فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
قال استاذنارحمہ اﷲ تعالٰی سئلت عمن ماتت عن زوج وبنتین واخ لاب وام ولامال لھا سوی مھر علی زوجہا مائۃ دینار ثم مات الزوج و لم یترک الاخمسین دینارا فقلت یقسم بین البنتین والاخ اتساعا بقدرسھامھم لانہ ذکر فی کتاب العین والدین اذاکان علٰی بعض الورثۃ دین من جنس عین الترکۃ یحسب ماعلیہ من الدین کانہ عین ویترک حصتہ علیہ ویترک العین لانصباء غیرہ من الورثۃ فحسبنا علی الزوج من المہر خمسۃ وعشرین دینارا کانہ عین وبقی الخمسون دینارا فی نصیب البنتین والاخ فتکون بینھم علٰی سھامھم من اصل المسألۃ۱؎، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
ہمارے استاذصاحب رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا مجھ سے اس عورت کے بارے میں پوچھاگیا جوخاوند اوردوبیٹیاں اورایک حقیقی بھائی چھوڑ کرانتقال کرگئی اور اس کاکوئی مال نہیں سوائے اس کے کہ سودینار اس کے مہر کے خاوند کے ذمے ہیں، پھرخاوندمرگیا اورسوائے پچاس دینار کے کچھ نہیں چھوڑا، تومیں نے کہا کہ ترکہ کے نوحصے بناکردوبیٹیوں اوربھائی کے درمیان ان کے سہام کے مطابق تقسیم کیاجائے گا، اس لئے کہ کتاب العین والدین میں مذکورہے جب کسی وارث پرعین ترکہ کی جنس سے کچھ قرض ہو تو اس قرض کو اس کے حصہ میں شمار کریں گے گویا کہ وہ عین ہے، اور اس کاحصہ اس قرض پرچھوڑدین گے اور عین کو اس وارث کے علاوہ دیگرورثاء کے حصوں کیلئے چھوڑ دیاجائے گا۔ چنانچہ ہم نے شوہر پرمہر میں سے پچیس دینارشمارکئے گویا کہ وہ عین ہیں۔ اور باقی پچاس دینار دوبیٹیوں اوربھائی کے حصہ میں بچ گئے تو وہ ان کے درمیان اصل مسئلہ میں سے ان کے سہام کے مطابق ہوں گے۔
واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔(ت)
(۱؎ القنیۃ المنیۃ لتتمیم الغنیۃ کتاب الفرائض مطبوعہ کلکۃ بھارت ۳۹۴)
مسئلہ ۶۳: ۹ذیقعدہ ۱۳۱۴ھ : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے انتقال کیا اوردولڑکے اول بیوی کے چھوڑے، اورایک لڑکی دوسری بیوی سے چھوڑی، اوربیوی دوسری زندہ ہے اورپہلی بیوی نے انتقال کیا شوہر کے روبرو، اورمہراس کاذمہ شوہر کے چاہئے، اب لڑکے اس کے مہراپنی ماں کاطلب کرتے ہیں۔بیّنواتوجروا۔
الجواب : سائل مظہرکہ پہلی زوجہ کامہر پچیس ہزارہے اوردوسری کاتین سوساٹھ تھا جس میں سے ڈیڑھ سوزیدنے خود ہی اداکردئیے تھے، اب دوسودس باقی ہیں اور جائداد دونوں مہروں کو کافی نہیں۔ صورت مستفسرہ میں دونوں مہراور اسی طرح اورجودین زمہ زید ہوحصہ رسداداکریں، پہلی بی بی اس سبب سے کہ اس کانکاح پہلے ہوا پہلے پانی کی (کہ جب تک اس کامہرادانہ ہولے زوجہ ثانیہ کابقیہ مہریااورکسی دائن کادَین ثابت ادانہ کیاجائے) ہرگزمستحق نہیں بلکہ وہ سب ایک ساتھ اداکئے جائیں گے اورجبکہ جائداداورنہیں، کافی نہیں دونوں مہروں اورہردَین ثابت کو حصہ رسداداکیاجائے گا اورجب کچھ نہ بچے ورثہ کچھ بذریعہ وراثت نہ پائیں گے۔
قال اﷲ تعالٰی من بعد وصیۃ توصون بھااودین۱؎۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
اﷲ تعالٰی نے فرمایا''اس وصیت کے بعد جو تم کرجاؤ اورقرض کے بعد''۔(ت) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
(۱؎ القرآن الکریم ۴/۱۲)
مسئلہ ۶۴ :ازشہرکہنہ ۶شعبان ۱۳۱۵ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی جائداد کثیراپنے محروم الارث بھتیجوں کولکھ دی او اپنے حقیقی بھائی وارث کے لئے ایک خفیف شیئ رکھی اس سے اس کی نیت بھائی کی حق تلفی تھی کہ اسے میرے بعد نہ پہنچے، اس صورت میں اس پرکچھ مواخذہ عنداﷲ ہے یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : جبکہ وارث آوارہ بدوضع نہ ہو جس سے مظنون ہوکہ مال جو اس کے لئے رہے گا معاصی الہیہ میں اُڑائے گا تو اسے محروم کرنے کی نیت سے کوئی کارروائی کرنی عنداﷲ قابل مواخذہ ہے،
حدیث میں ہے:
من فرمن میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۱؎۔ رواہ ابن ماجۃ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جواپنے وارث کے میراث پانے سے بھاگے اﷲ تعالٰی روزقیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرمادے گا(اسے ابن ماجہ نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔ت)
(۱؎ سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب الحیف فی الوصیۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۹۸)
اورکوئی خفیف شیئ باقی رکھنا کافی نہ ہوگا جبکہ نیت اس فساد کی ہو۔
فانما الاعمال بالنیات وانما لکل امری مانوٰی۱؎۔
بے شک اعمال کادارومدار نیتوں پرہے اور ہرشخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔(ت) مگرنیت کاثبوت چاہئے ورنہ صدیق اکبر وامام حسن مجتبٰی وام المومنین صدیقہ وغیرہم ائمہ دین رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے بارہا اپنے کل مال تصدق فرمادئیے ہیں اپنے کھانے پہننے کوبھی کچھ نہ چھوڑا،
کما صحت بذٰلک الاحادیث
(جیسا کہ اس پرصحیح احادیث وارد ہیں۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ صحیح البخاری باب کیف کان بدؤالوحی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲)