فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
2 - 145
ہاں اگرتجہیزوتکفین پسرمطابق سنت کی اوراس میں کفن مثل پرزیادت نہ کی توبیشک ترکہ پسری میں اس قدر کا استحقاق سب وارثان سے پیشتر رکھتی ہے لانہ دین والدین مقدم علی الارث(کیونکہ وہ قرض ہے اور قرض میراث پرمقدم ہے۔ت) اور یہاں کسی وارث پسر کا اذن بھی درکارنہیں کہ عورت خود اپنے پسر کی وارث تھی۔
فی العقود عن حاوی الزاھدی احد الورثۃ انفق فی تجہیز المیت من الترکۃ بغیر اذن الباقین یحسب من مال المیت ولایکون متبرعا۱؎۔
عقود میں حاوی الزاہدی سے منقول ہے اگر کسی ایک وارث نے باقی وارثوں کی اجازت کے بغیرمیت کے ترکہ میں سے اس کی تجہیزپرخرچ کیا تو وہ میت کے ترکہ سے شمار کیاجائے گا اور وہ خرچ کرنے والا متبرع نہیں ہوگا۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ کتاب الوصایا باب الوصی ارگ بازار قندھار افغانستان ۲ /۳۲۷)
مگرصرف اس کاکہنا کہ میں اپنے پاس سے پسر کا کفن دفن کیا حجت نہیں دیگرورثہ بھی مانیں یاگواہان شرعی سے ثبوت ہوتو اس وقت یہ ٹھہرے گا کہ پسر پراس قدر اس کی ماں کا دَین ہے۔ یونہی وارثان مرد کا یہ کہنا کہ ہمارے بھائی نے کہاتھا زوجہ نے مجھے مہربخش دیا محض نامسموع ہے اگر وہ سچ بھی کہتے ہیں تومدیون کا اپنی زبان سے دعوی عفوکیونکر حجت ہوسکتاہے بلکہ گواہ درکارہیں کہ زوجہ نے مہربخش دیاتھا اگربخشش ثابت ہوجائے تو اس نصف سے جو نصیبہ مردقرارپایاتھا پہلے اس کی ماں کا دَین جو بشرائط مذکورہ (یعنی ثبوت باقرار ورثہ یا شہادت گواہان وعدم تجاوز برقدرمسنون وکفن مثل) قابل ادا ہو اداکرکے باقی وارثان مرد پر (جن میں اس کی ماں بھی داخل ہے) حسب فرائض منقسم ہوجائے اوراگرمعافی ثابت نہ ہوتو یہ دیکھناہے کہ زوجہ کانصف مہر جس کا مطالبہ شوہر پرباقی رہا اور ماں کا دَین بابت تجہیزوتکفین جوبشرط مذکورقابل اداثابت ہو (اور اسی طرح اور قرض بھی اگرذمہ مرد ہوں) سب مل کر مقدار کل ترکہ مرد سے (خواہ یہ نصف حصہ زیور ہو جو اسے ترکہ زوجہ سے ملا یا اپنا مال ہو اس مجموع سے) زیادہ ہے یابرابر یاکم اگربرابر یا زائد ہو تو ماں یابھائی کوئی وارث بحیثیت وراثت کچھ نہ پائے گا بلکہ اس حصہ زیور اوردیگر ترکہ مرد سے سب دائنوں کاحق حصہ رسد اداکیاجائے گا اور اگر مجموعہ دیون مجموعہ ترکہ پسر سے کم ہے تو بعد ادائے دیون(وانفاذوصایاپسراگر کی ہوں) جو بچے گا وہ وارثان رمرد پرمع اس کی ماں کے تقسیم ہوجائے گا۔ اب ان صورتوں میں جو کچھ اس عورت وصیت کنندہ کے حصہ میں آکر پڑے گا خواہ بہو کے ترکہ سے بذریعہ دَین تجہیزوتکفین(جس حالت میں کہ وہ واجب الاداہو) یاپسر کے حصہ سے خواہ بذریعہ مطالبہ تجہیزوتکفین شرط مذکور یابطور وراثت یادونوں وجہوں سے ان سب کو جمع کرکے مع اس کے باقی مال کے (اگر رکھتی ہو) اس مجموع کی تہائی میں اس کی وصیت خیرات بے اجازت اس کے وارثوں کے نافذہوگی،
فان الدین ایضا یدخل فی الوصیۃ بالمال علی مارجحہ فی الوھبانیۃ لانہ مال حکمی واذا خرج صار مالاحقیقۃ وثبوت حق الموصی لہ بعد الخروج ممکن کالموصی لہ فی القصاص واذا انقلب مالایثبت فیہ حقہ لانہ مال المیت اما قولھم من حلف لامال لہ ولہ دین لایحنث فذٰلک لان بناء الایمان علی العرف افادہ فی معراج الدرایۃ قلت ومن الدلیل علی ماقلت جوازالبیع بالدین وانما ھو مبادلۃ مال بمال فافھم۔
