Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
32 - 145
مسئلہ ۸۴:     ۵/شوال ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے تین زوجہ لیلٰی، سلمی، سعاد اور ایک ماموں زادبھائی عمرو اورایک خالہ زادبہن جمیلہ اورایک پھپی زادبہن حسینہ چھوڑکرانتقال کیا اور اس کی زوجہ سلمٰی عمرو کی حقیقی بہن ہے اوردوسری زوجہ سعادجمیلہ کی حقیقی بہن ہے، اس صورت میں ترکہ زید کاکس طرح تقسیم ہوگا؟بیّنواتوجروا۔
الجواب  :   برتقدیرصدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم مہرہرسہ زوجہ ودیگر دیون ووصایا ترکہ زیدبہترسہم ہوکراس حساب (عہ)  سے منقسم ہوگا:
26_11.jpg
عہ : اس لئے کہ چار سے ایک تینوں زوجہ پرمنکسرہے اور باقی تین سے دوقرابت پدری اورایک قرابت مادری کو پہنچا اس  میں دوخال اوردوخالہ ہیں یاایک ایک خال وخالہ ہوں توبوجہ تعدد اولاد بجائے دوخال ودوخالہ ہیں بہرحال یہ ایک چھ پرمنقسم ہوگا اس پرمنکسرہے تین اورچھ جن پرانکسارہوا متداخل ہیں اورچھ عدداکبرہے تو اسی کی ضرب چارمیں دی گئی اب قرابت مادری کو چھ پہنچے جن میں سے چار اولاد خال کے لئے ہیں اور وہ ایک بنت ہے چارتین پرمنکسرہوئے  ۲۴میں پھر ۳ کی ضرب سے بہتر۷۲ ہوئے ۱۲منہ۔
مسئلہ ۸۵ : ازبشارت گنج بریلی ۶شوال ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ لفظ عاق بالعین وآق بالالف کے کیامعنی ہیں؟ ایک کاغذ میں زید کے جانب سے زید کے بیٹے کاعاق ہونا لکھاہے جس کاکوئی ثبوت نہیں کہ اس کو زید نے لکھابھی ہے یانہیں، وہ کاغذ زید کے مرنے کے سو سواسوبرس بعد ایک شخص پیش کرتاہے، آیا وہ قابل تسلیم ہے یانہیں؟ اور زید کالڑکا اس کاغذ کے روسے عاق ہوگایا نہیں؟ درصورت عاق ہونے کے بھی آیا ترکہ سے محروم ہوگایا نہیں؟ بیّنواتوجروا
الجواب

''آق'' ترکی سپید کوکہتے ہیں، اور"عاق" عربی میں وہ اولاد کہ ماں یاباپ کوآزارپہنچائے ناحق ناراض کرے۔ کوئی کاغذ بے شہادت شرعیہ قابل تسلیم نہیں ہوتا، نہ وہ منسوب الیہ لکھاقرارپاسکتاہے۔
ہدایہ میں ہے :
الخط یشبہ الخط فلایعتبر۱؎۔
خط، خط کے مشابہ ہوتاہے لہٰذا اس کااعتبارنہیں کیاجائے گا(ت)
 (۱؎الہدایۃ         کتاب الزکوٰۃ     باب فیمن یمرعلی العاشر    المکتبۃ العربیۃ کراچی     ۱ /۱۷۷)
درمختارمیں ہے :
لایعمل بالخط۲؎۔
خط پرعمل نہیں کیاجاتا۔(ت)
 (۲؎ الدرالمختار  کتاب القضاء     باب کتاب القاضی الی القاضی وغیرہ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۸۳)
فتاوٰی قاضی خاں میں ہے :
القاضی انما یقضی بالحجۃ والحجۃ ھی البیّنۃ  اوالاقرار اما الصک فلایصلح حجۃ لان الخط یشبہ الخط۳؎۔
