Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
26 - 145
حدیث چہارم: احمدوابوداؤد ونسائی وابن ماجہ وبیہقی بسند صحیح بطریق عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ امیرالمومنین عمرفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ما احرز الولد اوالوالد فہو لعصبتہ من کان۱؎۔
جوولاء اولاد یاوالد حاصل کرے وہ اس کے عصبہ کے لئے ہے چاہے وہ کوئی ہو۔(ت)

حدیث پنجم: عبدالرزاق اپنی مصنف میں حضرت ابراہیم نخعی سے راوی، امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
کل نسب تووصل علیہ فی الاسلام فھو وارث موروث۲؎۔
ہرنسب جواسلام میں ملتاہو وہ وارث و موروث ہے۔(ت)
حدیث ششم: سنن بیہقی میں ہے:
عن جریر عن المغیرۃ عن اصحابہ قال کان علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ اصحابہ اذا لم یجدوا ذاسھم اعطوا القرابۃ وماقرب اوبعد اذاکان رحما فلہ المال اذا لم یوجد غیرہ۳؎، ھذا مختصر۔
حضرت جریر نے حضرت مغیرہ یعنی ان کے اصحاب سے روایت کی، مغیرہ نے کہا حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور ان کے اصحاب جب کوئی ذی سہم نہ پاتے تو وہ ترکہ رشتہ داروں کودے دیتے وہ قریب والا ہو یابعیدوالا جبکہ رشتہ دار ہو تو سب مال اسی کاہے جب اس کاغیر موجود نہ ہو۔ یہ مختصرہے۔(ت)
آیۃ کریمہ نے رشتہ داروں کومطلق رکھا صدیق اکبررضی اﷲ تعالٰی عنہ نے تصریح فرمادی کہ آیت میں ہرعصبہ نسبی داخل۔ سیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حدیث سوم وچہارم میں صاف تعمیم فرمائی کہ عصبہ وارث ہے کوئی ہو، حدیث پنجم میں فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا
 (۱؎ سنن ابی داؤد     کتاب الفرائض     باب فی الولاء         آفتاب عالم پریس لاہور     ۲ /۴۸)

(سنن ابن ماجہ         //    //    باب میراث الولاء         ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ص۲۰۰)

(۲؎ المصنف لعبدالرزاق    //    //    باب الحمیل حدیث ۱۹۱۸۰        المجلس العلمی بیروت    ۱۰ /۳۰۱)

(۳؎ السنن الکبرٰی للبیہقی     //    //    باب من قال بتوریث ذوی الارحام     دارصادربیروت     ۶ /۲۱۷)
اسلام میں نسب جہاں جاکرملے موجب وراثت ہے، حدیث ششم میں مولاعلی کرم اﷲ وجہہ کاارشاد کہ رشتہ دارپاس کاہو یا دورکا، جب اورنہ ہوتوسب مال اسی کاہے۔ ان ارشادات نے تو تمام قریب وبعید کے عصبات نسبی کو دائرئہ توریث میں داخل فرمایا اورحدیث دوم میں حضورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد اقدس نے کہ جواہل فرائض سے بچے وہ قریب ترمردکے لئے ہے ترتیب الاقرب فالاقرب کاحکم بتایا لاجرم بلحاظ قرب اتصال یہ اقسام اربعہ منتظم ہوئیں۔
جواب سوال دوم

ہرگزناممکن نہیں بلکہ بارہا واقع ہوا اور خودزمانہ رسالت میں ہوا، اوراب واقع ہے اورعادۃً واقع ہوتارہے گا۔

اولا فرض کیجئے مجوس وہنوز ونصارٰی یہودوغیرہم کفار کی اقوام سے ایک شخص مسلمان ہوا اور اس کے باقی رشتہ داراپنے کفرپرہیں ان میں ان کاعصبہ نسبی کون ہے کوئی نہیں۔
قال اﷲ تعالٰی انہ لیس من اھلک انہ عمل غیرصالح۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا:''وہ تیرے گھروالوں میں نہیں بےشک اس کے کام بڑے نالائق ہیں۔(ت)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لایرث المسلم الکافر ولاالکافر المسلم، رواہ الشیخان۲؎ عن اسامۃ بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنھما۔
مسلمان کافرکاوارث نہیں ہوتا اورنہ ہی کافرمسلمان کا۔ اس کو شیخین نے حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم     ۱۱ /۴۶)

