Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
18 - 145
مسئلہ ۴۶ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید فوت ہوا اور اس نے زوجہ ہندہ کو بالعوض دین مہر کے اپنی جائداد پرقابض کرادیا بعدہ، منجملہ وارثان ایک وارث عمرو نے کل دین مہرزوجہ اپنے پاس سے اداکرکے جائداد کو اس کے قبضہ سے مستخلص کرایا۔ اب سب وارثان اورزوجہ اپنے اپنے حصہ شرعی کے خواستگار ہیں اس صورت میں زوجہ اورجملہ وارثان کو بقدرحصہ رسدی دین مہر کے عمرو کو دیناچاہئے یانہیں؟بینواتوجروا
الجواب : سائل مظہر کہ یہ قبضہ زوجہ کا بذریعہ ہبہ بالعوض نہ تھا بلکہ جائداد دین مہر میں صرف مکفول تھی، پس صورت مستفسرہ میں اگرعمرو نے دین مہرزوجہ اس شرط پر اداکیاتھا کہ یہ اپنے پاس سے بطریق تبرع دیتاہوں اورترکہ میت سے واپس نہ لوں گا تو ذمہ میت دین سے بری ہوا اور عمرو اس کامطالبہ ترکہ میت خواہ ورثہ باقین سے نہیں کرسکتا اورجو یہ شرط نہ لگائی تھی تو اس قدردین عمرو کاذمہ میت عائد رہا تاوقتیکہ اس ترکہ مشرکہ سے ادانہ کردیاجائے تقسیم نہ ہونے پائیگی مگریہ باقی ورثہ دین عمرو کو حصہ رسد اپنے پاس سے اپنے مال خاص سے اداکردیں اگرچہ یہ امر ان پرلازم نہیں کہ مدیون عمرومیت ہے ''نہ ورثہ'' یا دین مذکور ترکہ سے کم ہے اور اس جائداد کے سوا جس کی تقسیم مطلوب ہے اور مال بھی متوفی نے چھوڑا ہو جوادائے دین مسطور کے لئے کفایت کرے تو اس صورت میں بھی اس قدرجائداد کی تقسیم جائزہوگی اور دین عمرومال باقی غیرمقسوم سے اداکیاجائے گا۔
فی الاشباہ عن جامع الفصولین من الفصل الثامن والعشرین لواستغرقہا دین لایملکہا بارث الا اذا ابرأ المیت غریمہ اواداہ وارثہ بشرط التبرع وقت الاداء اما لواداہ من مال نفسہ مطلقا بشرط التبرع اوالرجوع یجب لہ دین علی المیت فتصیر مشغولۃ بدین۱؎ الخ وفیہ بعد سطور للوارث استخلاص الترکۃ بقضاء الدین ولو مستغرقا۲؎ اھ  وفی العقود الدریۃ عن الفصول العمادیۃ عن قسمۃ الہدایۃ ان القسمۃ مؤخرۃ قضاء الدین لحق المیت الا اذا بقی من الترکۃ مایفی بالدین فاذا قسمت جاز۱؎ اھ  ملتقطا۔واﷲ تعالٰی اعلم
اشباہ میں جامع الفصولین کی اٹھائیسویں فصل سے منقول ہے اگرقرض ترکہ کا احاطہ کرلے تو بطورمیراث اس کاکوئی وارث نہیں ہوگا جبکہ قرضخواہ میت کو قرض سے بری کردے یاکوئی وارث ادائیگی کے وقت تبرع کی شرط کرتے ہوئے اس قرض کواداکردے۔ لیکن جب وارث نے تبرع اور رجوع کی شرط کئے بغیرمطلقا اپنے مال سے قرض اداکیاتومیت پر اس وارث کاقرض واجب ہوجائے گا۔ اسی طرح وہ ترکہ وارث کے قرض میں مشغول ہوجائے گا الخ اور اسی میں چندسطروں کے بعدہے وارث کے لئے جائزہے کہ وہ قرض اداکرکے ترکہ کو واگزارکرالے اگرچہ وہ قرض ترکہ کومحیط ہوالخ۔ عقودالدریۃ میں فصول العمادیہ سے بحوالہ قسمۃ الہدایۃ (ہدایۃ کی کتاب القسمۃ) منقول ہے کہ حق میت کی وجہ سے میراث کی تقسیم قرض کی ادائیگی سے موخرہوگی مگرجبکہ تقسیم کے بعد ترکہ میں سے اتنامال باقی بچتاہے جوقرض کی ادائیگی کے لئے کافی ہے توایسی صورت میں اگرترکہ تقسیم کردیاگیا توجائزہے اھ  التقاط۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی  ۲ /۲۰۵۔۲۰۴)

(۲؎الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی  ۲ /۲۰۵)

