Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
28 - 145
جواب سوال ہفتم

ان حدیثوں کے بعد اگرچہ نہ اس سوال کامحل نہ اس کے جواب کی حاجت، مگراستفسار پرکہاجاتاہے کہ ہاں بارہا فقیرکے یہاں سے ایسی عصوبات بعیدہ کوترکہ دلایاگیاہے کئی کئی روز سائلوں نے کہا اس کاکوئی عصبہ نہ رہاکوئی نہیں اوران پرباربارتحقیق وتفتیش کی تاکید کی گئی اوربالآخر پتالگاکرلائے کہ پردادا یاپردادا کے باپ کی اولاد کافلاں مردفلاں جگہ باقی ہے۔ فقیرنے پندرہ سولہ سال سے تقسیم ترکہ کے مسائل اپنے اصحاب واحباب کے متعلق کردئیے ہیں اورنادراً جوخودلکھناہوتاہے اپنے مجموعہ فتاوٰی میںان کی نقل نہیں رکھتا مگرجب کسی فائدہ نفیسہ پرمشتمل ہولہٰذا ان سب وقائع کاپتانہیں دے سکتا ہاں ابھی اسی شعبان ؎میں اسی شہرکاایک مسئلہ لکھاگیاجس میں قاضی زادوں کے خاندان سے ایک عورت کے پردادا کاپرپوتا اس کاوارث ہوا۔ ثواب الخیربنت رعایت علی بن قاضی رحمت علی بن قاضی مولوی شیخ الاسلام کاترکہ فرزند علی بن محمد علی بن قاضی ب درالاسلام بن قاضی مولوی شیخ الاسلام کوملا۔ فرائض نویسان زمانہ دریافت نہیں کرتے سائلوں جاہلوں کے بتانے پرقناعت کرتے ہیں وہ کیاجانیں کس کس کو ترکہ پہنچتاہے، لاجرم بلاوجہ حق تلفیاں ہوتی ہیں اگرتفتیش کامل کی عادت ہوتی توآج ایسی توریثیں اچنبھانہ معلوم ہوتیں۔ سچ ہے جووارد ہواحدیث میں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی:
تعلموا الفرائض وعلموہ الناس فانہ نصف العلم وانہ ینسی وھو اول ماینزع من امتی۱؎۔ رواہ ابن ماجۃ والحاکم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
فرائض سیکھو اورلوگوں کوسکھاؤ کہ وہ نصف علم ہے اوروہ بھولاجاتاہے اورپہلاعلم جومیری امت سے نکل جائے گا(اس کو ابن ماجہ اورحاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
عہ؎بعدہ، ۹/صفر۱۳۱۹ھ کو اسی بریلی کے مسلمان حلوائیوں کاایک مناسخہ آیا جس میں احمدبخش نامی ایک شخص کاترکہ کہ اس کی زوجہ وہمشیرہ سے بچابلاقی وانعام اﷲ نے پایا کہ احمدبخش کے پردادا کے چچاپوتے ے پوتے ہیں ان کاسلسلہ نسب یوں ہے، یہاں ذی فرض نسبی بھی موجود ہے پھراحمدبخش کی پھوپھی سراجن مری وہی دوعصبے اس کے بھی وارث ہوئے وہ اس کے دادا کے چچا کے پرپوتے کے بیٹے ہیں، یہ بحمداﷲ اس تحقیق کانتیجہ ہے جوبیان کی جاتی ہے۔

زید

صلابت		    نورمحمد

کمو    لال محمد    		غلام غوث

سعداﷲ    عطاء اﷲ 	    فیض اﷲ

محمدبخش

انعام اﷲ     بلاقی		           احمدبخش
 (؎ سنن ابن ماجہ     ابواب الفرائض     باب الحث علی تعلیم الفرائض         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۱۹۹)

