فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
مسئلہ ۵۵: ازڈونگر گڑھ ضلع رائے پور سنٹرل پرونسس مسئولہ شیخ حسن الدین احمدخاں صاحب ۱۱شعبان ۱۳۱۳ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہاں ایک صاحب محمدعبدالکریم خاں ڈاکٹر نہایت عابد متقی لاولد ہیں جائداد بہت ہے، خاص ان کی ذاتی پیداکی ہوئی ہے موروثی نہیں اپنے والد کی جائداد مین سے ایک حبّہ نہ لیاکل جائداد پر ان کے علاتی بھائی قابض ہوگئے، ڈاکٹرصاحب کے کوئی بھائی بہن حقیقی نہیں ان کی خواہش ہے کہ کل جائداد اپنے ماموں زادبھائی کے نام کرکے مکہ معظمہ چلاجاؤں مگریہاں کے دیوان جواہل اسلام ہیں فرماتے ہیں کہ اس تحریر سے کچھ نہ ہوگا اس کے حقدارعلاتی بھائی بھی ہوں گے، لہٰذا ڈاکٹر صاحب فتوٰی چاہتے ہیں۔بیّنواتوجروا۔
الجواب : اگربذریعہ بیع صحیح یاہبہ مع القبض اپنی تمام جائداد اپنے بھائی ماموں زاد کودے دیں گے وہ مالک مستقل ہوجائے گا علاتی بھائیوں کاکوئی استحقاق نہ ہ وگا مگریہ فعل اگربلاوجہ شرعی برادران علاتی کو اپنے ترکہ سے محروم کرنے کی غرض سے ہوگا توگناہ ہوگا، حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من فر من میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۱؎۔
جواپنے وارث کی میراث سے بھاگے اﷲ تعالٰی روزقیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرمادے گا۔
ہاں اگر وہ لوگ فسّاق فجّار ہوں کہ جائداد کومعاصی الٰہی میں صرف کریں گے اور ماموں زادبھائی ایسانہیں توجائزبلکہ بہترہے۔
فی وجیزالامام الکردری ان اراد ان یصرف مالہ الی الخیر وابنہ فاسق فالصرف الی الخیر افضل من ترکہ لانہ اعانۃ علی المعصیۃ۲؎۔
امام کردی کی وجیز میں ہے اگرکوئی شخص چاہتاہے کہ وہ اپنامال نیکی کے کام میں خرچ کرے درانحالیکہ اس کابیٹا فاسق ہے تو اس بیٹے کے لئے مال چھوڑجانے سے نیکی کے کام میں خرچ کردیناافضل ہے کیونکہ اس کے لئے مال چھوڑنا گناہ پرمدد ہے۔(ت)
(۱؎ سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب الحیف فی الوصیۃ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۱۹۸) (۲؎ فتاوٰی بزازیۃ علٰی ہامش الفتاوی الھندیۃ کتاب الھبۃ الجنس الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۶/۲۳۷)
یونہی اگراپنے مال کاثلث ماموں زاد بھائی کو لکھ دیں تو کسی حال میں کچھ مضائقہ نہیں، ترکہ پدری سے جو حصہ ان کاتھا یہ اگر نقل صحیح شرعی مثل بیع یابعد تقسیم ہبہ مع القبض کے ذریعہ سے برادران علاتی کونہیں دے دیاہے تووہ بدستور ان کی مِلک پرباقی ہے مطالبہ نہ کرنے یا یونہی چھوڑدینے سے ان کی ملک سے خارج نہ ہوا دوثلث جوبرادران علاتی کے لئے باقی چھوڑیں ان میں وہ حصہ بھی محسوب کرسکتے ہیں مثلاً ان کاوہ حصہ جو ان کے قبضہ میں ہے اگردوہزار کاہے اور اس کے علاوہ جائداد پیداکردہ ہزارروپے کی ہے تویہ کل جائداد جدیدماموں زادبھائی کو دے سکتے ہیں کہ دوثلث ان کے پاس خود موجود ہے او ریہ نئی جائداد چارہزار کی ہے تو اس میں سے نصف ماموں زادبھائی کو دے دیں کہ نصف یہ اور وہ حصہ مل کر دوثلث ہوجائیں