(۱؎ العقودالدریۃ     کتاب القسمۃ     ارگ بازار قندھار افغانستان ۲ /۹۶۔۱۹۵)
مسئلہ ۴۷ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدفوت ہوا اورترکہ اس کا عوض دین مہرزوجہ ہندہ مکفول تھا، عمرووارث نے نالش انفکاک رہن کرکے بادائے ایک سوتریسٹھ ۱۶۳ روپیہ دین مہر کے دائرکرکے ڈگری حاصل کی اور کل دین مہرزوجہ ہندہ کو بلاتبرع اداکردیا، بعدہ، ہندہ نے اپناحصہ بدست مسماۃ حسینی دختراپنی کے بیع کردیا، اب حسینی بلاادائے دین کے ترکہ مورث تقسیم کردیناچاہتی ہے، اس صورت میں بلاادائے دین مہررسدی کے حسینی حصہ اپنی ماں کاتقسیم کراسکتی ہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا(بیان کیجئے اجردئیے جاؤگے۔ت)
الجواب : جبکہ عمرو نے اپنے زرخاص سے دین مہرہندہ بلاتبرع اداکیا تو وہ ترکہ جس طرح پہلے دین ہندہ کے لئے محبوس تھا اب دین عمرو کے لئے محبوس ہوگیا،
ذکر ذٰلک فی الحموی ان الوارث لولم یشترط التبرع لم تخلص الترکۃ من الدین لانہ صار محبوسا من حق الوارث۲؎۔
اس کو حموی میں ذکرکیاہے کہ اگروارث تبرع کی شرط نہ کرے توترکہ قرض سے واگزارنہیں ہوگا کیونکہ وہ وارث کے حق میں محبوس ہوجائے گا(ت)
 (۲؎ غمزالعیون البصائر )
حتی کہ جب تک دین عمرو متروکہ زید سے ادانہ کیاجائے یاورثہ اپنے مال خاص سے بطریق تبرع قضانہ کردیں اس ترکہ میں کوئی تصرف ورثہ کامثل بیع وہبہ وغیرہما کے بلااجازت عمرومذہب راجح پرنافذ نہیں ہوسکتا۔
فی الطحطاویۃ حکم الترکۃ قبل قضاء الدین کحکم المرھون بدین علی المیت فلاتنفذ تصرفات الورثۃ فیھا ھذا  اذا کانت الترکۃ اقل من الدین اومساویۃ لہ واما اذاکان فیہا زیادۃ علیہ ففی نفوذ تصرفات الورثۃ وجہان احدھما النفوذ الٰی ان یبقی قدرالدین واظھرھما عدم النفوذ علٰی قیاس المرھون ۱؎ اھ
طحطاویہ میں ہے قرض کی ادائیگی سے پہلے ترکہ کاحکم میت پرقرض کے بدلے رہن رکھی ہوئی شے کے حکم کی مثل ہے۔ چنانچہ اگرترکہ قرض سے کم ہو یا ااس کے برابرہو توترکہ میں وارثوں کے تصرفات نافذ نہیں ہوں گے۔ لیکن اگرترکہ میں قرض سے زیادتی موجود ہو تو وارثوں کے تصرفات نافذ ہونے میں دو وجہیں ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ تصرفات نافذ ہوں گے جب تک ترکہ بقدر قرض باقی رہے اور ان میں سے زیادہ ظاہروجہ مرہون پرقیاس کرتے ہوئے تصرفات کاعدم نفاذ ہے اھ (ت)
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الفرائض     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۴ /۳۶۷)
پس اگر عمرو نے بیع ہندہ کو اجازت نہ دی تو حسینی کواختیار ہے چاہے ا س وقت صبرکرے کہ ترکہ دین سے فارغ ہوجائے یاحکم شرع کی طرف رجوع کرکے بیع فسخ کرالے
کما ھو حکم المرھون المصرح بہ فی المتون
 (جیسا کہ مرہون کاحکم ہے جس کی تصریح متون میں کردی گئی ہے۔ت) رہی تقسیم ترکہ پس اگراس ترکہ کے سوازید متوفی کا اور کوئی مال ایساہے جوادائے دین کے لئے وفا کرے یاورثہ اس جائداد سے بقدرکفایت دین جداکردیں توباقی ماندہ کو باہم حسب فرائض تقسیم کرسکتے ہیں ورنہ جب تک ترکہ دین سے فارغ نہ ہوجائے خواہ بایں طور کہ اسی جائداد سے دیاجائے یاورثہ اپنے پاس سے تبرعاً دیں یاعمرو دین معاف کردے، بے اس کے تقسیم ترکہ سے ممنوع رہیں گے
کما فی القسمۃ الھندیۃ وغیرھا من کتب الفقہ
 (جیسا کہ ہندیہ وغیرہ کتب فقہ کی کتاب القسمۃ میں ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۴۸ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں مادرزید زمین داری تھا وہ ایک پسر تین دخترچھوڑ کرفوت ہوئی، ایک دختر نے اپنا حصہ زید کو دے دیا باقی دختران کو زید نے دوحصہ بموجب شرع شریف گاؤں یں دے دئیے، اس گاؤں میں چارقطعہ باغ زید نے اپنی ماں کی حیات میں اس کے رضامندی سے غرس کئے تھے۔ اب بعد فوت مادران باغوں میں بہنوں کابھی کچھ حق ہے یاوہ فقط غارس کے لئے ہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب : اگرزید نے تعین کی تھی کہ یہ باغ میں اپنے واسطے لگاتاہوں یا اس کی والدہ نے اس سے کہاتھا کہ تواپنے لئے باغ لگالے تودرختوں کامالک زید ہی ہے نہ دیگرورثہ۔ اوراگرنہ اس نے اپنے لئے تعین کی نہ مورثہ کے کلام میں خاص اس کے لئے اجازت تھی بلکہ صرف باغ لگانے کی رضامندی ظاہر کی تو وہ باغ بی مادرزید کی ملک ٹھہرکر اس کے سب وارثوں پرحسب فرائض منقسم ہوجائیں گے۔
فی شتی الدرالمختار عمردارزوجتہ بمالہ باذنہا فالعمارۃ لہا والنفقۃ دین علیھا الصحہ امرھا و لوعمرلنفسہ فالعمارۃ لہ۱؎ اھ  ملتقطاً۔ قال الشامی فلوباذنہا تکون عاریۃ۲؎ اھ  وفی وقف الاشباہ کل م ن بنی فی ارض غیرہ بامرہٖ فالبناء لما لکہا۳؎ قال الحموی قیل ھذا اذا طلق او عینہ للمالک فلوعینہ لنفسہ فھو لہ ویکون مستعیرالارض الخ، وذیلہ بقولہ فاغتنمہ۱؎ اھ ،
درمختار کے مسائل شتٰی میں ہے مردنے بیوی کی اجازت سے اس کامکان اپنے مال سے تعمیر کیاتو وہ عمارت بیوی کی ہوگی اورخرچہ اس بیوی پرقرض ہوگا کیونکہ بیوی کاامرصحیح ہے، اور اگرمرد نے اپنے لئے تعمیر کرائی تو وہ عمارت مرد کی ہوگی اھ  التقاط۔ شامی نے کہا اگرعورت کی اجازت سے تعمیرکرائی تو وہ عاریت ہوگی اھ  الاشباہ کی کتاب الوقف میں ہے جس شخص نے غیر کی زمین میں اس کے حکم کے ساتھ عمارت بنائی تو وہ عمارت زمین کے مالک کی ہوگی۔ حموی نے کہا: کہاگیاہے کہ یہ اس وقت ہے جب عمارت بنانے والا تعیین نہ کرے یامالک کے لئے تعیین کرے۔ چنانچہ اگراس نے اپنی ذات کے لئے تعیین کی توعمارت اس کی ہوگی اور وہ زمین کو عاریت پرلینے والا قرارپائے گا الخ اور اس کے آخر میں یہ قول لکھاکہ تو اس کوغنیمت جان اھ ۔
 (۱؎ الدرالمختار         مسائل شتّٰی         مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۴۸)

