کے ایک پسرخالد ہوا اورعمرو کے پسر ولید کے ایک دختر سلمٰی ہوئی خالد وسلمٰی سے ایک دختر سعاد اورایک پسر سعید پیدا ہوئے بکر کی پوتی جمیلہ بنت حمیدبن بکر کانکاح رشیدبن فریدبن ہندہ خواھرزید سے ہواجن کی ایک دخترحسینہ ہے۔ رشید کادوسرا نکاح اس کے چچا مجید بن ہندہ کی دخترحسن آراء سے ہوا ان دونوں کے ایک دخترگلچہرہ پیداہوئی، حسن آراء نے انتقال رشید کے بعد اپنی پھپی محبوبہ بنت ہندہ کے پسر محبوب بن مطلوب بن عمرہ خواہر زید سے نکاح کیا جس سے ایک پسر گلفام پیدا ہوا، محبوبہ ومطلوب کی ایک دختر حبیبیہ تھی جس کی دختر شہناز  ہے، اب زید نے انتقال کیا اور صرف ایک زوجہ چمن آراء اور  یہی سعاد وسعید  وحسینہ وگلچہرہ وگلفام وشہناز اس کے وارث ہوئے۔ اس صورت میں ترکہ زید کاشرعاً کس طرح منقسم ہوگا؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجروثواب دئے جاؤگے۔ت)
الجواب :  تصویرصورت سوال اوربرتقدیر اجتماع شرائط معلومہ توریث تقسیم مال اس حال ومنوال پرہے :
26_14.jpg
اب اول یہ سمجھناچاہئے کہ ان میں پانچ ورثہ کو زید سے دودورشتے ہیں اورگلفام کوتین۔ سعادبنت ابن بنت الاخ بھی ہے اور بنت بنت ابن الاخ بھی یعنی بھتیجی کی پوتی اوربھتیجے کی نواسی۔ یونہی سعید بھی یہی دورشتے رکھتا اوربھتیجی کاپوتابھتیجے کانواساہے۔ حسینہ بنت بنت ابن الاخ اوربنت ابن ابن الاخت ہے یعنی بھتیجے کی نواسی اوربھانجے کی پوتی۔ گلچہرہ بنت ابن ابن الاخت اوربنت بنت ابن الاخت ہے یعنی ایک بھانجے کی پوتی دوسرے کی نواسی۔شہناز بنت بنت بنت الاخت اوربنت بنت ابن الاخت ہے یعنی ایک بھانجی اورایک بھانجے دونوں کی نواسی۔ گلفام ابن بنت ابن الاخت اورابن ابن بنت الاخت اور ابن ابن ابن الاخت ہے یعنی ایک بھانجے اورایک بھانجی دونوں کاپوتا اورایک بھانجے کانواسا۔ اورہمارے ائمہ کا اتفاق ہے کہ متعدد قرابتوں والا اپنی ہرقرابت کی رو سے حصہ پائے گا مگرامام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی تعدد جہات کاخودفروع یعنی بطن زندہ میں اعتبار فرماتے ہیں تو ان کے نزدیک گویاگلفام تین وارث ہے اورباقی دودو، اورامام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی تعدد جہات فروع کوان کے اصول میں ملحوظ فرماتے ہیں اس کی صورتیں دوہیں ایک یہ کہ فرع متعدد الجہات اصول متعددہ کی فرع ہو جیسے حسینہ کہ اس کے دورشتے بکروہندہ دواصول مختلفہ سے ہیں یا شہناز کہ ہندہ وعمرہ دونوں کی طرف سے قرابت دارہے جب تو 

اصول میں اعتبار یوں حاصل کہ جب وہ ہراصل اس فرع کے لحاظ سے تقسیم ملحوظ رہی ہرجہت قرابت لحاظ میں آگئی اورہرجہت کاحصہ اس وارث نے جمع کرلیا کتب متداولہ جو اس وقت فقیر کے پیش نظر ہیں ان میں اعتبار تعدد جہات فی الاصول کی زیادہ تشریح نہیں اورمثال جس نے دی اسی صورت خاصہ کی دی۔ صورت دوم یہ کہ اس فرع کو ایک ہی اصل کے ذریعہ سے میت کے ساتھ دورشتے ہوں جیسے سعادوسعید کہ ان کے دونوں علاقے بذریعہ شخص واحد اعنی عمرو کے ہیں۔ یونہی گلچہرہ وگلفام کوبذریعہ ہندہ اگرچہ گلفام کوایک رشتہ اصل دیگر عمرہ کی طرف سے بھی ہے اس صورت کی تصریح مثال اس وقت نظرمیں نہیں۔
وانا اقول : وباﷲ التوفیق
 (اورمیں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے کہتاہوں۔ت) مانحن فیہ میں اعتبار تعددجہات فی الاصول کامطلب یہ ہے کہ ایسی فرع کی اصل کواصول متعددہ بعدد جہات حاصلہ بذریعہ فرع مذکور سمجھاجائے، مثلاً صورت مذکورہ میں عمرو بلحاظ سعادکہ ذات جہتین ہے دوبھائی ہے نیزبلحاظ سعید بھی ایساہی ہے تولحاظ جہات لحاظ ابدان کا اجتماع عمرو کو چاربھائی کردے گا اورہندہ بلحاظ جہات گلچہرہ دوبہن ہے اور اسی طرح بلحاظ جہات گلفام اوربلحاظ بدن حسینہ وشہناز ایک ایک بہن تووہ مجموع چھ بہن ہے اورعمرہ میں صرف تعدد ابدان گلفام وشہناز ہے تعدد جہات نہیں کہ یہ دونوں اگرچہ جہات عدیدہ رکھتے ہوں مگرنہ بذریعہ تنہاعمرہ تو  وہ صرف دوبہن ہے اوربکر جس کی فرع میں نہ تعددبدن ہے نہ اسی کے ذریعے سے تعددجہت تنہا ایک بھائی ہے توبطن اول میں زوجہ اورپانچ بھائی اور آٹھ بہنیں ہیں۔
والدلیل علیہ علٰی مایظھر للعبد الضعیف واﷲ سبحانہ، وتعالٰی اعلم ان تعدد الجھات یوجب تعدد الاشخاص ولو حکماً الاتری ان ابایوسف لما اعتبر تعدد الجھات فی الفروع جعل کل فرع ذی جھتین کفرعین کما نصواعلیہ قاطبۃ وکذٰلک محمد رحمہ اﷲ تعالٰی لما اعتبر تعدد الجھات فی الجدّات جعل الجدۃ جدّتین وجدّات، کما فی السراجیۃ وغیرھا  عامۃ الکتب وبالجملۃ لامعنی لتعدد الجھۃ الابتعدد الشخص ولوفی اللحاظ فمحمد اذا اعتبرہ ھٰھنا فی الاصول فان کانوا متعددین فقد حصل التعدد حقیقۃً باخذھم منفردین فی القسمۃ ثم ایصال ماوصل الیھم جمیعاً الی الفرع الواحد المنتھی بھم کما ذکرنا اما اذا کان الاصل واحدًا وقد اخذ(عہ) فی القسمۃ فلایظھر اعتبارہ تعدد الجھۃ فیہ الاباعتبارہ اصولا متعددۃ ۔
اور اس پردلیل جیسا کہ اس عبدضعیف پرظاہرہوئی، او راﷲ سبحٰنہ وتعالٰی خوب جانتاہے، یہ ہے کہ جہتوں کا متعدد ہونااشخاص کے تعدد کو ثابت کرتاہے اگرچہ حکمی طورپر ہو۔ کیاتونہیں دیکھتا کہ امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے جب فروع میں جہتوں کے متعدد ہونے کا اعتبارکیاتو ہردوجہتوں والی فرع کودوفرعوں کی طرح بنایاجیسا کہ اس پر تمام مشائخ نے نص فرمائی ہے۔یوں ہی امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے جب جدّات (دادیوں) میں جہتوں کے متعدد ہونے کا اعتبار کیاتو ایک دادی کودویاکئی دادیوں کے برابر بنایا، جیسا کہ سراجیہ وغیرہ عام کتابوں میں ہے۔ خلاصہ یہ کہ اشخاص کے تعدد کے بغیر جہت کے متعدد ہونے کاکوئی معنی نہیں اگرچہ تعدد اشخاص اعتباری  ہو۔ چنانچہ امام محمد علیہ الرحمۃ نے جب یہاں پر اصول میں تعدد کا اعتبارکیا تو اگراصول متعددہوں توحقیقتاً تعددحاصل ہوگا اس طورپرکہ ان کوتقسیم میں الگ الگ لیاجائے گا۔ پھرجوکچھ ان سب کوملے گا وہ اس ایک فرع تک پہنچایاجائے گا جس پراصول کی انتہاہوتی ہے جیسا کہ ہم نے ذکرکیا۔ لیکن اگراصل ایک ہواور اس کو تقسیم میں لیاجائے تو اس میں جہت کاتعدد ظاہرنہیں ہوگا سوائے اس کے کہ اس ایک اصل میں متعدداصول کااعتبارکرلیاجائے،
عہ : احترازا عمااذا وقع فی بطن متفق بالذکورۃ والانوثۃ فانہ لایقسم علی من فیہ اصلا سواء کان لفرعہ جھۃ اوجھات کما لایلاحظ من فیہ بدنا سواء کان فی فرعہ بدن  او ابدان ولیس ھٰذا لان الجہات لو  الابدان لما تعتبر ھٰھنا بل لان مایصیبھم یجمع جمیعا ویقسم علٰی ما تحتھم فلافائدۃ فی التفریق بالتقسیم ثم جمع ذاک المتفرق کمالایخفی ۱۲منہ۔
عہ : اُس صورت سے احتراز ہے کہ جب وہ ایسے بطن میں واقع ہو جومذکر ومؤنث کے اعتبار سے متفق ہے کیونکہ  وہ اس پرتقسیم نہیں کیاجاتا جس میں ایک اصل ہے چاہے اس کی فرع کی ایک جہت ہویا متعدد جہتیں ہوں جیسا کہ نہیں لحاظ کیاجاتا اس کاجس میں ایک بدن ہوچاہے اس کی فرع میں ایک بدن ہو یامتعدد۔ یہ اس لئے نہیں کہ یہاں جہتوں اوربدنوں کا اعتبارنہیں کیاجاتابلکہ اس لئے ہے کہ جو کچھ ان کوملے گا وہ جمع کرکے ان کے نیچے والوں پرتقسیم کیاجائے گا لہٰذا اس کو تقسیم کے ذریعے متفرق کرکے پھر اس متفرق کوجمع کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ جیساکہ پوشیدہ نہیں ۱۲منہ(ت)۔
Flag Counter