فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
31 - 145
مسئلہ ۸۱ : ۱۰ربیع الاول شریف ۱۳۱۷ھ مرسلہ محمدعبدالصبور
جناب مولوی صاحب قبلہ فیض رسان دام ظلہم، بعد تسلیم کے عرض خدمت فیض درجت میں یہ ہے کہ ایک شخص کے ایک لڑکا اورایک لڑکی ہے اورایک نواسے کوبیٹابنایاہے اب وہ شخص اپنی حیات میں اپنامال واسباب تقسیم کرناچاہتاہے اوریہ دریافت کرتاہے کہ نواسے کو مثل بیٹے کے جواسباب وغیرہ تقسیم کرکے دوں تو اس کامواخذہ میرے ذمے تونہ ہوگا کہ بیٹی کے مقابلے میں نواسے کوبھی مثل بیٹے کے حصہ دیاہے اس کافتوٰی صحیح طورپرمہرلگاکر مرحمت فرمائیے گا تاکہ اس پرعمل کیاجائے۔
الجواب : وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ،
مہروغیرہ دَین جوکچھ ادا کرکے جوباقی بچے تین حصے برابر کردیجئے، ایک پسر، ایک دختر، ایک نواسے کو، اس میں کوئی مواخذہ یاکسی کی حق تلفی نہ ہوگی، زندگی میں جواولاد پرتقسیم کی جائے اس میں بیٹا، بیٹی دونوں برابررکھے جاتے ہیں اکہرے دوہرے کاتفاوت بعد موت ہے۔
واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۲ : ازفیروزپور مرسلہ مولوی غلام صدیق نائب مدرس مدرسہ شاہی ضلع بریلی ۲۷ربیع الآخرشریف ۱۳۱۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید ہندہ کو قابل نکاح سمجھ کر اپنے نکاح میں لایا اورہمبستر ہوا یہاں تک کہ ہندہ کوحمل رہا اس کے بعد زید پر واضح ہواکہ ہندہ نے دھوکادیا وہ عمرو کی منکوحہ ہے زید نے اسے اپنے یہاں سے نکال دیاہندہ نے اپنے شوہر عمرو کوکچھ دے کرطلاق لی اوربعد تین مہینے گزرنے کے پھرزید کے پاس آئی زید نے اب اسے رکھ لیا اورحمل مذکور سے لڑکا بھی پیدا ہولیاتھا مگراب بعد طلاق اس سے نکاح نہ کیا اس پرلوگ انگشت نماہوئے زیدنے پھر عورت کو نکال دیا اس نے تیسرے شخص سے نکاح کرلیا، اب زید کا انتقال ہواایک یہی لڑکا جو یقینا زید کے نطفہ سے ہے اورچارلڑکیاں اورایک بھائی ایک بھتیجا ایک چچازادبہن وارث چھوڑے، اس صورت میں ترکہ زید کا کس طرح منقسم ہوگا اوریہ لڑکا اس کاوارث ہوگا یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں یہ لڑکا شرعاً زیدکابیٹا اور اس کاوارث ہے منکوحہ غیر سے نکاح جبکہ ناکح کواس کانکاح غیرمیں ہونا معلوم نہ ہونکاح باطل نہیں بلکہ فاسد ہے۔
فی ردالمحتار عن البحر عن المجتبٰی اما نکاح منکوحۃ الغیر ومعتدتہ فالدخول فیہ لایوجب العدۃ ان علم انھا للغیر لانہ لم یقل احد بجوازہ فلم ینعقد اصلا قال ''فی البحر'' فعلی ھذا یفرق بین فاسدہ و باطلہ فی العدۃ ولہذا یجب الحد مع العلم بالحرمۃ لانہ زنا کما فی القنیۃ وغیرھا ۱۔
