Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
27 - 145
حدیث ہشتم: مسندالفردوس حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے مروی:
ان ورد ان مولٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وقع من عذق نخلۃ فمات فاتی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بمیراثہ فقال انظروالہ ذا قرابۃ قالوا مالہ ذوقرابۃ قال فانظروا ھمشھریًّا لہ فاعطوہ میراثہ یعنی بلدیًّا لہ۲؎۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاوردان نامی ایک آزاد شدہ گلام کھجور کے ایک درخت سے گرگیا اورفوت ہوگیا اس کی میراث رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ے پاس لائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس کا کوئی قرابتدار دیکھو، صحابہ نے عرض کی اس کاکوئی قرابتدار نہیں۔ تو آپ نے فرمایا اس کاکوئی ہم وطن یعنی اس کے شہر کاکوئی شخص دیکھو تو اس کی میراث اسے دے دو۔(ت)
(۲؎ کنزالعمال    بحوالہ الدیلمی عن ابن عباس    حدیث ۳۰۶۶۱    مؤسسۃ الرسالہ بیروت     ۱۱ /۷۱)
ان دونوں حدیثوں کاحاصل یہ کہ حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک غلام آزادشدہ نے انتقال فرمایا ان کے نہ اولاد تھی نہ کوئی قرابتدار، حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کاترکہ ان کے ایک ہم وطن کو عطافرمادیا۔ علماء فرماتے ہیں یہ عطافرمانا بطورتصدق تھا نہ کہ بطورتوریث، اورخودحضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بذریعہ ولائے عتاقہ وارث نہ ہوئے کہ انبیاء کرام نہ کسی کے وارث ہوں نہ کوئی ان کاوارث مال ہو علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
جواب سوال چہارم

شرع مطہر میں کہیںایساحکم نہیں، نہ ترک دعوٰی، اگرچہ باوصف علم وفات مورث وعلم مسائل شرعیہ بالقصد بلکہ بالتصریح ہو موجب حرمان۔ اشباہ میں ہے:
لوقال الوارث ترکت حقی لم یبطل حقہ۱؎۔
اگروارث نے کہا میں نے اپناحق چھوڑدیا ہے تو اس کاحق باطل نہیں ہوگا۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث         احکام النقد         ادارۃ القرآن کراچی     ۲/ ۱۶۰)
غمزالعیون میں ہے:
لومات عن ابنین فقال احدھما ترکت نصیبی من المیراث لم یبطل لانہ لازم لایترک بالترک۲؎۔
اگرکوئی شخص دو بیٹے چھوڑکرمرگیا ان میں سے ایک نے کہا میں نے میراث سے اپناحصہ چھوڑدیا تو اس کاحصہ باطل نہیں ہوگا کیونکہ اس کاحصہ لازم ہے جوچھوڑنے سے متروک نہیں ہوتا(ت)

بلکہ شرع مطہر میں حکم ہے کہ اگرکچھ لوگ قاضی کے پاس حاضرآئیں اورکسی جائداد غیرمنقولہ کی نسبت ظاہرکریں کہ ان کے فلاں مورث سے ترکہ میں انہیں پہنچی اور اس کی تقسیم چاہیں توقاضی صرف ان کے بیان پراس کی تقسیم نہ کرے جب تک بینہ سے ثابت نہ کریں کہ مورث مرگیا اوراتنے وارث چھوڑے۔
 (۲؎ غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر         //        //    //    ۲ /۱۶۰)
فی الدرالمختار عقار یدعون انہ میراث عن زید لایقسم حتی یبرھنوا علی موتہ وعددورثتہ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ کچھ لوگ کسی غیرمنقولہ جائداد کے بارے میں یہ دعوٰی کریں کہ وہ زید کی میراث ہے توقاضی اس کی تقسیم نہ کرے جب تک وہ زید کی موت اور اس کے وارثوں کی تعداد پرگواہ قائم نہ کریں۔(ت)

اورمال منقول کواگرچہ تقسیم کردے گا مگرکاغذ قسمت میں لکھ دے گا کہ یہ صرف ان کے بیان پر تقسیم کیاگیا۔
 (۱؎ الدرالمختار         کتاب القسمۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۲۱۹)
فی الھندیۃ یذکر القاضی فی صک القسمۃ باقرارھم۲؎۔
ہندیہ میں ہے کہ قاضی ان کااقرار کاغذ قسمت میں ذکرکردے گا۔(ت)

اس سوال کاجواب تویہ ہے مگر اس کومانحن فیہ یعنی توریث عصبہ بعیدہ قسم چہارم پرورود نہیں
کما ستعرفہ ان شاء اﷲ تعالٰی
 (جیسا کہ عنقریب توجان لے گا اﷲ تعالٰی نے چاہا۔ت)
(۲؎ الفتاوی الھندیۃ     //    //    الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۲۱۰)
جواب سوال پنجم

اولاً مجرکسی کے زبانی ادعاپرکہ میں فلاں کانسیب ہوں توریث نہیں ہوسکتی اس کے لئے ثبوت شرعی چاہئے۔

ثانیاً استحقاق ارث عصوبت صرف نسیب ہونے پرمبنی نہیں بلکہ شرع میں اس کے لئے ترتیب ہے جب تک ثابت نہ ہو کہ اس ترتیب کی رو سے یہی مستحق یایہ بھی مستحق ہے ترکہ نہیں دیاجاسکتایہاں عدم علم حکم میں مثل علم عدم کے ہے ولہٰذا چندشخص ایک معرکہ میں مقتول یا ایک واقعہ میں غریق یاحریق ہوں اور ان کی موت کاتقدم تاخرنہ معلوم ہو تونہ باپ بیٹے کاترکہ پائے گا نہ بیٹاباپ کا، ہرایک کے ورثہ احیاء وارث ہوں گے وبس۔ جب کسی سیدکاانتقال ہو تو جہاں تک اس کاسلسلہ نسب معلوم ہے اس کے آباء وآباء آباء الاقرب فالاقرب کی اولاد ذکورالاقرب فالاقرب تلاش کریں گے جو اقرب ثابت ہوگا اسے عصبہ ٹھہرائیں گے اگرچہ بیس پشت پر اس سے ملتا ہو اورسلسلہ معلومہ کی اولاد ذکورسے کوئی معلوم نہیں تو تمام یہاں کے سادات کرام کو عصبہ ٹھہرانا محال کہ ان میں یقینا بعض بعض سے اقرب ہیں اورایک معین کوجذافاً عصبہ اقرب کہہ دینا محال کہ ترجیح بلامرجح ہے وحکم بلادلیل ہے اور جب کسی کی عصوبت ثابت نہیں کسی کا استحقاق ثابت نہیں تو ان میں کوئی شخص کیونکر ترکہ بٹاسکتاہے یاقاضی اسے دلاسکتاہے۔
علامہ  سید شریف قدس سرہ الشریف شریفیہ میں فرماتے ہیں:
لناان سبب استحقاق کل منہما میراث صاحبہ غیرمعلوم یقینا ولما لم یتیقن بالسبب لم یثبت الاستحقاق اذلایتصور ثبوتہ بالشک۔۱؎
ہمارے نزدیک ان دونوں میں سے ہرایک کے استحقاق کاسبب اس کے ساتھ کی میراث ہے جوکہ یقینی طوپرمعلوم نہیں۔ جب سبب یقینی نہ ہوا تواستحقاق ثابت نہیں ہوگا کیونکہ اس کاثبوت شک کے ساتھ متصورنہیں۔(ت)
(۱؎ الشریفیہ شرح السراجیۃ    فصل فی الغرقی والہدمٰی     مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور     ص۱۴۳)
جواب سوال ششم

اس مبحث میں بمقابلہ ذوی الفروض کی قید زائد وضائع ہے کلام ایسی عصوبت بعیدہ کے ترکہ پانے میں ہے وہ زمانہ صحابہ کرام بلکہ زمانہ اقدس سیدانام علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام میں واقع ہوا۔
حدیث نہم: عبدالرزاق اپنی مصنف میں اور ابن جریر وبیہقی ضحاک بن قیس سے راوی:
انہ کان طاعون بالشام فکانت القبیلۃ تموت باسرھا حتی ترثھا القبیلۃ الاخری۲؎ الحدیث۔
یعنی زمانہ امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ ملک شام میں طاعون واقع ہواکہ ساراقبیلہ مرجاتایہاں تک کہ دوسرا قبیلہ اس کاوارث ہوتا۔
 (؎ المصنف لعبدالرزاق    کتاب الفرائض     باب ذوالسہام     حدیث ۱۹۱۳۶    المجلس العلمی بیروت     ۱۰ /۲۸۸)
حدیث دہم: ابوبکر بن ابی شیبہ اپنی مصنف اورامام ابوداؤد سنن میں حضرت بریدہ بن الحصیب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال اتی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رجل فقال ان عندی میراث رجل من الازد ولست اجد ازدیا ادفعہ الیہ قال فاذھب فالتمس ازدیا حولا قال فاتاہ بعد الحول فقال یارسول اﷲ لم اجد ازدیا ادفعہ الیہ قال فانطلق فانظر اول خزاعی تلقاہ فادفعہ الیہ فلما ولی قال علی الرجل فلما جائہ قال انظر کبرخزاعۃ فادفعہ الیہ۱؎ ولفظ ابن ابی شیبۃ قال فاذھب فادفعہ الی اکبر خزاعۃ۲؎۔
یعنی ایک صاحب نے حضورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوکرعرض کی میرے پاس ایک ازدی یعنی قبیلہ بنی ازد سے ایک شخص کاترکہ ہے اور مجھے کوئی ازدی نہیں ملتا جسے دوں، فرمایاسال بھر تک کوئی ازدی تلاش کرو،ایک سال کے بعد حاضرہوئے اورعرض کی یارسول اﷲ! میں نے کوئی ازدی نہیں پایا۔ فرمایا توبنی خزاعہ میں جو شخص سب سے زیادہ جداعلٰی سے قریب ہو اسے دے دے۔ جب وہ لوٹا توفرمایا اسے میرے پاس بلالاؤ۔ جب وہ حاضرخدمت ہوا توفرمایا جوخزاعہ میں سب سے عمررسیدہ ہو اسے دے دینا۔ابن ابی شیبہ کے لفظ یہ ہیں آپ نے فرمایا جااورخزاعہ کے سب سے عمررسیدہ شخص کودے دے۔
بنی ازدبنی خزاعہ کی ایک شاخ ہے، جب میت کے قبیلہ اقرب کاکوئی نہ ملا تو ترکہ نے قبیلہ اعلٰی کی طرف رجوع کی، اب کون بتاسکتاہے کہ یہ میت اس اکبرخزاعی سے کہ اس کا عصبہ ٹھہراکس قدرپشتہا پشت کے فصل پرجاکر ملتاہوگا۔ اس حدیث سے وہ تلاش کرنے کاحکم بھی معلوم ہوگیا جس کاسوال چہارم میں استفسارتھا۔
(۱؎ سنن ابی داؤد    کتاب الفرائض     باب میراث ذوی الارحام         آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۴۶)

 (؎ المصنف لابن ابی شیبہ     //    //    حدیث ۱۶۳۹        ادارۃ القرآن کراچی     ۱۱ /۴۱۴)
Flag Counter