فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
رسالہ المقصدالنافع فی عصوبۃ الصنف الرابع(۱۳۱۵ھ) (چوتھی قسم کے عصبہ ہونے میں نفع دینے والامقصد)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ط
مسئلہ ۶۵ :ازاٹاوہ متصل کچہری منصفی مکان مولوی حبیب علی صاحب مرسلہ مولوی وصی علی ۵رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عصبات کی جوچارقسم مقررہیں، فروع میت، اصول میت، فروع اب میت، فروع جد میت، منجملہ ان کی قسم اول ودوم وسوم میں کوئی بحث نہیں مگر قسم چہارم یعنی فروع جد میت کاسلسلہ ایساوسیع ہے کہ حق رسی اس کی دشوار بلکہ غیرممکن معلوم ہوتی ہے کیونکہ کوئی مسلمان ایسانہ ہوگا جس کاعصبہ نسبی قسم چہارم یعنی دادا کی اولاد یا پردادا کی اولاد یاسردادا کی اولاد یا ان سے بھی عالی کسی جد کی اولاد موجود نہ ہو اگردیہہ یاقصبہ مسکونہ میت میں نہ ہوگا تودوسرے دیہہ یاقصبہ میں یادوسرے شہریاملک میں ہوگا مثلاً ہندمیں نہ ہوگا توعرب یاعجم میں ہوگا تمامی ربع مسکون میں کہیں نہ کہیں ضرورموجود ہوگا، پس درصورت عدم موجودگی عصبات قسم اول ودوم وسوم کے ایسے عصبات کوتلاش کرنا اور ان کا حصہ ان کو پہنچانا غیرممکن ہے اورظاہراً شرع شریف میں کوئی ایساحکم بھی پایانہیں جاتا کہ میت کے ورثاء حاضرین میت کے ترکہ کو باخودتقسیم کرلیں حقدار ان غیرحاضرین کو اطلاع بھی نہ دیں یاجولوگ بوجہ لاعلمی وفات مورث یابوجہ لاعلمی مسائل شرعی کے دعویدار نہ ہوں نے ان کے حقوق ضائع کردئیے جائیں بلکہ مفقود کے واسطے جبکہ یہ حکم ہے کہ حصہ اس کانوے برس کی عمر تک امانت رہے تو ایسے حصہ دار کیونکر محروم کئے جاسکتے ہیں، علاوہ اس کے دیگر حقداران جوبصورت نہ ہونے عصبات نسبی کے مستحق ہیں مثلاً مولی العتاق ذوی الفروض مستحق پانے حصہ کے بطور رد کے ذوی الارحام ولی الموالات مقرلہ النسب موصی لہ مستحق ردوغیرہ ان کے حقوق قائم ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں معلوم ہوتی کیونکہ جب عصبہ نسبی کاغیرموجودہونا حسب تشریح صدرغیرممکن ہے توحقداران مابعد کے حقوق قائم ہونا بھی غیرممکن ہے پس ایسے حقداران کے متعلق جومسائل ہیں وہ محض بیکارہوئے جاتے ہیں حالانکہ شریعت کا کوئی مسئلہ ایسانہیں ہے جومورداعتراض کسی قسم کاہوسکے لہٰذادریافت طلب امورمصرحہ ذیل ہیں:
اوّلاً عصبات کی جواقسام قراردی گئی ہیں خصوصاً قسم چہارم جوالفاظ ''ادعالیھا''(یا اس سے اوپر۔ت) مشروع ہیں ان کا ماخذ کیاہے یعنی کس آیۃ قرآن شریف یا کس حدیث شریف سے ماخوذ ہے یااور کس ماخذ سے۔ ثانیا عصبات نسبی کاغیرموجودہونا حسب شرح صدرناممکن ہے کہ نہیں۔ ثالثا عصبات نسبی کاغیر اگرموجود ہوناناممکن ہے تومسائل متعلقہ عصبات سببی وغیرہ جوبصورت نہ ہونے عصبات نسبی کے مشروع ہیں کس صورت میں کارآمدہوسکتے ہیں۔ رابعا شرع شریف میں کہیں ایساحکم ہے کہ غیرحاضرین حصہ داران کو اطلاع نہ دی جائے یاجولوگ بوجہ لاعلمی وفات مورث یالاعلمی مسائل شرعی کے دعویدارنہ ہوں وہ اپنے حقوق واجبی سے محروم رہیں ان کی تلاش نہ کی جائے۔ خامسا ایساہوسکتاہے کہ عرب سے کوئی شخص آئے اور آپ کو سیدمثلاً اولادعلی وبنی فاطمہ ثابت کرکے ہند میں کسی اولاد علی بنی فاطمہ کاترکہ اس کے ذوی الفروض سے تقسیم کرالے یا ہند کاکوئی سیدعرب میں جاکرکسی سیدمتوفی کاترکہ پائے قاضیان عرب بصورت ثابت کردینے نسب کے اس کو دلادیں گے۔ سادساً عہدصحابہ رضوان اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین یاتابعین یاتبع تابعین میں کبھی ایسے عصبات بعیدہ کوبمقابلہ ذوی الفروض کے حصہ دلایاگیاہے کہ نہیں، اگردلایا گیاتو کس کتاب سے ثابت ہے۔ سابعا اس استفتا کے مفتیان صاحبان کے علم میں کبھی ایسے عصبات بعیدہ مثلاً پردادا کے بھائی کی اولاد یاسردادا کے عم کی اولاد یا ان سے بھی عالی کسی جد کی اولاد کوبحالت موجودگی ذوی الفروض نسبی کے حصہ ملاہے کہ نہیں، اگرملاہے تو کب کس خاندان میں۔ ثامنا اگرکسی قصبہ یاشہر میں رواج یہ ہے کہ بصورت عدم موجودگی عصبات قسم اول ودوم وسوم کے منجملہ قسم چہارم جد کی اولاد تک بمقابلہ ذوی الفروض کے حصہ دیاجاتاہے اَب الجد یا جد الجد یااس سے بھی عالی کسی جد کی اولاد کوحصہ نہیں دیاجاتا بلکہ ذوی الفروض پررَد ہوجاتاہے تو یہ رواج قابل عملدرآمدولائق لحاظ ہے کہ نہیں؟بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجردئیے جاؤگے)
الجواب جواب سوال اوّل ماخذ اس کاکلام اﷲ عزوجل وسنت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہے۔
قال اﷲ تبارک وتعالٰی:
واولواالارحام بعضھم اولٰی ببعض فی کتٰب اﷲ ان اﷲ بکل شیئ علیمo۱؎
اوررشتہ والے ایک سے دوسرے زیادہ نزدیک ہیں اﷲ کی کتاب میں۔ بیشک اﷲ سب کچھ جانتاہے۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۸/۷۵)
حدیث اول: عبدبن حمیدوابن جریر اپنی تفسیر میں قتادہ سے راوی:
ان ابابکر الصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال فی خطبتہ الا ان الاٰیۃ التی ختم بہا سورۃ الانفا انزلہا فی اولی الارحام بعضھم اولٰی ببعض فی کتاب اﷲ ماجرت بہ الرحم من العصبۃ۱؎، ھذا مختصر۔
سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: خبردار وہ آیت جس پرسورئہ انفال ختم کی گئی اﷲ تبارت وتعالٰی نے اس کو رشتہ والوں کے بارے میں نازل فرمایاکہ ''ان میں سے بعض بعض سے اولٰی ہیں اﷲ تعالٰی کی کتاب میں'' یعنی ہروہ عصبہ جس میں نسبی رشتہ جاری ہو۔ یہ مختصرہے۔(ت)
حدیث دوم: احمدوبخاری ومسلم وترمذی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فھو لاولی رجل ذکر۲؎۔
فرائض ذوی الفروض کودو، اور جوبچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لئے۔(ت)
حدیث سوم: صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی، حضورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مامن مؤمن الا وانا اولٰی بہ فی الدنیا والاٰخرۃ اقرؤاان شئتم النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسھم فایما مؤمن مات وترک مالافلیرثہ عصبتہ من کانوا ومن ترک دیناً اوضیاعاً فلیؤتنی فانا مولاہ والحدیث عندالشیخین۳؎واحمد والنسائی وابن ماجۃ وغیرھم عنہ نحوہ۔
کوئی مومن نہیں مگریہ کہ میں دنیاوآخرت میں اس کاولی ہوں، اگرتم چاہو تو آیت پڑھ لو ''یہ نبی (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے''۔ پس جوکوئی مومن مرگیا اور اس نے کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے قریبی وارثوں اورعصبہ کے لئے ہے جوبھی وہ ہوں، اور جس نے قرض یاکمزور اولاد چھوڑی ہو تو وہ میرے پاس آئے میں اس کامولٰی ہوں۔ اور یہ حدیث شیخین، امام احمد، اورنسائی وغیرہ کے نزدیک ثابت ہے(ت)
(۱؎ جامع البیان (تفسیرابن جریر) تحت آیۃ لیستفتونک قل اﷲ یفتیکم فی الکلالۃ المطبعۃ المیمنہ مصر۲۴۶) (الدرالمنثور بحوالہ عبدبن حمید وغیرہ // // // // مکتبہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران ۲ /۲۵۱) (۲؎ صحیح البخاری کتاب الفرائض باب میراث الولد من ابیہ وامہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۹۷) (صحیح مسلم کتاب الفرائض ۲ /۳۴ وجامع الترمذی ۲ /۳۱ ومسند احمدبن حنبل ۱ /۳۲۵) (۳؎ صحیح البخاری کتاب فی الاستقراض الخ باب الصلوٰۃ علی من ترک دیناً قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۳) (// // کتاب التفسیر سورۃ الاحزاب // // ۲ /۷۰۵)