(۲؎ ردالمحار      مسائل شتّٰی    داراحیاء التراث العربی بیروت     ۵ /۴۷۶)

(۳؎ الاشباہ والنظائر     کتاب الوقف     ادارۃ القرآن کراچی     ۱ /۳۰۲)
وفی متفرقات غصب الندیۃ اذا غزلت المرأۃ قطن زوجہا فان اذن لہا بالغزل وقال اغزلیہ لنفسک کان الغزل لہا ولو قال اغزلیہ ولم یذکر شیأا کان الغزل للزوج۲؎ اھ  بالالتقاط۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
ہندیہ میں کتاب الغصب کے متفرقات میں ہے ایک عورت نے اپنے شوہر کی روئی سے سوت کاتا، اگرشوہر نے اس کوکاتنے کی اجازت دی اورکہا کہ تو اس کواپنے لئے کات لے(صاحب ہندیہ نے کہا) تو وہ سوت عورت کاہوگا، اوراگرکہا کہ تو اس کوکات لے، اس کے علاوہ کچھ ذکرنہیں کیاتو سوت شوہرکاہوگا  اھ  التقاط۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     کتاب الوقف     ادارۃ القرآن کراچی     ۱ /۳۰۲)

(۲؎ الفتاوی الھندیۃ     کتا ب الغصب     الباب الرابع عشر     نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۵۳۔۱۵۲)
Flag Counter