(۲؎ صحیح البخاری     کتاب الفرائض     باب لایرث المسلم الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۱۰۰۱)

(صحیح مسلم         //    //    باب قدرالطریق الخ     //    //    ۲ /۳۳)
ثانیا ایک کافرہ حاملہ مسلمان ہوئی اورایام اسلام میں بچہ پیداہوا اس کے چھوٹے بچے جوزمانہ کفرہی میں پیداہوئے تھے
بحکم الولد یتبع خیرالابوین دینا۱؎
 (بچہ والدین میں سے بہتردین رکھنے والے کے تابع ہوتاہے۔ت) مسلمان قرارپائے ان بچوں کاکوئی قریب نسبی ان کا عصبہ نہیں۔
ثالثا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
للعاھر الحجر۲؎۔
زانی کے لئے پتھر (ت)

توولدالزنا کانہ کوئی باپ نہ کوئی عصبہ نسبی، لہٰذا ایک عورت کے دوبچے کہ زنا سے ہوں اگرچہ ایک مردسے ہوں باہم ولدالام کی میراث پاتے ہیں نہ بھی الاعیان کی
کما فی الدرالمختار وغیرہ من الاسفار
 (جیسا کہ درمختار وغیرہ ضخیم کتابوں میں ہے۔ت)

رابعا زن وشونے لعان کیابچہ بے عصبہ نسبی رہ گیا
لانہ ایضا لااب لہ کما فی الدر ایضا
 (کیونکہ اس کابھی کوئی باپ نہیں جیسا کہ درمختار میں ہے۔ت)
خامسا دارالحرب سے کچھ کفار مقیدہوکر آئے امیرالمومنین نے غانمین پرتقسیم فرمادئیے یہ سب کنیزوغلام مسلمان ہوگئے آپس میں نہایت قریب کے رشتہ دار ہیں اور سب مسلم مگرسب مملوک، اب ان میں ایک آزاد ہوا، باقی اس کے عصبہ نسبی نہیں کہ رق مانع ارث ہے۔ 

سادسا ایک بچہ سڑک پرپڑاہوا ملا پرورش کیاگیا اس کاعصبہ نسبی کسے کہاجائے اسی طرح اوربعض صوربھی ممکن، ان میں بعض صورتیں علم عدم کی ہیں جیسے ولدزنا ولعان، بعض عدم علم کی جیسے لقیط، اورمقصود اس سے بھی حاصل کہ توریث بے علم ناممکن، لاجرم ردوغیرہ مدارج تحتانیہ کی طرف رجوع ہوگی، ہمارے زمانے میں زوجین پربھی رَدہوتاہے
کمانصوا علیہ
 (جیسا کہ مشائخ نے اس پرنص فرمائی ہے۔ت) اب سوال سوم خود مندفع ہوگیا اورحاجت جواب نہیں۔

تنبیہ: ان امور کے سوا ایک صورت نادرہ اورہے کہ وہ بھی ایک بارواقع ہوئی اورممکن توبے شمار بارہے یعنی بچے کابن باپ کے پیداہونا۔ سیدنا عیسٰی کلمۃ اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے
 (۱؎ الدرالمختار        کتاب النکاح     باب نکاح الکافر     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۱۰)

(۲؎ صحیح البخاری     کتاب الفرائض     باب الولد للفراش الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۹۹۹)
اب تک کوئی عصبہ نسبی نہیں یہاں تک کہ بعد نزول ان کے اولاد زکورپیداہوں۔ اب رہا زمانہ رسالت میں وقوع، اس کے لئے حدیثیں سنئے:
حدیث ہفتم: سنن ابی داؤد وجامع ترمذی میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے ہے:
ان مولی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مات وترک شیأا ولم یدع ولد اولا حمیما فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعطوا میراثہ رجلا من اھل قریتہ۱؎۔
نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاایک آزاد شدہ غلام فوت ہوا اس نے کچھ مال چھوڑا اوراولاد نہیں چھوڑی، نہ کوئی اور قر ابت دارچھوڑا، تورسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی میراث اس کے قریہ والے کسی مرد کو دے دو۔(ت)
(۱؎ سنن ابی داؤد     کتاب الفرائض     باب فی میراث ذوی الارحام     آفتاب عالم پریس لاہور     ۲ /۴۶)
Flag Counter