قاضی فقط حجت کے ساتھ فیصلہ کرے، اور حجت (دلیل) گواہ ہیں یااقرار۔ رہ تحریر تو وہ حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ خط، خط کے مشابہ ہوتاہے۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الوقف    فصل فی دعوی الوقف    نولکشور لکھنؤ    ۴ /۷۴۲)
توپسر زید اس کاغذ بے ثبوت کے ذریعہ سے ہرگز عاق نہیں ٹھہر سکتا اورجوشخص فی الواقع عاق ہوتو اس کا اثر امورآخرت میں ہے کہ اگراﷲ عزوجل والدین کوراضی کرکے اس کاگناہ معاف نہ فرمائے تو اس کی سزا جہنم ہے، والعیاذباﷲ، مگرمیراث پراس سے کوئی اثرنہیں پڑتا، نہ والدین کالکھ دیناکہ ہماری اولاد میں فلاں شخص عاق ہے ہماراترکہ اسے نہ پہنچے اصلاً وجہ محرومی ہوسکتاہے کہ اولاد کاحق میراث قرآن عظیم نے مقررفرمایاہے۔
وقال اﷲ تعالٰی یوصیکم اﷲ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین
اوراﷲ تعالٰی نے فرمایا :''اﷲ تمہیں حکم دیتاہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کاحصہ دوبیٹیوں کے برابرہے۔
 (۴؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۱)
 والدین خواہ تمام جہان میں کسی کالکھا اﷲ عزوجل کے لکھے پرغالب نہیں آسکتا ولہٰذا تمام کتب فرائض وفقہ میں کسی نے اسے موانع ارث سے نہ گنا۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۶: ازشہرکہنہ     ۱۸ذی الحجہ ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ ہندہ فوت ہوئی اس نے اپنے حقیقی چچا کی ایک دخترکے تین پسراورتین دختراوردوسرے حقیقی چچا کی دختر کے دودختراورحقیقی پھپی کے دختر کاایک پسراور حقیقی ماموں کے دختر کے دوپسر ایک دختراوراپنے شوہر کے حقیقی بھائی کی دختر اورشوہر کے حقیقی بہن کے دخترکے ایک دختر تین پسرچھوڑے۔ اس صورت میں ترکہ ہندہ کاکس کو پہنچے گا اورکَے سہام پرمنقسم ہوگا۔ بیّنواتوجروا
الجواب :  برتقدیرصدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم دیون و وصایا ترکہ ہندہ کا دوہزار آٹھ سو پانچ سہام پرمنقسم ہوکرچچازاد بہن کے ہرپسر کوتین سوبیس ۳۲۰ اوردونوں چچازادبہنوں کی ہردختر کوایک سوساٹھ۱۶۰  اورپھپی زادبہن کے پسرکوایک سودس ۱۱۰ اورماموں زادبہن کے ہرپسر کوتین سوچوہتر۳۷۴ اوراس کی دخترکوایک سوستاسی ۱۸۷ ملیں گے اور شوہر کے بھائی بہن کی اولاد کچھ نہ پائے گی۔
وصورۃ المسألۃ ھکذا
 (مسئلہ کی صورت اس طرح ہے۔ت)
26_12.jpg
وذٰلک لا اصل المسئلۃ من ثلثۃ اثنان منھا القرابۃ الاب و واحد لقرابۃ الام ثم مااصاب قرابۃ الاب یقسم علی اول بطن اختلف ذکورۃ وانوثۃ وھو البطن الاول و یعتبر فی الاصول ابدان الفروع فالعم الاول ستۃ اعمال والثانی عمان والعمۃ واحدۃ فھم کسبع عشرۃ عمات بینھن وبین سھمھن اعنی اثنین مباینۃ وما اصاب قرابۃ الام و ھوالواحد ینقسم علٰی خمسۃ وبینھما ایضا مباینۃ فقررنا الرأسین اعنی ۱۷ و۵ علٰی حالہما وبینھما ایضا