(لمستدرک للحاکم     کتاب الفرائض     دارالفکر بیروت     ۴ /۳۳۲)
جواب سوال ہشتم

یہ رواج باطل ومردودونامعتبرہے کہ صراحۃً مخالف شرع مطہر ہے کوئی رواج نص کے خلاف معتبرنہیں ہوسکتا ورنہ رباوزنا وشراب ورباب کارواج اس سے بدرجہا زائدہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم توفرمائیں:
فلا ولی رجل ذکر۱؎۔
کہ وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے(ت)
(؎ صحیح البخاری     کتاب الفرائض     باب میراث الولد من ابیہ وامہ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۹۹۷)
جوفرائض مقدرہ دلاکر باقی بچے وہ اس مرد کاہے جوبہ نسبت دیگراقارب کے میت سے قریب ترہے، ایسے مرد کے ہوتے ہوئے جورَد کیاجائے گاصراحۃً حق تلفی وظلم ابعد اورایساردخودواجب الرد ہوگا، یہ رواج نہ صرف حدیث بلکہ اجماع امت کے خلاف ہے۔
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے:
قال النووی رحمہ اﷲ تعالٰی قد اجمعوا علی ان مابقی بعد الفرائض فہو للعصبات یقدم الاقرب فالاقرب۲؎۔واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
امام نووی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ مشائخ کا اس پراجماع ہے جواصحاب الفرائض کے بعد باقی بچے وہ عصبوں کے لئے ہے، جوسب سے زیادہ قریبی ہے اس کومقدم کیاجائے گا پھر اس کے بعد والا۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم(ت)
 (صحیحمسلم         //    //    //    //    //    //    //    ۲ /۳۴)

(؎ مرقاۃ المفاتیح     کتاب البیوع     باب الفرائض     حدیث ۳۰۴۲    المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۶ /۲۳۰)
مسئلہ ۷۳ :ازدیگر شریف ضلع ہردوئی مرسلہ حضرت سیدمحمد زاہد صاحب ۱۸محرم الحرام ۱۳۱۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ خالد کی زوجہ اولٰی سے ایک پسر اور ایک دختر ہے، بعد فوت زوجہ اولٰی خالد نے عقدثانی کیا اس سے بھی اولاد ہے اب خالد ن اولاد زوجہ اولٰی کو مکان سے نکال دیا اورجملہ حقوق سے محروم کیا او رذمہ خالد کے مہرزوجہ اولٰی کاواجب الاداہے۔ پس اس صورت میں اولاد زوجہ اولٰی مستحق پانے مہر وغیرہ مادر متوفیہ اپنی کے خالد سے ازروئے شرع شریف ہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب: مہرجبکہ کُل یابعض ذمہ شوہر واجب الادا ہو اورعورت بے ابراومعافی معتبرشرعی مرجائے تووہ مثل دیگر دیون واموال متروکہ زن ہوتاہے اگرشوہربعد کو زندہ رہے تووہ خود بھی اس سے اپنا حصہ شرعی حسب شرائط مقررئہ علم فرائض پاتاہے جبکہ عورت کاترکہ قابل تقسیم ورثہ ہو یعنی عورت پرکوئی دین ایسانہ ہو جواس کے تمام متروکہ نقدودَین وجائداد کومحیط ومستغرق ہو ورنہ شوہر خواہ کوئی وارث بذریعہ وراثت مہرخواہ دیگرمتروکہ سے کچھ پانے کے مستحق نہ ہوں گے سب ادائے دین مورثہ میں صرف کیاجائے گا
لقولہ تعالٰی من بعد وصیۃ یوصین بھااودین۱؎
 (اﷲ تعالٰی کے اس ارشادکی وجہ سے''اس وصیت کے بعد جووہ کرگئیں اورقرض کے بعد''۔ت) پس صورت مستفسرہ میں زوجہ اولٰی پراگرایسادَین تھا توکل مہرجس قدر ذمہ خالد واجب الاداء ہے اس سے وصول کرکے زن متوفاۃ کے قرضخواہوں کودیں اور اگرایسانہیں توجس قدردَین غیرمحیط عورت پرہو اس کے کل متروکہ مہروغیرہ سے اداکرکے باقی ثلث میں اس کی وصیت اگر اس نے کی ہونافذ کرکے باقی کاایک ربع خالد پر سے ساقط کریں کہ یہ خود اس کاحصہ ہوا اورتین ربع دیگروارثان زن کودیں خواہ یہی پسرودختر ہوں یاان کے ساتھ اوربھی مثل مادر وپدرزن یااس کے
جد صحیح وجدہ صحیحہ علٰی قضیۃ الفرائض اﷲ تعالٰی۔واﷲ تعالٰی اعلم
(؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۲)
مسئلہ ۷۴ :ازبہیڑی متصل مسجدلب سڑک مرسلہ مولوی مقیم الدین صاحب مصنف اسلام کھنڈ ۱۳صفر ۱۳۱۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کی بی بی فوت ہوئی او راس کے بعد ایک لڑکا اورایک لڑکی جواس سے تھے وہ بھی فوت ہوگئے۔ اب متوفیہ کے باپ کی جائداد متروکہ میں سے جو اس کے بھائی اورماں کے قبضہ میںہے متوفیہ کے شوہر کوازروئے شرع شریف حصہ مل سکتاہے یانہیں؟ اگرمل سکتاہے توکس حساب سے؟ اورمتوفیہ کے ماں اوربھائی اس کے شوہر سے اگر اس نے معاف نہ کیا ہو زرمہر پانے کے مستحق ہیں یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : ہندہ یعنی زن متوفاۃ کابھائی اس کے مہروغیرہ متروکہ سے کسی شیئ کامستح نہیں اور لیلٰی یعنی  مادرہندہ ضروراپناحصہ مہرشوہر ہندہ سے پانے کی مستحق ہے یونہی زید یعنی شوہر ہندہ اپناحصہ ہندہ کے اس ترکہ سے جو اس نے متروکہ پدری سے پایا مادر وبرادرہندہ سے لینے کااستحقاق رکھتاہے۔ باقی رہا یہ کہ لیلٰی کامہر اورزید کااس ترکہ میں کتنا حق ہے؟ اس کی تعیین تفصیل ورثہ ہندہ پرموقوف تھی، سائل نے کچھ نہ بتایا کہ عمرووسلمٰی یعنی پسرودخترہندہ کی شادیاں ہوئی تھیں یانہیں، ان کے بعد عمرو کی زوجہ یاسلمٰی کاشوہر یاکسی کی کچھ اولاد رہی یانہیں، اگررہی توازقسم اناث تھی یاکیا، برتقدیر اول ایک دخترتھی یامتعدد، پھران وارثان عمرووسلمی میں اگر تھے کسی ایسے کاانتقال ہویانہیں جس کی موت سے لیلٰی کاحصہ بڑھے، ہواتوکتنوںکا، کس ترتیب سے، کیا کیاوارث چھوڑے، ان صور کے اختلاف سے زیدولیلٰی کے استحقاق میںیہ اختلاف پڑے گا کہ ان میں ہرایک ترکہ عمرووسلمٰی سے کبھی سدس پائے گا کبھی کم کبھی زائد، اوربعض صورتوں میں زیدکے لئے پانچ سدس ہوں گے لہٰذا تعیین نہیں کی جاسکتی کہ زیدولیلٰی ترکہ ومہرہندہ سے کس کس قدرکے مستحق ہوئے۔ اجمالاً اتناکہہ سکتے ہیں کہ ہندہ کو جوکچھ ترکہ پدری سے ملازیورومہروغیرہا اورجوکچھ اس کاذاتی تھا برتقدیر عدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم دَین ووصیت چھتیس سہام ہوکر نوسہم زیداورچھ لیلٰی اورچودہ عمرواورسات سلمی کوملیں گے، اور جوکچھ عمرووسلمٰی کوملاوہ ان کے ورثہ پرتقسیم ہوگا جن میں زید ولیلٰی بھی ضرورمستحق یاصرف یہی دونوں مستحق ہوں گے،بہرحال وہ چہارم کہ زید نے ترکہ ہندہ سے پائے اورجوجوحصہ اسے ترکہ عمرووسلمی سے ملا اس کے مجموع کامطالبہ وہ اس ترکہ ہندہ سے کرسکتاہے جو قبضہ مادروبرادرہندہ میں ہے اور وہ چھٹا حصہ کہ لیلٰی نے مہرہندہ سے پایا اورجوجوکچھ اسے حصہ عمرووسلمٰی سے پہنچا منجملہ مہراس مجموع کامطالبہ لیلٰی زید سے کرسکتی ہے اگرصورت یہ ہوکہ عمرووسلمٰی نے سوازید ولیلٰی کے کوئی وارث نہ چھوڑا ہوتو کل متروکہ ہندہ مہروغیرہ سب بہترسہام ہوکر انیس سہم لیلٰی اورترپن ۵۳ زید کو ملیں گے اس صورت میں زیدمادر وبرادر ہندہ سے منجملہ حصہ ہندہ ازترکہ پدری ۷۲/۵۳ لینے کامستحق ہے اورلیلٰی منجملہ مہرزید سے ۷۲/۱۹،
کمالایخفی علی من یعرف التخریج
 (جیسا کہ اس شخص پرمخفی نہیں جوتخریج کی پہچان رکھتاہے۔ت)
واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
Flag Counter