فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
مسئلہ ۷۵ : ۲۵/رجب ۱۳۰۹ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے تین پسردودخترایک زوجہ تھی زوجہ نے انتقال کیاعمرو پسر کلاں نے کہ ماں اسی کے ساتھ رہتی تھی بے اذن زید بطورخود اپنی والدہ کی تجہیزوتکفین کی جب زیدکاوقت انتقال قریب آیا اس نے تیس روپیہ قرض لے کر اپنے منجھلے پسربکر کو کہ زید اس کے ساتھ رہتاتھا دئیے کہ کفن ودفن میں اٹھانا اب تقسیم جائداد زید پرمنازعت ہے۔ عمروکہتاہے والد نے تیس روپے اپنی تجہیزکے لئے بکر کو دئیے تھے میں نے والدہ کی تجہیزوتکفین کی اس کے تیس روپیہ میں ترکہ والدہ سے لوں گا، خالد پسرخوردکہتاہے والد نے اوربھائیوں کی شادی خود کی میری شادی نہ ہوئی اس کاصرف علاوہ حصہ شرعیہ کے ترکہ والد سے مجھ کوملے، اس صورت میں شرعاً کیاحکم ہے اور پسرکلاں وخورد کے یہ دونوں دعوے قابل سماعت ہیں یانہیں؟بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اوراجرپائیے۔ت)
الجواب : دونوں دعوٰی باطل وناقابل سماعت ہیں عورت کی تجہیزوتکفین اگرچہ مذہب مفتی بہ میں مطلقاً ذمہ شوہر لازم ہے توبکر نے اپنے باپ کا واجب اداکیا مگرجب کہ یہ فعل اس کابطور خود بے اذن پدر تھا تو وہ اس کی طرف سے تبرع یعنی احسان اورایک نیک سلوک ٹھہرے گا جس کامعاوضہ پانے کاوہ ماں یاباپ کسی کے ترکہ سے استحقاق نہیں رکھتا۔
تنویرالابصار میں ہے :
اختلف فی الزوج والفتوٰی علٰی وجوب کفنھا علیہ وان ترکت مالا ۱؎۔
زوج کے بارے میں اختلاف کیاگیا اورفتوٰی اس پر ہے کہ بیوی کاکفن خاوند پر واجب ہے اگرچہ بیوی نے مال چھوڑاہو۔(ت)
(۱؎ الدرالمختارشرح تنویرالابصار کتاب الصلٰوۃ باب صلٰوۃ الجنازۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۲۱)
ردالمحتار میں ہے :
لوکفنہ الحاضر من مالہ لیرجع علی الغائب منھم بحصتہ فلارجوع لہ ان انفق بلا اذن القاضی حاوی الزاھدی واستنبط منہ الخیر الرملی انہ لوکفن الزوجۃ غیرزوجھا بلااذنہ ولااذن القاضی فھو متبرع۱؎۔
اگرچہ حاضرنے میت کو اپنے مال سے اس نیت سے کفن پہنایا کہ غائب وارثوں پراس کے حصہ کارجوع کرے گا تو اس کو رجوع کاحق نہیں ہوگا اگراس نے قاضی کی اجازت کے بغیر کفن پرخرچ کیاہو۔ یہ حاوی الزاہدی میں ہے۔ اسی سے علامہ خیرالدین رملی نے استنباط کیاکہ اگربیوی کو خاوند کے غیرنے خاوند اورقاضی کی اجازت کے بغیرکفن پہنایا تو وہ اس میں احسان کرنے والا قرارپائے گا۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ باب صلٰوۃ الجنائز داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۵۸۰ و ۵۸۱)
اسی طرح شادی کاصرف مانگنا محض بے معنی ہے جس کی شرع مطہر میں کچھ اصل نہیں، مصارف شادی زید پردَین نہ تھے کہ اس کے ترکہ سے لئے جائیں
کما لایخفٰی علی احد ممن لہ مساس بالعلم