تبائن فضربنا احدھما فی الاٰخر کانت ۸۵ ضربناہ فی المسئلۃ بلغت ۲۵۵ منھا  ۸۵ لفریق الام منقسم اخماسا  ۱۷ لبنت و۳۴  لکل ابن ومثلاہ اعنی ۱۷۰ لفریق الاب منقسما علی سبعۃ عشر فسھم منھا اعنی ۱۰ للعمۃ ای لابنھا و ھی طائفۃ الانثٰی عن ھذا الفریق وجمعنا بالطائفۃ الذکور منہ و ھو  ۱۶۰  ونظرنا تحتھم فلم یکن فی البطن الثانی اختلاف بذکورۃ وانوثۃ انما کان فی البطن الثالث الحی فیہ ثلثۃ ابناء وخمس بنات فی قوۃ احدی عشرۃ بنات و ۱۶۰ لاتستقیم علیھن بل تباین فضربنا ۱۱ فی المبلغ صحت من ۲۸۰۵ منھا لطائفۃ الذکور من فریق الاب لکل بنت ۱۶۰ ولکل ابن ۳۲۰۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
یہ اس لئے ہے کہ مسئلہ تین سے بنے گا جس میں سے دو حصے باپ کی قرابت اورایک حصہ ماں کی قرابت کے لئے ہوگا، پھر جوباپ کے قرابت داروں کوملاوہ اس پہلے بطن پر تقسیم ہوگا جومذکرومؤنث میں مختلف ہے اور  وہ پہلابطن ہے ، چونکہ یہاں اصول میں فروع کے ابدان کا اعتبار کیاجاتا ہے لہٰذا پہلاچچا (گویاکہ) چھ اوردوسراچچا(گویاکہ) دوچچے ہوگئے جبکہ پھوپھی بھی ایک ہے تو اس طرح یہ سترہ پھوپھیوں کے برابرہوگئے (کیونکہ ایک چچا دوپھوپھیوں کے برابرہوتاہے) ان سترہ اوران کے حصوں یعنی دومیں تباین کی نسبت ہے، جوماں کی قرابت کوملاوہ پانچ پرمنقسم ہوگا جبکہ پانچ اوران کے حصے یعنی ایک میں بھی تباین کی نسبت ہے۔ چنانچہ  ہم نے دونوں کے رؤس یعنی ۱۷ اور۵ کوان کے حال پر برقراررکھااوران دونوں میں بھی تباین کی نسبت ہے۔ پھرہم نے  ایک کودوسرے میں ضرب دی تو حاصل ضرب ۸۵ ہواجسے اصل مسئلہ (یعنی تین) میں ضرب دینے سے  ۲۵۵ حاصل ہوا اس میں سے ۸۵ ماں کی قرابت والے فریق کوملیں گے جوپانچ پرمنقسم ہوں گے۔ ۱۷ بیٹی کو اور۳۴ ہرایک بیٹے کو دئیے جائیں گے اور ۸۵ کادوگنایعنی ۱۷۰ باپ کی قرابت والے فریق کو ملیں گے جو ۱۷ پرتقسیم ہوں گے۔ ایک سترہواں حصہ یعنی ۱۰ پھوپھی یعنی اس کے بیٹے (نواسے) کے لئے یہ اس فریق کاگروہ مؤنث ہے اس کوہم نے گروہ مذکر کے حصوں جوکہ ۱۶۰ ہیں کے ساتھ جمع کیا اورگروہ مذکرکے نیچے نظر کی تودوسرے بطن میں مذکرومؤنث کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ اختلاف تیسرے بطن میں ہے جس میں تین بیٹے اورچاربیٹیاں زندہ ہیں اور وہ تمام گیارہ بیٹیوں کی قوت میں ہیں جبکہ ان کے حصے جوکہ ۱۶۰ ہیں ان پر برابرتقسیم نہیں ہوسکتے بلکہ ان میں تباین کی نسبت ہے لہٰذا ہم نے ۱۱ کو ۱۷۶۰ مسئلہ کے مجموعے یعنی ۲۵۵ میں ضرب دی تو ۲۸۰۵ حاصل ضرب ہوا جس سے مسئلہ کی تصحیح ہوئی۔ اس میں سے باپ والے فریق کے گروہ مذکر کے لئے ۱۷۶۰حصے ہیں۔ ہربیٹی کو ۱۶۰ اورہربیٹے کو ۳۲۰ ملیں گے۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
Flag Counter