رِدّالمحتار میں بحرسے بحوالہ مجتبٰی منقول ہے غیرکی منکوحہ یاغیرکی معتدہ سے نکاح ہوا تو اس میں دخول عدت کو واجب نہیں کرتا اگرناکح جانتاہو کہ یہ غیرکی منکوحہ یامعتدہ ہے کیونکہ اس کے جائز ہونے کاقول کسی نے بھی ہیں کیا، چنانچہ یہ نکاح بالکل منعقد نہیں ہوتا۔بحرمیں کہا اس بنیاد پرعدت کے بارے میں نکاح فاسد اورنکاح باطل کے درمیان فرق کیاجاتاہے۔ اسی لئے حرمت کاعلم ہونے کے باوجود ایساکرنے والے پر حد واجب ہوتی ہے کیونکہ یہ زنا ہے جیسا کہ قنیہ وغیرہ میں ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطلاق باب العدۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۶۰۷)
اورایسی صورت میں مذہب مفتی بہ پرحتی الامکان بچہ اسی ناکح ثانی بنکاح فاسد کا قرارپاتاہے نہ شوہراول صاحب نکاح صحیح کا۔
فی الدرالمختارغاب عن امرأتہ فتزوجت بآخر و ولدت اولادا ثم جاء الزوج الاول فالاولاد للثانی علی المذب الذی رجع الیہ الامام وعلیہ الفتوی کما فی الخانیۃ والجوھرۃ والکافی وغیرھا وفی حاشیۃ شرح المنار لابن الحنبلی وعلیہ الفتوی ان احتملہ الحال۲؎ فی ردالمحتار قولہ غاب عن امرأتہ شامل لما اذا بلغہا موتہ او طلاقہ فاعتدت و تزوجت ثم بان خلافہ ولما اذا ادعت ذٰلک ثم بان خلافہ ح۳؎ اھ وفیہ حکم الدخول فی النکاح الموقوف کالدخول فی الفاسدفیسقط الحدویثبت النسب ویجب الاقل من المسمی ومن مھرالمثل۱؎الخ۔
درمختار میں ہے کوئی شخص بیوی کو چھوڑ کرغائب ہوگیا اس نے دوسرے شخص سے شادی کرکے اولاد جنی، پھر پہلاخاوند آگیا تو اس مذہب کے مطابق جس کی طرف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی نے رجوع فرمایا اولاد دوسرے خاوند کی ہوگی، اور اسی پرفتوٰی ہے۔ جیسا کہ خانیہ، جوہرہ اورکافی وغیرہ میں ہے۔ ابن الحنبلی کی شرح منار کے حاشیہ میں ہے اور اس پرفتوٰی ہے اگرحال اس کااحتمال رکھتاہو، ردالمحتارمیں ہے ماتن کاقول کہ ''وہ بیوی چھوڑکرغائب ہوگیا'' یہ اس صورت کو شامل ہے جب بیوی کوخاوند کی موت یااس کے طلاق دینے کی خبر پہنچی ہوتواس نے عدت گزار کرشادی کرلی پھراس کے خلاف ظاہرہوا، اور اس صورت کوبھی شامل ہے کہ جب اس عورت نے اس کا دعوٰی کیاہو پھر اس کے خلاف ظاہرہوا ہو(ح) الخ اور اسی میں ہے نکاح موقوف میں دخول کاحکم نکاح فاسد میں دخول کے حکم کی طرح ہے، چنانچہ اس سے حدساقط ہوگی، نسب نامہ ثابت ہوگا اور مقررہ مہراورمہرمثل میں سے جو اقل ہوگا وہ واجب ہوگا الخ(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطلاق فصل فی ثبوت النسب مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۶۳)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الطلاق فصل فی ثبوت النسب داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۶۳۱)
(۱؎ ردالمحتار کتاب النکاح باب المہر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۵۰)
اور جب شرعاً اس کانسب زید سے ثابت، اور وہ زید کابیٹا ہے، تووارث ہونے میں شبہہ کیاہے
حیث لامانع من الارث
