فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
30 - 145
مسئلہ ۷۸ : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بکر نے انتقال کیا اوراپنی ملکیت سے دومکان زنانے اورایک مردانہ اورایک کھپریل بقیمت مبلغ (۳۰؎ ) اور ایک درخت نیب بقیمت مبلغ آٹھ روپے کاچھوڑا۔ زید اورعمرومکانات مذکور پربتقسیم مساوی کہ ایک مکان خاص زید کا اور ایک خاص عمرو کا، اورنشست گاہ اور کھپریل اوردرخت نیب پرمشترک قابض ہوئے، زید نے خاص اپنا کہ جس میں صرف دوکوٹھے تھے فروخت کردیا بعد چند روز کے فوت ہوگیا، اولاد زید کی عرصہ تیس برس تک مکانات مشترکہ اوردرخت نیب وکھپریل پرقابض رہے اورسکونت بھی مکان خاص عمرو میں اپنے چچا کے پاس رہے، قضاءً عمرو اوراولاد زید میں نااتفاقی ہوئی، اولاد زید نے جداہوکردوسری جگہ سکونت اختیار کی، بعد چندروز کے عمرو بھی فوت ہوگیا تب اولاد عمرو نے وہ سب مکانات اوردرخت نیب تین حصہ مساوی پرآپس میں تقسیم کرلیا، اولادزید کوکچھ آیا بوجہ جداہوجانے اورقبضہ چھوڑدینے کے اولادزید کاحق نہ رہا۔
الجواب : نہ جداہوجانے سے حق ساقط ہوسکتاہے نہ قبضہ چھوڑدینے سے، نشست گاہ اور کھپریل اوردرخت میں نصف اولادزید کاہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۷۹ : ۱۱/ذی الحجہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس باب میں کہ ہندہ فوت ہوئی اورزینب اخت عینی اور زیدپسرہمشیرہ اورعمرو پسر برادر حقیقی اورخالد برادر علاتی اورشوہر وارث چھوڑے، پس تقسیم ترکہ کس طرح ہوگی؟ بیّنواتوجروا
الجواب : برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امور مقدمہ علی المیراث کالدین والوصیۃ ترکہ ہندہ کادوسہام پرمنقسم ہوکرایک سہم شوہر اورایک حقیقی خواہر کوملے گا باقی کوکوئی کچھ نہ پائے گا، بھانجا توذوی الارحام سے ہے اوربھتیجا بھائی کے ہوتے محروم بھائی عصبہ تھا اہل فرائض یعنی شوہر وخواہر سے جوبچتا لیتامگر ان سے کچھ باقی بچاہی نہیں لہٰذا کچھ نہ پہنچا۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۰ : ازالٰہ آباد کچہری دیوانی مرسلہ شیخ رضی الدین صاحب وکیل ۱۴محرم ۱۳۱۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین فرقہ سنت وجماعت بیچ اس مسئلہ کے کہ شیخ معین الدین نے انتقال کی اورمسماۃ مینابی بی ایک زوجہ لاولد اورمسماۃ عائشہ بی بی ایک خالہ علاتی یعنی نانا کی دختردوسری ماں سے جومتوفی کی حقیقی نانی نہ تھی اورمسماۃ مصری بی بی ایک خالہ عینی کے تین پسراورایک دختر اورمسماۃ برکت النساء بی بی دختر عم حقیقی متوفی کوچھوڑا اوربعد فوت شیخ معین الدین مذکور کے مسماۃ برکت النساء بی بی بھی تین پسروتین دخترچھوڑکر فوت ہوگئی پس ایسی صورت میں املاک متروکہ شیخ معین الدین متوفی ازروئے شرع شریف حنفی کے کس کس کو کس کس قدرپہنچے گا وملے گا؟فتوٰی بحوالہ عبارت کتاب کے ارقام ومرحمت فرمایاجائے۔بیّنواتوجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں برتقدیر عدم موانع ارث ووارث آخروتقدیم مہرودیون ووصایا ترکہ شیخ معین الدین کاچارسہام پرمنقسم ہوکرایک سہم زوجہ اور تین سہم عائشہ کوملیں گے اورمصری کی اولاد یابرکت النساء کے لئے کچھ نہیں۔ شرعاً ذوی الارحام کے ہرصنف بلکہ عصبات کی بھی ہرنوع میں یہ حکم عام ہے کہ قرب درجہ مطلقاً موجب ترجیح ہے ایک صنف کے ذوی الارحام یاایک نوع کے عصبات میں جسے میت تک انتساب میں وسائط کم ہوں گے وہ کثیر الوسائط پرہمیشہ مقدم رہے گا اگرچہ دوسراقوت قرابت یاولدیت عصبہ رکھتاہو مثلاً برادرعلاتی ابن الاخ عینی سے مقدم ہے اور بنت خالہ ابن ابن العمہ پرمرجح ہے ۔
وھکذا شریفیہ میں ہے :
