Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
20 - 145
مسئلہ ۵۲ :یافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک بازاری عورت کے بلانکاح ایک لڑکازیداورتین لڑکیاں لیلٰی، سلمٰی، عذرا پیداہوئیں وہ عورت مرگئی اور اس کا بیٹازید ایک بیٹا عمرو چھوڑ مرا اورلیلٰی سلمٰی نے نکاح کرلئے اب لیلٰی نے بھی سلمٰی، عذرا دوبہنیں اورعمرو بھتیجا اورایک شوہرچھوڑ کرانتقال کیا۔ اس صورت میں ترکہ لیلٰی کاکیونکر منقسم ہوگا اورعذرا کہ ہنوز اسی پیشہ پرہے مستحق ارث ہوگی یانہیں؟
الجواب :بازاری عورت جو اپنے پیشہ پررہے اور ایک شخص کے ساتھ بطور زنان منکوحہ پابند ہوکرخانہ نشینی اختیارنہ کرے اسے صرف تعلق فاجرانہ کے سبب منکوحہ نہیں ٹھہراسکتے تاوقتیکہ حجت شرعیہ سے ثبوت نکاح نہ ہو اور جو اولاد بے نکاح پیداہو اس کانسب صرف ماں سے ثابت ہوتاہے نہ باپ سے، اگرچہ اس کے نطفے سے ہونامتعین ہو اور وہ اس خیال سے اس کی طرف نسبت بھی کئے جائیں۔
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الولد للفراش وللعاھر الحجر۱؎۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا بچہ صاحب فراش کاہے او رزانی کے لئے پتھرہیں۔(ت)
 (۱؎ صحیح البخاری  کتاب البیوع ۱ /۲۷۶ وکتاب الفرائض ۲ /۱۰۰۱ وباب للعاہرالحجر ۲ /۱۰۰۷ وکتاب الاحکام ۲ /۱۰۶۵)
تو وہ چاروں صرف ماں کے جانب سے بہن بھائی ہوئے اور اسی جہت سے وراثت پاسکتے ہیں۔
فی الدرالمختار یرث ولد الزنی واللعان بجھۃ الام حدہ لما قدمناہ فی العصبات انہ لااب لہما۲؎۔
درمختار میں ہے زنا اور لعان کابچہ فقط ماں کی جہت سے وارث بنتاہے، جیسا کہ ہم عصبات میں ذکرکرچکے ہیں کہ ان دونوں کاکوئی باپ نہیں ہوتا۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار         کتاب الفرائض     فصل فی الغرقی والحرقی     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۶۵)
اورعذرا کاپیشہ فسق وفجور میں ہونا مانع ارث نہیں کہ وہ گناہ ہے نہ کفر۔ پس صورت مستفسرہ میں برتقدیر صدق سمستفتی وعدم موانع ارث وانحصارورثہ فی المذکورین وتقدیم ماتقدم کالدین والوصیۃ ترکہ لیلٰی کاچارسہام پرمنقسم ہوکردوسہام بکر اور ایک ایک سلمٰی وعذرا کو ملے گا،
وذٰلک لانھما شریکتا ثلث وللزوج النصف بقی السدس یردعلیھما فتعودم ستۃ الٰی اربعۃ۔
اوریہ اس لئے ہے کہ وہ دونوں ایک تہائی میں شریک ہیں اورخاوند کے لئے ترکہ کا نصف ہوگا باقی چھٹا حصہ بچا جسے ان دونوں (سلمٰی وعذرا) پرردکیاجائے گا تومسئلہ چھ سے چار کی طرف عود کرے گا۔(ت)
اورعمرو کہ لیلٰی کابھتیجا ہے بہنوں کے ہوتے کچھ نہ پائے گا
فانہ ابن اخ لام فکان من ذوی الارحام کما فی تنویرالابصار وغیرھا
 (کیونکہ وہ اخیافی بھائی کابیٹا ہے لہٰذا ذوی الارحام میں سے ہوگا، جیس اکہ تنویرالابصار وغیرہ میں ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۳ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میرمحسن نے ایک مکان زنانہ اور ایک نشستگاہ مردانی اور اس کے متصل ایک قطعہ زمین افتادہ چھوڑکرانتقال کیا بعد ان کے سوا میرانفع علی پسراورمیرجمال علی وحسن شاہ پسران میراقنع علی برادر حقیقی میرانفع علی جو اپنے والد میرحسن کے سامنے قضاکرچکے تھے اور کوئی باقی نہ رہا جبکہ دونوں نبیرے اپنے چچا کے سامنے محروم تھے مگرمیرانفع علی نے براہ محبت ان کامحروم نہ کرنا چاہا اور ایک اقرارنامہ اس مضمون کالکھ دیا کہ میں اپنے دونوںبھتیجوں کوبھی وارث کرناچاہتاہوں، یہ کل جائداد ان دونوں اورمیرے پسر میرعون علی کی ہے۔ مکان زنانہ اپنے سامنے تین حصہ پرجداجداتقسیم کرکے ایک مکان پرمیرجمال علی اورایک پرمیرحسن شاہ اور ایک پراپنے پسرمیرعون علی کوقابض کردیا مگرمکان نشست منقسم نہ ہوا اور اس میں میرانفع علی وغیرہ یہ چاروں بیٹھاکرتے تھے۔ اسی طرح وہ زمین افتادہ بھی منقسم نہ ہوئی مگرمیرانفع علی نے تحریرکل جائداد کے نسبت کی تھی جس میں وہ زمین ونشستگاہ بھی داخل تھی۔ اب بعدانتقال میرجمال علی، میرحسن رضاومیرملائی دوپسر اوربعدانتقال میرحسن شاہ، میرعابد علی ومیرباقرعلی دوپسراورزبیدۃ النساء دختروارث ہوئے، اورمیرانفع علی کا سوامیرعون علی کے کوئی وارث نہ تھا جس کے انتقال کے بعد صرف میرفیض علی پسر اس کے وارث ہوئے، میرفیض علی نے اپناکل حق حقوق میرحسن رضاومیرمولائی کے ہاتھ بیع کردیا۔ اب ان بائع و م شتریان نے بھی وفات پائی۔ میرعابدعلی ومیرباقرعلی پسران میرجمال علی دعوٰی کرتے ہیں کہ میرفیض علی سوامکان اندرونی موسوم بنام میرعون علی کے مکان نشستگاہ وزمین افتادہ میں کچھ حق نہ تھا۔ لہٰذا وہ اس بیع میں داخل نہیں ہوسکتا۔ آیا یہ دعوٰی ان کاشرعاً صحیح ہے یانہیں؟ اورزبیدۃ النساء کومتروکہ میرجمال علی سے کچھ پہنچتاہے یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب :جب کہ بعد انتقال میرمحسن کے شرعاً میرانفع علی کے سواان کاکوئی وارث نہ تھا اور میرجمال علی ومیرحسن شاہ ان کے سامنے محجوب الارث تھے توغیروارث کووارث کرنا کسی کے اختیار میں نہیں تنہا میرانفع علی اس کل جائداد کے مالک ہوئے اور ان کی یہ خواہش کہ میں اپنے ان  دونوں بھتیجوں کوبھی وارث کیاچاہتاہوں زبانی ہوخواہ تحریری ہرگزشرعاً قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ توریث رب العالمین جل جلالہ، کے حکم سے ہے نہ زیدوعمرو کے زبان میں۔ غایت یہ کہ اگرالفاظ اس اقرارنامہ کے صالح ہبہ ہوں یازبانی میرانفع علی سے الفاظ ہبہ صادرہوئے ہوں تویہ تینوں بھائی یعنی میرعون علی ومیرجمال ومیرحسن شاہ اس کل جائداد ے موہوب لہ، قرارپائیں گے مگرمکان اندرونی جسے میرانفع علی نے اپنی زندگی میں جداجداتین حصہ پرتقسیم کرکے ہرشخص کو ایک مکان علیحدہ پرقابض کرایا تو وہاں توہبہ واقعی حیح ونافذ وتام ہے اور وہ تینوںحصے ان تینوں کاشرعاً مملوک ہوگئے لیکن مکان بیرونی وزمین افتادہ میں کہ اگرچہ ہزاربارہبہ زبانی خواہ تحریری ماناجائے، شرعاً مورث ملک نہیں ہوسکتا کہ تاوقت انتقال میرانفع علی کے وہ دونوں غیرمنقسم تھے اور میرانفع علی نے اپناتعلق وتصرف ونشست وبرخاست حسب دستورقدیم بھی نہ اٹھادیا تھا پس تادم انتقال میرانفع علی کے موہوب لہم کاقبضہ نہ پایاگیا اور ایساہبہ بعدانتقال واہب باطل ہوجاتاہے
کما فی الدرالمختار
 (جیسا کہ درمختارمیں ہے۔ت)