(اس لئے کہ میراث سے کوئی مانع موجودنہیں۔ت) پس برتقدیر عدم وارث آخروتقدیم دین ووصیت ترکہ زید چھ سہام پرمنقسم ہوکردوسہم یہ لڑکا اورایک ایک سہم ہرایک بیٹی پائے گی اوربھائی بھتیجا بہن کوئی کچھ نہ پائے گا۔
واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۳ :ازریاست عثمان پور ضلع بارہ بنکی مرسلہ شیخ محمدعنایت حسین صاحب ۳۰رمضان ۱۳۱۷ھ
چہ می فرمایند علمائے دین اطہرومفتیان شرع مطہر اندریں مسئلہ کہ مسمی زید سہ پسردارد بکر، عمرو، خالد۔ خالد را شخصے لاولد بہ تبنیت گرفت وقائم مقام جائزخود نمود، دریں صورت خالد ازمتروکہ پدری شرعی حصہ ہم خواہد یافت یامحروم الارث خواہدشد فقط۔
کیافرماتے ہیں دین اطہر کے علماء اور شرع مطہر کے مفتی حضرات اس م سئلہ میں کہ زیدنامی شخص کے تین بیٹے ہیں : بکر، عمرو اورخالد۔ خالد کو ایک بے اولادشخص نے اپنابیٹابنالیا اور اس کو اپنی اولاد کے قائم مقام کرلیا۔ اس صورت میں خالد اپنے باپ کے ترکہ سے بھی شرعی حصہ پائے گا یا اس کی میراث سے محروم ہوگافقط؟
الجواب : پسرخواندہ نہ چنیں کس راپسرمی شود نہ خود بے علاقہ ازپدر ان الحقائق لاتغیّر، شرعاً وارث پدرست نہ اینکس دیگر۔ خواستہ اش حسب خواستہ است کہ وصیت کرد بدست متبنی آمدہ باشد ایں وراثت نیست الا لا وصیۃ لوارث۱؎ قال اﷲ تعالٰی
وما جعل ادعیائکم ابناءکم۲؎ الٰی قولہ تعالٰی ادعوھم لاٰبائھم ھواقسط عنداﷲ الاٰیۃ۳؎، وقال اﷲ تعالٰی یوصیکم اﷲ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۴؎
نیست خاصہ تبنی کسے ازموانع ارث ارث پسرازپدر وھذا اظھرمن ان یظھر واﷲ تعالٰی اعلم۔
منہ بولابیٹانہ ایسے شخص کابیٹاہوتاہے اور نہ ہی اپنے باپ سے بے تعلق ہوتاہے کیونکہ حقیقتوں میں تغیرنہیں ہوتا۔ شرعی طور پروہ اپنے باپ کاوارث ہے نہ کہ اس دوسرے شخص کا جس نے اس کو منہ بولابیٹابنایاہے۔ اگردوسرا شخص چاہے تو منہ بولے بیٹے کے حق میں وصیت کردے تاکہ اس کامال اس کے منہ بولے بیٹے کے ہاتھ میں آجائے۔ اوریہ وراثت نہ ہوگی، خبردار وارث کے لئے وصیت نہیں ہوتی، اﷲ تعالٰی نے فرمایا:''اوراﷲ تعالٰی نے تمہارے لے پالکوں کوتمہارابیٹانہیں بنایا'' (اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد تک)''انہیں ان کے باپ ہی کاکہہ کرپکارو یہ اﷲ کے نزدیک زیادہ تھیک ہے'' الآیہ، اوراﷲ تعالٰی نے فرمایا :''اﷲ تمہیں حکم دیتاہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کاحصہ دوبیٹیوں کے برابرہے''۔ اور کسی کامنہ بولا بیٹابن جانا اس کے لئے باپ کی میراث سے مانع نہیں ہوا۔ اور یہ بات سب سے زیادہ ظاہرہے، اوراﷲ تعالٰی خوب جانتاہے(ت)
(۱؎ سنن ابن ماجۃ ابواب الوصایا باب الاوصیۃ لوارث ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۱۹۹)
(۲؎ القرآن الکریم ۳۳/ ۴) (۳؎القرآن الکریم ۳۳/ ۵) (۴؎القرآن الکریم ۴ /۱۱)