(جیسا کہ علم سے مس رکھنے والے کسی شخص پرپوشیدہ نہیں۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۷۶ : ۱۹/ربیع الاول شریف ۱۳۱۶ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ محمدی بیگم فوت ہوئی، ایک بہن کی دو دختر زینب وسکینہ، اوردوسری بہن کے دوپسر ایک دخترخالد، ولید، ہندہ اوربھائی کی ایک دخترہاجرہ وارث چھوڑے۔ یہ سب بہن بھائی حقیقی تھے توترکہ محمدی بیگم کاان پرکس طور سے تقسیم ہوگا؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث ووارث آخر وتقدیم دَین ووصیت ترکہ محمدی بیگم کا انچاس سہام پرمنقسم ہوکر چودہ سہم ہاجرہ اورپانچ پاچ زینب وسکینہ وہندہ اور دس دس خالد و ولید کوملیں گے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
صورۃ القسمۃ ھکذا
(تقسیم کی صورت اس طرح ہے۔ت)
26_10.jpg
مسئلہ ۷۷ : ازملک بنگالہ ضلع بردوان ڈاکخانہ گدا موضع کدمیہ مرسلہ محمدمسلم صاحب ۲۸ربیع الآخرشریف ۱۳۱۶ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت فوت ہوئی اس نے کوئی وارث نہ چھوڑا سوائے زوج البنت واخت الزوج وابن عم الزوج کے، آیا انہیں کوملے گا بطور وراثت یابطور استحقاق بیت المال؟ اس زمانہ میں بیت المال نہیں ایسا مال مہتمم مدرسہ کودیاجائے کہ وہ حوائج مدرسہ میں خرچ کرے، جائزہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا
الجواب : جبکہ میت کاکوئی وارث شرعی موصی لہ بجمیع المال تک نہ ہو توجوکچھ اس کی تجہیزوتکفین وادائے دیون سے بچے فقرائے بیکس وبے قدرت عاجزین مسلمین کودیاجائے۔ ان تین شخصوں میں اگر کوئی اس طرح کاہو تو اسے دیں، اوراگرداماد فقیر عاجز ہوتو وہ مستحق ترہے اسے دینا انسب ہے کہ وہ سب سے زیادہ عورت کاقریب ہے، داماد محرم ومانندپسرہوتاہے، اس مال کامہتمم مدرسہ کو ایسے خرچ مدرسہ کے لئے دینا جومصرف مذکور سے جداہو عامہ کتب کے خلاف ہے۔
درمختارمیں ہے :
بیوت المال اربعۃ (الٰی قولہ) ورابعھا الضوائع ''مثل مالا ÷ یکون لہ انا وارثونا ÷ ثم قال ورابعھا فمصرفہ جھات ÷ تساوی النفع فیھا المسلمونا۱؎ ÷ قال فی ردالمحتار لکنہ مخالف لما فی الہدایۃ والزیلعی فان الذی فی الہدایۃ وعامۃ الکتب ان الذی یصرف فی مصالح المسلمین ھو الثالث اما الرابع فمصرفہ اللقیط الفقیر والفقراء الذین لااولیاء لھم کما فی الزیلعی وغیرہ عامۃ الکتب۱؎ اھ مختصرا وتمام تحقیقہ البازغ فیما علقنا علیہ۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
بیت المال کی اقسام چارہیں (ماتن کے اس قول تک کہ) ان میں چوتھی قسم گری پڑی اشیاء ہی جیسے وہ مال جس کاسرے سے کوئی وارث نہ ہو۔ پھرکہا اس کامصرف وہ جہتیں ہیں جن کے نفع میں تمام مسلمان برابرہوں، ردالمحتار میں کہا لیکن یہ اس کے مخالف ہے جوکچھ ہدایہ اورزیلعی میں ہے، کیونکہ ہدایہ وعام کتابوں میں ہے کہ جوکچھ مسلمانوں کی مصلحتوں پرخرچ کیاجاتا ہے وہ تیسری قسم ہے۔ چوتھی قسم کامصرف تو وہ لقیط ہے جومحتاج ہو اور وہ فقراء ہیں جن کاکوئی ولی نہیں ہوتا جیساکہ زیلعی وغیرہ عام کتابوں میں ہے اھ اختصار، او اس کی مکمل روشن تحقیق ردالمحتار پرہماری تعلیق میں ہے۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الزکوٰۃ باب العشر مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۴۰) (۱؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ باب العشر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۵۸)