اب کہ ہبہ باطل قرارپایا تواسمکان بیرونی وزمین افتادہ کاشرعاً کوئی مالک سوامیرعون علی کے نہ ہوا اورمیرجمال علی ومیرحسن شاہ کاہرگز ان میں کچھ حق نہ تھا بعدانتقال میرعون علی کے میرفیض علی ان دونوں قطعوں اورایک مکان اندرونی کے بلاشرکت غیرے مالک ہوئے اور یہ سب مکانات بذریعہ بیع میرحسن رضااورمیرمولائی کی طرف بالمناصب منتقل کئے گئے میرعابد علی ومیرباقی علی کا حق شرعی سواس دوثلث مکان اندرونی کے جومیرانفع علی اپنی حیات میں ان کے مورث میرجمال علی کو دے کرقابض کرادیاتھا ہرگزنہیں، اور اس میں بھی برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث و انحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امورمقدمہ کالدین والوصیۃ پانچواں حصہ ان کی بہن زبیدۃ النساء کاہے، یہ ہے حکم شرعی، اور اس کے خلاف جوکچھ ہوباطل محض۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۵۴ : یافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شیخ رحم علی وشیخ سعادت وشیخ احمد تین بھائی تھے، انہوں نے اپنے روپے سے ایک جائداد پیداکی، ان تینوں کی زندگی تک مشترک رہے اورخوردونوش سب کایکجاتھا، پس ازاں شیخ رحم علی کاانتقال ہو اوران کے اولیاء زوجہ اوربچن پسراوربجو، بجو، بلاقن تین دختروارث چھوڑے ان میں سے بجو نے ماں اولیاء اورشوہر محب اﷲ اورابن سعد اﷲ اوربنت عمدہ پھرنجو نے ماں اولیاء اوردوپسر وزیر، مسیت اوردودخترامیرن، فقیرن پھر اولیاء نے بچن وبلاقن پسرودختر چھوڑکرانتقال کیا۔ بعد وفات  شیخ رحم علی کے وہ جائداد مشترکہ وغیرمنقسمہ سعادت احمد کے پاس رہی اورسعادت نے زوجہ عظیمہ اورچار ابن عبداﷲ جمن، ننھے، مہدی حسین، چاربنت ورثہ چھوڑ کروفات پائی اور جائداد سب شیخ احمد کے ہاتھ میں رہی کہ قادربخش وممن دو پسران کے وارث رہے ان میں پہلے ممن دوبیبیاں بلاقن وبندہ جو قادربخش سے کچھ روپیہ لے کر ترکہ سے برضائے خودعلیحدہ ہوگئیں چھوڑکرانتقال کیا پھرقادربخش نے کہ بعد مرنے اپنے باپ اوربھائی کے تمام جائداد پرقابض تھا دوزوجہ مجو، بنی،ک اورایک دخترنیازن اور پانچ بھائی چچازاد بچن، عباداﷲ، جمن، ننھے، مہدی حسین ورثہ چھوڑکروفات پائی اوراپنے مرض موت میں کل مال کے نسبت اپنی دختر وزوجین کے لئے وصیت کرگیا کہ مالک اس جائداد کے بعد میرے وہ ہیں اور پانچوں بھائی اس کے یہ وصیت گوارہ نہیں کرتے، اس صورت میں وہ متروکہ کس حساب سے منقسم ہوگا؟ اوریہ وصیت قادربخش کی صحیح ونافذ رہے گی یانہیں؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجردئیے جاؤگے۔ت)
الجواب : صورت مسئولہ میں مالک اس جائداد کے رحم علی وسعادت واحمد تینوں کے ورثہ ہیں صرف قادربخش مالک نہ تھا کہ سے اکل جائداد کے وصیت کرنے کااختیارہوتا اورایک حصہ ایک جائداد کا اس کے پاس رہنے سے حق دیگر ورثا کاباطل نہیں ہوتارہا، حصہ اس کا اس میں وصیت نافذ ہوجاتی اگرپانچوں چچازادبھائی اس کی اجازت دیےت اب کہ وہ اسے گوارہ نہیں کرتے تو وہ بھی غیرنافذ ہوئی، پس کل جائداد کے بوجہ اس کے کہ اصل مورثان اعلٰی تاحیات خود اس میں شریک رہے اورایک دوسرے کے مال میں باہم تمیزنہ تھی اور خوردونوش سب کایکجاتھا برابرتین حصے کئے جائیں گے اورہرمورث کاحصہ اس کے وارث پربرتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وصحت تتیب اموات وتقدیم امور مقدمہ چوں ادائے مہمورزوجات وقضائے دیون اس طریق سے منقسم ہوجائے گا:
Flag Counter