میت نے جوقرض لیناہے وہ بھی مال کی وصیت میں داخل ہوگا جیسا کہ وھبانیہ میں اس کو ترجیح دی ہے کیونکہ وہ حکمی طورپر مال ہے اور جب وہ وصول ہوجائے تو حقیقۃً مال ہوگا اور موصٰی لہ، کے حق کا ثبوت وصولی کے بعد ہی ممکن ہے جیسا کہ قصاص میں موصٰی لہ، اور جب وہ قرض مال بن گیا تو اس میں موصٰی لہ، کاحق ثابت ہوجائے گا کیونکہ وہ میت کا مال ہے۔ لیکن مشائخ کاقول کہ ''جس شخص نے قسم کھائی کہ اس کا کوئی مال نہیں حالانکہ اس کا قرض کسی پر ہے تو وہ حانث نہیں ہوگا،۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قسموں کی بنیاد عرف پر ہوتی ہے معراج الدرایہ میں اس کا فائدہ دیاہے، میں کہتاہوں میرے قول پرایک دلیل قرض کے بدلے بیع کاجائزہوتاہے کیونکہ بیع نام ہے مال کامال کے ساتھ تبادلے کرنے کا۔ پس سمجھ۔(ت) باقی جو رہے گا خاص اس کے وارثوں کاہے۔
واﷲ تعالٰی سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
مسئلہ ۳ : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان اس مسئلہ میں کہ زید کی زوجہ اولٰی جس نے نصف مہراپنا اپنی حیات میں زید کو ہبہ کردیاتھا ایک بیٹا اسی شوہر سے اور ایک ماں اور شوہر چھوڑ کر انتقال کرگئی اس کے بعد وہ لڑکا بھی باپ اور نانی کے سامنے مرگیا، زیدنے دوسری شادی کی، زوجہ ثانیہ نے کل مہر اپنا زید کو معاف کردیا، اب زید نے یہ زوجہ اور دوبرادرحقیقی ورثہ اپنے چھوڑ کر وفات پائی، اس صورت میں ترکہ زید کا کس طرح منقسم ہوگا؟ اور بابت مہرباقیماندہ زوجہ اولٰی کے ترکہ سے کس قدر کسے دیاجائے گا؟بیّنواتوجروا
الجواب : برتقدیرصدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وصحت ترتیب اموات ترکہ زید سے پہلے پہلے بقیہ مہرزوجہ اولٰی جو ذمہ زیدواجب الاداء ہے یعنی نصف مہر باقیماندہ کے بہتر ۷۲حصوں سے انیس حصے زوجہ اولٰی کی ماں کو دئیے جائیں
کما یظہر بالتخریج
(جیسا کہ مسئلہ کی تخریج سے ظاہرہوگا۔ت) اسی طرح اگر اوردیون ووصایائے زید ہو تو وہ بھی ادا ونافذ کئے جائیں۔ اس کے بعد جس قدرباقی بچے آٹھ سہم پر منقسم ہو دو سہم زوجہ ثانیہ اورتین تین ہربھائی کو پہنچیں۔
واﷲ اعلم وعلمہ اتم وحکمہ احکم
(اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے اور اس کا علم اتم اور اس کا حکم مستحکم ہے۔ت)
مسئلہ ۴ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ ایک شخص تین پسر اور ایک دختر بطن زوجہ منکوحہ ذی مہر سے چھوڑ کر فوت ہوا اور تین پسر اور تین دختربطن دوعورتوں غیرمنکوحہ سے چھوڑے بعدہ، زوجہ منکوحہ بھی وہی اولاد مذکورچھوڑ کرفوت ہوئی، اس صورت میں ترکہ متوفیہ کا کس طرح منقسم ہوگا اور بحالت زندہ رہنے اورعورات غیرمنکوحہ اور ان کی اولاد کے کون کون مستحق وراثت کا ہے اور ادائے دین مہرتقسیم ترکہ پرمقدم ہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا
الجواب : جن دو عورتوں کو سائل غیرمنکوحہ ظاہرکرتاہے اگر فی الواقع ان سے نکاح ہوناثابت نہیں، نہ وہ کنیزان شرعی، نہ ایک مدت تک اس شخص کے پاس مثل ازواج رہیں، اور باہم ان میں معاملات مانند زن وشوہر جاری نہ تھے تو وہ دونوں اور ان کی اولاد سب ترکہ سے محروم ہیں۔ اس صورت میں برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امور مقدمہ علی المیراث کا اداء الدیون واجراء الوصایا ترکہ شخص متوفی کاسات سہم پرمنقسم ہوکر دو۲ دو۲ سہم تینوں پسر زوجہ منکوحہ اورایک اس کی دختر کوملے گا اور ادائے دین مہرمثل سائردیون ووصایا تقسیم ترکہ پربلاریب مقدم ہے
ھو مصرح بہ فی کتب الفقھہ