اولٰھم بالمیراث اقربھم الی المیت من ای جہۃ کان ای سواء کان الاقرب من جھۃ الاب اومن غیرجہتہ فاولاد العمۃ اولٰی من اولاد اولاد الخالۃ وبالعکس لوجود الاقربیۃ مع اختلاف الجھۃ۱؎ اھ مختصراً۔
ان میں سے میراث کازیادہ حقدار وہ ہوگا جو میت کے زیادہ قریب ہوچاہے کسی بھی جہت سے ہو یعنی برابرہے کہ وہ زیادہ قریب باپ کی جانب سے ہو یا ماں کی جانب سے۔ چنانچہ پھوپھی کی اولاد، خالی کی اولاد کی اولاد سے
اولٰی ہوگی اوریوں ہی اس کے برعکس کیونکہ جہت مختلف ہونے کے باوجود اقربیت پائی گئی اھ مختصراً(ت)
(۱؎ الشریفیۃ شرح السراجیۃ کتاب الفرائض باب ذوی الارحام مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۱۱۷)
درمختارمیں ہے :
یقدم الاقرب فی کل صنف۲؎۔
ہرصنف میں زیادہ قرب رکھنے والے کومقدم کیاجائے گا(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الفرائض باب توریث ذوی الارحام مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۶۴)
اورشک نہیں کہ خالہ بنت العم سے اقرب ہے، خالہ کے معنی ہیں خواہر مادرمیت اوربنت العم کے معنی دختربرادرپدرمیت ولہٰذا بنت العم ابن الخالہ یابنت الخالہ پرمقدم نہیں ہوتی دونوں ایک درجے میں لکھی جاتی ہیں۔
حل المشکلات علامہ انقروی میں ہے :
من مات وترک بنت عم لابوین و ابن خال لاب اولام فالمال بین الفریقین اثلاثا ثلثا المال للبنت لانھا من جانب الاب وثلثہ للابن لانہ من جانب الام۳؎۔
جوشخص حقیقی چچا کی بیٹی اورعلاتی یااخیافی ماموں کابیٹا چھوڑکرفوت ہواتو اس کامال دونوں فریقوں میں تہائیوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگا، دوتہائی بیٹی کوملیں گے کیونکہ وہ باپ کی جانب سے ہے اور ایک تہائی بیٹے کوملے گاکیونکہ وہ ماں کی جانب سے ہے۔(ت)
(۳؎ حل المشکلات )
اور جب بنت العم اولادخالہ سے مساوی الدرجہ ہوئی تو خالہ سے بالبداہۃ نیچے درجے میں ہوئی اورجب بنت العم نے بوجہ ولدیت عصبہ اولاد خالہ پرترجیح نہ پائی کہ حیزقرابت مختلف ہے توخالہ کے ہوتے ہوئے اس کی ولدیت عصبہ بدرجہ اولٰی ساقط الاعتبار ٹھہری۔
سراجیہ وشریفیہ میں ہے :
ان استووا فی القرب ولٰکن اختلف حیزقرابتھم بان کان بعضھم من جانب الاب وبعضھم من جانب الام فلااعتبار ھٰھنا لقوۃ القرابۃ ولالولد العصبۃ فی ظاھر الروایۃ فبنت العم لاب وام لیست اولٰی من بنت الخالۃ لعدم اعتبارکون بنت العم ولدالعصبۃ۱؎ اھ باختصار۔
اگر وہ قرب میں برابرہوں لیکن جہت قرابت میں مختلف ہوں مثلاً ان میں سے بعض باپ کی جانب سے اوربعض ماں کی جانب سے ہوں تویہاں قرابت کی قوت اورعصبہ کی اولاد ہونے کاظاہر الروایہ کے مطابق کوئی اعتبارنہیں ہوگا، لہٰذا حقیقی چچا کی بیٹی خالہ کی بیٹی سے اولٰی نہیں ہوگی کیونکہ یہاں چچا کی بیٹی کااولاد عصبہ ہونا معتبرنہیں ہے اھ اختصار(ت)
(۱؎ الشریفیۃ شرح السراجیۃ کتاب الفرائض باب ذوی الارحام مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۱۱۹)
بالجملہ خالہ اگرعلاتیہ صنف رابع میں ہے اوربنت العم حکماً اولاد صنف رابع کے مثل ہے حاشیہ علامہ طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے :
حکم بنات الاعمام حکم اولاد الصنف الرابع۲؎۔
چچوں کی بیٹیوں کاحکم صنف چہارم کی اولاد کے حکم کی طرح ہے۔(ت)
(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الفرائض باب توریث ذوی الارحام مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۴۰۱)
اورصنف رابع اولاد صنف رابع پربالاجماع مقدم ومرجح ہے کمالایخفی(جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ت) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم