فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
مسئلہ ۴۹ : یافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک زوجہ اورچارپسر دونابالغ اورایک دختر بالغہ چھوڑ کرانتقال کیا اور کچھ روپیہ زید کالوگوں پرقرض اورکچھ نقدتھا اس میں نقد سے تین سوروپے والدہ ودوبرادران بالغ کی رضامندی سے دختر کی شادی اور کچھ روپے زید کی فاتحہ ودرودمیں صرف ہوئے اوردوسرے برادران بالغ نے بطور خود تجارت کی اور اس کے نفع کاقدرے روپیہ بھی فاتحہ زید میں اٹھایا۔ اس صورت میں ترکہ زیدمکان وقرض ونقد کیونکر تقسیم ہوگا اور صرف شادی وفاتحہ کس کس پرپڑے گا اور کل مصارف شادی یہ ورثہ اس دختر سے مجرا لے سکتے ہیں یانہیں؟ اورنفع تجارت کاصرف انہیں دوبرادران کواستحقاق ہے یاکل وارث اس میں بھی شریک ہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : برتقدیرصدق مستفتی قعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امورمقدمہ علی المیراث کاداء المہرواجراء الوصیۃ، کل متروکہ زید مکان وقرض ونقدبہترسہام پرمنقسم ہوکر نوسہام اس کی زوجہ اورچودہ ہرپسر اورسات دختر کوملیں گے اورصرف فاتحہ کاخواہ ترکہ میں سے ہوا ہو یاجدامال سے جس جس نے کیا انہیں کے ذمہ پڑے گا اور جس کی اجازت نہ تھی وہ اس سے بری رہے گا
والمسئلۃ فی الفرائض من الحاشیۃ الطحطاویۃ علی الدرالمختار
(یہ مسئلہ درمختارپرحاشیہ طحطاویہ کے فرائض میں سے ہے۔ت) علٰی الخصوص دونوں نابالغ کہ ان کے ذمہ تو ہرگزنہیں ہوسکتا اگرچہ انہوں نے اجازت بھی دے دی ہو وھذا ظاھر جدا(اوریہ خوب ظاہرہے۔ت) اوربعینہٖ یہی حال صرف شادی کاہے جس نے صرف کیا فقط وہی اس کا متحمل ہوگا اجازت نہ دینے والوں یانابالغوں کو اس سے کچھ تعلق نہیں وہ اپنا حصہ متروکہ پدری سے پورا پوراپائیں گے اورصَرف شادی کامطالبہ صرف دختر سے نہیں ہوسکتا مگریہ کہ اس سے ٹھہرالیاہو کہ ہم یہ سارا صَرف تیرے حساب میں مجرالیں گے،
وذٰلک لان ماکانوا مضطرین فی ذٰلک وماسبیلہ ھذا ففاعلہ متبرع الا ان یشرط الرجوع کما اذا کفن الاجنبی المیت اوقضی دین غیرہ بلااذنہ والمسئلتان فی الدرالمختار۱؎ والعقود الدریۃ۔
یہ اس لئے ہے کہ وہ اس میں مجبورنہیں تھے نہ اس کی یہ سبیل ہے لہٰذاایساکرنے والا متبرع قرارپائے گا سوائے اس کے کہ اس نے رجوع کی شرط کی ہو جیسا کہ کوئی اجنبی میت کو کفن پہنائے یاکسی کی اجازت کے بغیر اس کا قرض اداکردے۔ یہ دونوں مسئلے درمختار اورعقودالدریہ میں مذکورہیں(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الوصایا فصل فی شہادۃ الاوصیاء مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۳۹) (العقودالدریۃ کتاب الوصایا باب الوصی ارگ بازارقندھارافغانستان ۲ /۳۲۶)
اورمال ترکہ سے تجارت کہ دوبالغین برادروں نے بطور خود کی اس کے نفع کاصرف انہیں دونوں کو استحقاق ہے اور کوئی وارث اس میں شریک نہیں، مگرہاں اس قدرضرورہے کہ جو نفع حاصل ہوا وہ بقدران کے حصوں کے ان کے لئے طیب ہے باقی خبیث۔ انہیں چاہئے کہ اس قدرباقی ورثہ کو بحساب ان کے حصوں کو دے دیں یاخیرات کردیں اپنے صرف میں نہ لائیں۔ مثلاً فرض کیجئے کہ ٭٭روپیہ نفع میں حاصل ہوئے و اس میں للعہ عہ تو ان کے لئے پاک ہیں کہ بھائی کو معہ اورعہ عہ ناپاک ان عہ عہ کو یاتصدق کردیں یا ان میں سے للعہ عہ دونوں برادران نابالغ کودے دیں اور عہ ۸/ ہمشیرہ کو اور للعہ والدہ کو، اور یہی صورت بہترہے۔
فی العقود الدریۃ نقل المؤلف عن الفتاوٰی الرحیمیۃ سئل عن مال مشترک بین ایتام وامھم استربحہ الوصی للایتام ھل تستحق الام ربح نصیبھا اولااجاب لاتستحق الام شیأا مما استربحہ الوصی بوجہ شرعی لغیرھا کاحد الشریکین اذا استربح من مال مشترک لنفسہ فقط ویکون ربح نصیبہا کسبا خبیثا ومثلہ سبیلہ التصدق علی الفقراء اھ اقول ایضا ویظہر من ھذا ومما قبلہ حکم مالوکان المباشر للعمل والسعی بعض الورثۃ بلاوصایۃ اووکالۃ من الباقین ۱؎ انتھی مافی العقود قلت واما ماذکرنا من ان الاولی الدفع لاصحاب الحصص فلما تقرر فی کلمات العلماء ان کان خبیثا مثل ھذا فسبیلہ التصدق وان رد علی المالک فھذا اولی والطیب لہ لکونہ ربح ملکہ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم وحکمہ احکم۔
العقود الدریہ میں ہے مؤلف نے فتاوٰی الرحیمیہ سے نقل کیاہے ایسے مال کے بارے میں سوال کیاگیاجوکچھ یتیموں اور ان کی ماں کے درمیان مشترک ہے۔ وصی نے یتیموں کے لئے اس پرکچھ نفع حاصل کیا توکیاماں اپنے حصہ کے نفع کی مستحق ہوگی یانہیں؟ امام نے جواب دیا جو نفع وصی نے اس طورپرحاصل کیاکہ خریداری ماں کے غیرکے لئے کی اس میں سے ماں کسی شیئ کی مستحق نہیں ہوگی، جیسے دوشریکوں میں سے کوئی ایک اگرمال مشترک میں سے فقط اپنی ذات کے لئے نفع حاصل کرے۔ البتہ ماں کے حصہ کانفع ان کے لئے خبیث ہوگا جس کاشرعی راستہ یہ ہے کہ ف قراء پرصدقہ کردیاجائے اھ میں کہتاہوں اس سے اور اس کے ماقبل سے اس صورت کاحکم بھی ظاہرہوگیاکہ اگرمشترکہ مال میں کام اور محنت کرنے والے بعض وارث ہوں بغیر باقی وارثوں کی وصایت ووکالت کے، العقود الدریہ کی عبارت ختم ہوئی۔ میں کہتاہوں یہ جو ہم نے ذکر کیاہے کہ حصوں کے مالکوں کونفع دے دینا اولٰی ہے اس کی دلیل وہ ہے جوعلماء کرام کی عبارات میں ہے کہ اس جیسا مال خبیث ہے چنانچہ اس کاشرعی راستہ فقراء پرصدقہ کرناہے اوراگرمالک کولوٹادے تویہ اس کے لئے اولٰی اورطیب ہے کیونکہ یہ اس کی ملک کانفع ہے، واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم وحکمہ احکم۔(ت)
(۱؎ العقودالدریۃ کتاب الشرکۃ لاتستحق الام مما استربحہ الوصی ارگ بازار قندھارافغانستان ۱ /۹۴)
مسئلہ ۵۰:(مسئلہ مذکورنہیں غالباً یوں ہوناچاہئے خورشید حسن خاں ایک بیٹا امدادحسن خاں اوردوبیٹیاں وجیہ النساء اور تنربیگم چھوڑ کرانتقال کرگیا امدادحسن خاں اپنے حصہ سے دستبردار ہوگیا اب تقسیم ترکہ کیسے ہوگا؟)
الجواب : حق میراث حکم شرع ہے کہ رب العالمین تبارک وتعالٰی نے مقررفرمایا کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوسکتا۔
قال علماؤنا کما فی الاشباہ وغیرہ الارث جبری لایسقط بالاسقاط۔
ہمارے علماء نے فرمایا جیساکہ اشباہ وغیرہ میں ہے کہ حق میراث جبری ہے کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا۔(ت)
اوروجہ اس کی ظاہرہے کہ بیٹا مثلاً اپنے باپ کا اس لئے وارث ہوتاہے کہ یہ اس کابیٹاہے تو جس طرح یہ اپنے بیٹے ہونے کونہیں مٹاسکتا یونہی اپنے حق میراث کونہیں ساقط کرسکتا، پس امدادحسن خاں کاترکہ متوفی سے دستبردارہوناہرگزمعتبرنہیں، اور وہ اس وجہ سے زنہار کالعدم نہیں ہوسکتا اگرلاکھ باردست برداری کرلے شرع تسلیم نہ فرمائے گی اور اسے اس کے حصہ کامالک ٹھہرائے گی ہاں اگراسے لینامنظورنہیں تو یوں کرے کہ لے کراپنی بہن خواہ بھاوج خواہ جسے چاہے ہبہ کامل کردے اورجومال قابل تقسیم ہواسے منقسم کرکے قبضہ دلادے اس وقت البتہ اس کاحق منتقل ہوجائے گا ورنہ مجرد دست برداری کچھ بکارآمدنہیں پس کل ترکہ خورشید حسن خاں منقولہ وغیرمنقولہ برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امورمقدمہ علی المیراث کاداء المہرواجراء الوصیۃ چارسہام پرمنقسم ہوکرایک وجیہ انساء اوردوامدادحسن خاں اورایک تنربیگم کوملے گا۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۵۱ :یافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی زوجہ کاکچھ زیور کہ وہ اپنے جہیزمیں لائی تھی باجازت اس کے خاص اپنے قرض کے عوض دائن کے پاس رہن رکھا اور اس کے سوا اورقرضہ بھی زیدپرتھا اورایکزوجہ زید کی اس کے سامنے مرگئی بعدہ، زید نے زوجہ ثانیہ اور ماں اورتین بیٹیاں ایک بطن زوجہ اولٰی اوردوبطن ثانیہ سے اورایک بھائی اوردوبہنیں وارث چھوڑکرانتقال کیا، زوجہ ثانیہ نے بعد وفات زیدزیور مرہون بالعوض اس قرضہ کے جس میں زیور رہین تھا مرتہن ک ودے دیا اور اس قدرروپیہ ترکہ شوہر سے لیناچاہتی ہے۔ اس صورت میں وہ روپیہ زوجہ ثانیہ کودلایاجائے گایانہیں؟ اور تقسیم ترکہ کس حساب سے ہوگی اورزوجہ اولٰی کہ زید سے پہلے مرگئی مستحق حصہ پانے کی ہے یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں اگر ورثہ میت نابالغین ہوں تو اس کاوصی اوروصی نہ ہوتو حاکم کوئی وصی نصب کرے کہ وہ شیئ مرہون کوبیع کرکے دین مرتہن اداکرے درمختار ص۶۲۳، اور جوکبارہوں تو وہ خودچھٹالیں ٍسہً، اگرترکہ دین مرتہن ومہرزوجیت ودیگردیون کووفانہ کرے توپہے دین مرتہن اداکیاجائے بعدہ، اگرباقی بچے تو دیگردیون حصہ رسد اگرسب دین صحت یادین مرض ہوں ورنہ دین صحت مقدم ہوگا ٍفرائض۔ بعدہ، اگرکچھ باقی ہے تو اس کے ثلث سے اورورثہ زیادہ کی اجازت دیں توزیادہ سے وصایا اس کے اگرہوں تونافذ کی جائیں پھرمابقی برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین ترکہ زید متوفی کا دوسواٹھاسی سہام پرمنقسم ہوکر۳۶سہام زوجہ اور۴۸ماں پائیں گی اور۶۴/۶۴ ہرسہ دختران کو ملیں گے اور۶بھائی اور۳/۳ دونوں بہنیں پائیں گی۔واﷲ تعالٰی اعلم صورت مستفسرہ میں جب وہ زیورخاص ملک زوجہ ثانیہ تھا اورزید نے اس کی اجازت سے پہلے قرض کے عوض رہن رکھا اور اس کے بعد وفات زوجہ نے وہ قرضہ ادا کردیاتو وہ بلاشبہہ اس قدرروپیہ ترکہ زید سے واپس پائے گی،
فی تنویرالابصار ولوافتکہ المعیر اجبرالمرتہن علی القبول ثم یرجع المعیر علی الراھن بماادی۱؎ اھ
تنویرالابصار میں ہے اگرعاریت پردینے والا رہن کوچھڑائے تومرتہن کوقبول کرنے پرمجبور کیاجائے گا، پھرعاریت پردینے والے نے جوکچھ اداکیاہے، وہ راہن سے اس کارجوع کرسکتاہے اھ (ت)
(۱؎ الدرالمختار شرح تنویرالابصار کتاب الرہن باب التصرف فی الرہن الخ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۷۵)
اسی طرح وہ قرضہ دوسروں کاجوذمہ زیدہے اور دونوں زوجہ کامہراگرباقی ہوالخ۔