وعلٰی ھٰذا القیاس، واﷲ سبحانہ، وتعالٰی اعلم
( اور اسی پرقیاس ہوگا، اور اﷲ سبحانہ، وتعالٰی خوب جانتاہے۔ت)
مسئلہ ۵۶ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسماۃ ہندہ فوت ہوئی اور تین شخص قرابتی اس کے باقی رہے جس میں ایک حقیقی چچازادبہن اورایک بھائی ماموں زادااورایک بہن ماموں زادہے، پس ان تینوں میں ترکہ کس طرح پرتقسیم ہوگا؟ بینواتوجروا۔
الجواب : برتقدیر عدم موانع ارث ووارث دیگروتقدیم دین ووصیت ترکہ ہندہ کانوسہام پرمنقسم ہوکرچھ سہم چچازاد بہن اوردوماموں زادبھائی اور ایک ماموں زاد بہن کوملے گا۔
فی الشریفیۃ ان استودا فی القرب ولٰکن اختلف قرابتھم بان کان بعضھم من جانب الاب وبعض من جانب الام فلا اعتبار ھٰھنا لقوۃ القرابۃ ولالولد العصبۃ فی ظاھر الروایۃ ولالولد العصبۃ فی ظاھرالروایۃ فبنت العم لیست اولٰی من بنت الخال لعدم اعتبار کون بنت العم ولدا العصبۃ لکن الثلثین لمن یدلی بقرابۃ الاب والثلث لمن یدلی بقرابۃ الام ۱؎ اھ مختصرًا۔
شریفیہ میں ہے اگر وہ قرابت میں برابرہوں لیکن جہت قرابت میں مختلف ہوں جیسے بعض باپ کی جہت سے اوربعض ماں کی جہت سے ہوں تو یہاں ظاہرالروایۃ کے مطابق قوت قرابت اورعصبہ کی اولاد ہونے کاکوئی اعتبار نہیں چنانچہ چچا کی بیٹی خالہ کی بیٹی سے اولٰی نہیں ہوگی کیونکہ یہاں اس بات کااعتبار نہیں کہ چچا کی بیٹی عصبہ ہے لیکن جوباپ کی قرابت کے واسطے سے میت کی طرف منسوب ہو اس کے لئے دوتہائی اورجوماں کی قرابت کے واسطے سے میت کی طرف منسوب ہو اس کے لئے ایک تہائی ہوگا اھ مختصراً(ت)
(۱؎ الشریفیۃ شرح السراجیۃ باب ذوی الارحام فصل فی اولادھم مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور۲۰۔۱۱۹)
مسئلہ ۵۷ ۱۹محرم الحرام ۱۳۱۴ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسمی ننھے فوت ہوایک زوجہ ایک بیٹا ایک بیٹی ایک بھائی حقیقی وارث چھوڑے، ننھے کی بی بی مہرمعاف کرچکی ہے اوراپنا نکاح ثانی کیاچاہتی ہے اور بچوں کو کہ ابھی نابالغ ہیں چھوڑے دیتی ہے، پس ترکہ ننھے کا ان وارثوں کو کس قدرپہنچے گا اور حق ولایت بچوں کاکس کوپہنچتاہے؟بیّنواتوجروا
الجواب : بیان سائل سے واضح ہوا کہ لڑکا آٹھ برس کا اور لڑکی چار برس کی ہے اورننھے کابھائی جوان ہے اور ان بچوں کی نانی بیوہ زندہ ہے اورعورت ایسے شخص سے نکاح کیاچاہتی ہے جو ان بچوں کامحرم نہیں، پس صورت مستفسرہ میں لڑکا تو ابھی سے اپنے چچا پس رہے گا۔ اورلڑکی اپنی ماں کے پاس نوبرس کی عمرتک رہے گی اگروہ عورت ایسے شخص سے نکاح نہ کرے اور اگرنکاح کرے گی تولڑکی تنی عمر تک اپنی نانی کے پاس رہے گی اس کے بعد چچا کی سپردگی میں دی جائے گی اور ترکہ ننھے کابرتقدیر عدم موانع ارث وانحصارورثہ فی المذکورین وتقدیم مہرودیگر دیون ووصایا چوبیس ۲۴سہام پرمنقسم ہوکرتین سہم زوجہ اورچودہ سہم پسر اورسات دختر کوملیں گے اوربھائی کچھ نہ پائے گا۔ واﷲ تعالٰی اعلم