(کتب فقہ میں اس کی تصریح کردی گئی ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۵ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس باب میں کہ اگر عد دین متوافقین کا مخرج جزء وفق بارہ ۱۲ ہو تو ان میں نسبت توافق
بجزء من اثنی عشر
(بارہ میں سے ایک جز کے ساتھ۔ت) کہنا جائزہے یانہیں؟ اور اگر قبل تقسیم ترکہ ایک یا دو یا زائد ورثہ انتقال کریں اور ان کے وارث باعیانہم وہی ورثہ میت اول ہوں اور ان کی موت سے تقسیم متغیر نہ ہو تو ان ورثہ اموات کو بین سے خارج اور
کأن لم یکن
(گویا کہ وہ تھا ہی نہیں۔ت) کردینااولٰی ہے یا ان بطون کی اقامت اور ہرایک کی علیحدہ تصحیح۔ بیّنواتوجروا(بیان کرواجرپاؤگے۔ت)
الجواب: واﷲ الموفق والصواب
(اﷲ تعالٰی ہی سچائی اوردرستگی کی توفیق دینے والاہے۔ت) صورت مستفسرہ میں جیسے کہ تعبیر بکسر منطق اور ان عددین کو متوافقین بنصف السدس یابسدس النصف کہناجائز ویسے ہی تعبیر بالجزء اورانہیں متوافقین
بجزمن اثنی عشر
کہنا بھی روا، اورفرائضیوں میں شائع وذائع۔
فی السراجیہ ففی الاثنین بالنصف وفی الثلاثۃ بالثلث وفی الاربعۃ بالربع ھکذا الی العشرۃ وفی ماوراء العشرۃ یتوافقان بجزء منہ اعنی فی احد عشر بجزء من احد عشر وفی خمسۃ عشر بجز من خمسۃ عشر۱؎ ۔
سراجیہ میں ہے کہ دو میں آدھے کاتوافق، تین میں تہائی کا اورچار میں چوتھائی کا، اور یونہی دس تک یعنی دس میں دسویں کا توافق ہوگا۔ اور دس سے اوپرجوعدد ہے اس میں توافق اس کی ایک جزء کا ہوگا مثلا گیارہ میں گیارہ کی ایک جز کا اورپندرہ میں پندرہ کی ایک جز کا۔
وفی شرحہا الشریفیۃ وبالجملۃ یمکن فیما وراء العشرۃ باسرھا ان یعبر فی التوافق بالاجزاء المضافۃ الی المخرج کجزء من احد عشر وجزء من اثنی عشر وجزء من ثلٰثۃ عشر ویمکن فی بعضھا ان یعبربالکسور المنطقۃ المرکبۃ وللتنبیہ علی ذٰلک خلط الشیخ المنطق بالاصم حیث ذکر احد عشر وخمسۃ معا۱؎۔وفی حاشیتھا للقاضی عبدالنبی الاحمد نگری رحمہ اﷲ تعالٰی فان قیل لم قال المص وفیما وراء العشرۃ یتوافقان بجزء مع انہ یمکن التعبیر فی البعض بغیر لفظ الجزء قلت غرض المص رحمہ اﷲ تعالٰی ا ان توافق العددین فیما وراء العشرۃ بجزء حکم کلی دون التعبیر بلفظ اخرفافھم۲؎۔
اس کی شرح شریفیہ میں ہے خلاصہ یہ کہ دس سے اوپر والے تمام عددوں کے توافق میں تعبیر ان اجزاء کے ساتھ ہوگی جومخرج کی طرف منسوب ہوتے ہیں جیسے گیارہ میں سے ایک جزء بارہ میں سے ایک جزء اور تیرہ میں سے ایک جزء اور ان میں سے بعض میں کسور منطقہ مرکبہ کے ساتھ تعبیر ممکن ہے۔ اسی پرتنبیہ کرنے کے لئے شیخ (صاحب سراجیہ) نے منطق(جس کسر کولفظ جزئیت وغیرجزئیت سے تعبیر کیاجاسکتاہو) اوراصم (جس کسر کو فقط لفظ جزئیت کے ساتھ تعبیر کیاجاسکتاہو) کو ملاکر ذکرفرمایاکیونکہ اس نے گیارہ اورپندرہ کو اکٹھا ذکرکیا۔ اس پرقاضی عبدالنبی احمدنگری علیہ الرحمہ کے حاشیہ میں ہے۔ اگرکہاجائے کہ مصنف علیہ الرحمہ نے یہ کیوں کہا کہ دس سے اوپروالے اعداد میں توافق ان کی ایک جزء کے ساتھ ہوتاہے جبکہ بعض میں بغیر لفظ جزء کے ساتھ ہوتاہے جبکہ بعض میں بغیر لفظ جزء کے تعبیر ممکن ہے تو میں کہوں گا کہ مصنف علیہ الرحمہ کی غرض یہ ہےکہ دس سے اوپروالے اعداد میں جزء کے ساتھ توافق ایک حکم کلی ہے بخلاف کسی دوسرے لفظ کے ساتھ تعبیرکے۔ پس سمجھو۔
(۱؎ الشریفیۃ شرح السراجیہ فصل فی معرفۃ التماثل والتداخل الخ مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص ۶۱)
(۲؎ حاشیۃ شرح الشریفیۃ)