Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
23 - 145
مسئلہ ۵۸ :۱۳ربیع الآخر۱۳۱۲ھ     مرسلہ بولاقی خاں بریلی 

جناب مولوی صاحب سلامت، بعدآدب گزارش ہے کہ ایک ہمشیرہ اورتین ہم بھائی ہیں، جناب والد صاحب نے ایک عرصہ سے سب کام چھوڑدیاتھا جومجھ کو میسرآتاتھا حاضرلاتاتھا ایک ہمشیرہ میری نابالغ تھی اس کو میں نے اپنی محنت سے پرورش کرکے شادی کردی اوردونوںبھائی چھوٹے ان کوبھی پرورش ک یا اور بھائیوں کی بھی شادی کردی، اب جوجائداد والد کے وقت کی ہے وہ طلب کرتے ہیں، واجب ہے یانہیں؟ اوربعد گزرنے والد کے اور 

والدہ کے دونوں کو میں نے دفن کیا او رکوئی پیسہ ان کا خرچ نہیں ہو ااور قریب دوسوروپے کے والد پرقرض تھے وہ بھی میں نے دئیے اور بھائی اوربہن خود تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا آپ کوتکلیف دیتاہوں کہ شرعاً کس کو حق پہنچتاہے؟
الجواب : سائل نے بیان کیاکہ اس کے باپ نے ماں سے پہلے انتقال کیا ماں مہر معاف کردیا تھا دونوں کے وارث یہی تین بیٹے رہے۔ اس صورت میں سائل نے جوکچھ اپنے ماں باپ کی خدمت میںصَرف کیا وہ کسی سے نہ پائے گا جو اپنے بہن بھائیوں کی پرورش وشادی میں اٹھایا وہ کسی سے نہ ملے گا، ہاں جو کچھ باپ کا قرضہ اداکرنے اوربقدرسنت باپ کے کفن دفن میں اٹھایا وہ باپ کے مال پر اس کا قرض ہے پہلے یہ قرضہ اورجوقرضہ اس کے باپ کے ذمہ ہو ادا کرکے باقی تہائی سے اگرباپ نے کچھ وصیت کسی کے لئے کی ہونافذ کرکے باقی کے آٹھ حصے کریں ایک حصہ ماں اور دو دوہربیٹے اورایک بیٹی کو، اب یہ ایک حصہ جوان کی ماں کو پہنچاسائل بیان کرتاہے کہ اس کے سوا ماں کاکچھ اورترکہ نہیں اس میں سے جوان کی ماں کو پہنچاسائل بیان کرتاہے کہ اس کے سواماں کاکچھ اورترکہ نہیں اس میں سے جو کچھ سائل نے ماں کے کفن دفن بقدرمسنون میں اٹھایا وہ اور جوقرضہ اس کی ماں پرہے اداکریں اگرکچھ نہ بچے توماں کے اس حصہ میں سے دوسرے وارثوں کو کچھ نہ ملے اوراگرکچھ باقی رہے تو اس کی تہائی سے ماں کی وصیت اگر اس نے نافذ کی ہواداکرکے باقی کے سات حصے کریں ہربیٹے کودوبیٹی کوایک۔ واﷲ اعلم فقط۔
مسئلہ ۵۹: ازبیجناتھ بازار رائے پور ملک متوسط مرسلہ شیخ اکبر حسین صاحب متولی مسجد ودیرانجمن نعمانیہ ۷جمادی الاول ۱۳۱۴ھ 

فیض النساء بیگم کے شوہریعقوب علی مرحوم کی جائداد وقت مرنے کے اس قدرتھی جوفیض النساء بیگم کے مہر کواکتفاکرتی اس لئے فیض النساء بیگم کل جائداد پربعوض اپنے دین مہر کے قابض ہوئی، فرمائیے کہ یعقوب علی مرحوم کی پہلی بیوی کی اولاد کواپنی ماں متوفیہ کے مہر میں اس جائداد سے بحصہ رسدی حق مل سکتاہے یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب: جبکہ دوسری عورت کابھی کچھ مہرذمہ شوہرباقی ہے تونہ ایک عورت کل ترکہ سے اپناہی دَین پانے کی مستحق ہوسکتی ہے اگرچہ تنہا اسی کامہرمقدارترکہ سے زائدہو بلکہ دونوں عورتوں کابقدرواجب الادا مہراوران کے سوا اورجودَین ذمہ مورث ہوں سب حصہ رسد متروکہ سے ادا  کئے جائیں گے، نہ عورت بطورخود اپنے مہر کے بدلے جائداد پرقابض ہوسکتی ہے بلکہ جائداد بیچ کرمہراداکیاجائے گا
فان حقہا فی المالیۃ لافی العین
 (کیونکہ عورت کاحق مالیت میںہے نہ کہ عین میں۔ت)عالمگیریہ میں ہے:
میت اوصی الی المرأتہ وترک مالا و للمرأۃ علیہ مھرہا ان ترک المیت صامتا مثل مھرھا کان لہا ان تاخذ مھرھا من الصامت لانھا ظفرت بجنس حقھا وان لم یترک المیت صامتا کان لھا ان تبیع ماکان اصلح للبیع و تستوفی صداقھا من الثمن۱؎ اھ  قلت والتقیید بالاصلح حیث لم یکن الدین محیطا ولابیع کل شیئ کمالایخفی۔
میت نے اپنی بیوی کے لئے وصیت کی اور کچھ مال چھوڑا،عورت کا اس کے ذمے مہرہے،اگرمیت نے عورت کے مہر کی مثل نقدی چھوڑی ہے توعورت اس نقدی سے اپنامہر وصول کرسکتی ہے کیونکہ وہ اپنے حق کی جنس کوپانے پرکامیاب ہوگئی ہے، اور اگرمیت نے کوئی نقدی نہیں چھوڑی توعورت کے لئے جائزہے کہ وہ خاوند کے ترکہ میں سے جوچیز قابل بیع ہے اس کو بیچ کرثمن میں سے اپنامہروصول کرے اھ ، میں کہتاہوں قابل بیع ہونے کی قیدوہاں ہوگی جہاں قرض ترکہ کومحیط نہ ہو اور اس کی ہرشیئ نہیں بیچی جائے گی جیسا کہ مخفی نہیں۔(ت)
 (۱؎ الفتاوی الھندیۃ     کتاب الوصایا     الباب التاسع         نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۱۵۳)
وارثان زوجہ اولٰی اپنی ماں کے مہر سے مقدارواجب الاداء کادعوٰی فیض النساء بیگم پرکرسکتے ہیں،
لانھا وارثۃ فتصلح خسما للغرماء من ھٰذہ الجھۃ وان لم تصلح من جہۃ انہا دائنۃ وذٰلک بناء علی مااختارہ الفقیہ ان الوارث خصم الغریم وان کانت الترکۃ  مستغرقۃ بالدین نعم لاحلف علیہ ح کما فی وصی الھندیۃ۱؎ عن المحیط۔
کیونکہ بیوی وارث ہے اس لئے وہ اس جہت سے قرضخواہوں کے لئے خصم بن سکتی ہے اگرچہ وہ قرضخواہ ہونے کی حیثیت سے خصومت کی صلاحیت نہیں رکھتی، اور یہ مبنٰی ہے اس قول پرجس کوفقیہ نے اختیارکیاکہ وارث قرضخواہ کاخصم بن سکتاہے اگرچہ ترکہ قرض میں گھرا ہواہو۔ ہاں اس صورت میں اس پرقسم نہیں آتی۔ جیسا کہ ہندیہ کے باب الوصی میںمحیط سے منقول ہے۔(ت)

مگریہ اس حالت میں ہے کہ وارثان زن متوفاۃ پرکوئی امرمسقط مدعی یامانع دعوی ثابت نہ ہو ورنہ دعوٰی نامسموع ہوگا کمالایخفی واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم(جیسا کہ پوشیدہ نہیں، اوراﷲ سبحانہ، وتعالٰی خوب جانتاہے۔ت)
 (۱؎ الفتاوی الھندیۃ     کتاب الوصایا     الباب التاسع فی الوصی     نورانی کتب خانہ پشاور     ۶ /۱۵۴)
مسئلہ ۶۰: زید کی بیٹی کاخالد کے ساتھ نکاح ہوا، دس ہزار مہرمعین ہوا، زید کی بیٹی مرگئی، ایک لڑکا اورایک لڑکی اوروالدین اورشوہر اس کاباقی رہا، خالد کے پاس پانچ ہزار کی ملکیت ہے، درصورت غیردعویدارہونے اولاد اورشوہر کے والدین کوحصہ کس قدرملکیت موجودہ سے ملناچاہئے یا بقدرمہر؟بیّنواتوجروا
الجواب : صورۃ مستفسرہ میں چہارم مہرکاشوہر کے ذمہ سے ساقط ہوگیاباقی اگرتمام وکمال اسے حصول نہ ہوتوجتناوصول ہو ہروارث اس میں سے بقدر سہم فرائض کے لے سکتاہے نہ یہ کہ بعض ورثہ اپنا کل مطالبہ لے لیں، سائل مظہر ہے کہ اولاد دونوں نابالغ ہیں اس صورت میں اس کادعوٰی نہ کرنا کب کیا مسقط حق ہوسکتاہے البتہ اگرکوئی وارث بالغ دَین میں سے بقدر اپنے سہم کے معاف کردے تو باقی ورثہ اپنا اپنا مطالبہ لے سکتے ہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۶۱ :۴شعبان ۱۳۱۴ھ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں، زیدمرا، زوجہ اپنی کو سہ ماہ کے حمل میں چھوڑا، بعدانتقال زید کے چھ ماہ کے بعد لڑکا پیداہوا، عمروازراہ ب دنیتی وخوف اس کے کہ لڑکازیدمتوفی کی جائداد کامستحق ہو اس کی حق تلفی کے واسطے لڑکے کو ولدالحرام بیان کرتاہے اور کہتاہے کہ بعدانتقال زید کے لڑکا سوابرس کے بعد پیداہوا، اولاتولڑکاصحیح طور پربعدانتقال زید کے چھ ماہ کے بعد پیداہوا، اوربالفرض عمروکاقول تصدیق کیاجائے کہ لڑکاسوابرس کے بعد پیداہوا توبموجب شرع شریف کے لڑکاحلالی ہے یاولدالحرام؟ اورزیدمتوفی کے نطفے سے ہے یانہیں؟بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب  :  عمروجھوٹاہے، ایسی تہمت پرقرآن عظیم نے اسی کوڑوں کاحکم دیاہے اورگواہی کو ہمیشہ مردود۔ سوابرس توتھوڑاہے دوبرس تک بھی پیداہوتاتوبلاشبہہ زید کاقرارپاتا، یہ لڑکاشرعاً ضرور زیدکااوراس کاوارث شرعی ہے، ہاں اگرعورت بعدموت شوہر قبل ولادت پسراقرارکرچکی ہوتی کہ میری عدت گزرگئی، اور اس اقرار سے چھ ماہ یازائد کے بعد بچہ پیداہوتا توشوہر متوفی کاقرارنہ پاتا ورنہ صرف اس بنا پرکہ موت کے سوابرس بعد پیداہو اولادالحرام کہنا محض ظلم وباطل ہے۔
درمختارمیں ہے:
یثبت نسب ولد معتدۃ الموت لاقل منہما (ای من سنتین) من وقت الموت۱؎الخ۔
موت کی عدت گزرانے والی خاتون اگرشوہر کی موت کے وقت سے دوسال سے کم مدت میں بچہ جنے تو اس کانسب ثابت ہوگا۔(ت)
شریفیہ میں ہے:
ان کان الحمل من المیت بان خلف امرأۃ حاملا وجائت بالولد لتمام اکثر مدۃ الحمل ای سنتین او اقل ولم تکن اقرت بانقضاء العدۃ یرث ذٰلک الولد من المیت واقاربہ۲؎۔ ملتقطا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگرحمل میت کاہے جس کی صورت یہ ہے کہ میت نے حاملہ بیوی چھوڑی ہو اور وہ مدت حمل یعنی دوسال کے پوراہونے پریااس سے کم مدت میں بچہ جنے جبکہ عورت نے عدت کے گزرجانے کااقرارنہ کیاہو تویہ بچہ میت اور اس کے قرابتداروں کاوارث بنے گا۔ملتقطا، واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ الدرالمختار         کتاب الطلاق    فصل فی ثبوت النسب     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۶۱)

(۲؎ الشریفیہ شرح السراجیہ     باب ذوی الارحام     فصل فی الحمل         مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۱۳۲)
مسئلہ ۶۲ :ازشہربنارس محلہ کنڈی گڈٹولہ مسجدبازار مرسلہ حافظ ولی محمدصاحب ۲۱شوال ۱۳۱۴ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ زوجہ زید کچھ اپنے ورثائے شرعی اورزید اپنے خاوند کوچھوڑ کرمرگئی اورمہرجوزید کے ذمہ واجب الاداء ہے وصول نہیں پایا اورکوئی اولاد اس نے نہیں چھوڑی، اس صورت میں زید مہرمیں سے بھی جو اس کے ذمہ واجب الاداء ہے نصف حصہ پاسکتاہے جیسا کہ ہندہ کے کل متروکہ سے پاسکتاہے یانہیں، شبہ یہ ہوتاہے کہ قیاساً تومہرمیں سے بھی نصف حصہ زید کو پاناچاہئے ہے مگرمہر کوشارع اسلام نے بغرض احترام بضع رکھا ہے اورغایت اس کی عزت واحترام زوجہ ہے اور بحالت نصف حصہ پالینے زید کے مہرمیں سے بھی یہ غایت فی الجملہ ہوجائے گی، ہرصورت کے جزئی بھی باحوالہ کتب تحریرفرمائی جائے اورجواب سے جدل سرفرازی بخشی جائے فقط۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں ضرور نصف مہرذمہ زید سے ساقط ہوا نہ بمعنی عدم وجوب رأساً کہ مہر بعد تأکد بالموت بایں معنی قابلیت سقوط نہیں رکھتا اورغایت مذکورہ میں اگر کچھ نقص آتا تو اسی صورت سے، بلکہ بمعنی تملک بخلافت ووراثت زوجہ
لقولہ تعالٰی ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد۱؎
 (اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کی وجہ سے'' اورتمہاری بیبیاں جوچھوڑجائیں ان میں سے تمہیں آدھا ہے اگر ان کی اولاد نہ ہو۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم     ۴/۱۲)
اورشک نہیں کہ مہربھی متروکہ زوجہ میں داخل ہے اور یہ معنی اس غایت کے منافی نہیں لکہ مؤکد ومقرر ہیں کہ کل مہرزوجہ ولومالاً منافی غرض مذکور ہوتو ہبہ وابرابھی ناجائزہوں مگر وہ یونہی جائز ہیں کہ ملک زوجہ پرمتفرع ہیں تو اس کے مقرر ہیں نہ دافع اگرچہ رافع ہوں بلکہ اگررفع بھی خلافت غایت ہو تو اس سے چارہ کہاں کہ موت قطعا نافی ملک ہے، اگرکہئے کہ ملک ورثہ بوجہ خلافت قائم مقام ملک زوجہ ہے توگویا وہ ببقائے نائب باقی ہے توملک زوج بھی اس نصف میں وراثۃً ہی ہوئی یہاں بھی وہی گویا حاصل اورشبہ زائل،
Flag Counter